میٹرو بس اور گدھوں کا گوشت

جمعہ 31 اکتوبر 2014

Muhammad Afzal Shaghif

محمد افضل شاغف

ملک کی سیاسی صورتحال سے تو ہر چھوٹا بڑا باخبر ہے ہی ۔ اُدھر کپتان ہے کہ جم کے کھڑا ہے اور تہیہ کیے ہوئے ہے کہ جب تک نواز شریف اپنے عہدے سے مستعفی نہیں ہو جاتا وہ وہاں سے ہلنے کا نہیں ۔ نوا زشریف صاحب ہیں کہ ”کرسی شریف“ سے چپکے بیٹھے ہیں ۔ کوئی کچھ کرے جیئے یا مرے ان کے کان پر جوں تک نہ رینگے گی ۔ ڈھٹائی کی حد تک یہ بھی جم کے کھڑے ہیں کہ استعفیٰ نہیں دینا کیونکہ یہ اپنے آخری اقتدار میں ملک و قوم کو ادھیڑ ادھیڑ کر لوٹنا چاہتے ہیں اور آنے والے ہزار سال تک کا سرمایہ اکٹھا کرنا چاہتے ہیں جہاں تک اُنہوں نے خود بھی زندہ نہیں رہنا ۔

کپتان کے قافلہ کے ہم پلہ جناب محترم ڈاکٹر طاہر القادری صاحب جو کہ عجیب و غریب اور پر اسرار بیان بازی کرتے رہے کبھی کفن پہننے کے دعوے ، کبھی انقلاب کی رٹ، تو کبھی دما دم مست قلندر۔

(جاری ہے)

شروع شروع میں گمان ہوتا تھا کہ شاید وہ کپتان کا ساتھ دیں گے لیکن بعد کے حالات نے ثابت کر دیا کہ انہوں نے تو مداری کی طرح ڈگڈگی بجا کر عوام الناس کا جمِ غفیر اپنے اردگرد اکٹھا کیا اور سانپ اور نیولے کی لڑائی کا اعلان کیا ۔

عوام ان کی چرب زبانی کی وجہ سے عرصہ تک سانپ اور نیولے کی لڑائی کا انتظار کرتے رہے لیکن نہ تو سانپ ہی نکلا اور نہ نیولہ ہے میدان میں آیا ۔آخر کار انہوں نے اپنی ہی دوا بیچی اور چلے گئے ۔
میں نے اپنے ایک کالم میں موصوف کے لیے ”لہو لگا کر شہیدوں میں شمار ہونا “ کی ضرب المثل استعمال کی تھی جوکہ بالکل درست ثابت ہوئی ۔طاہرالقادری صاحب نے تو واپسی کی راہ لی لیکن اپنی پارٹی اور ورکروں کے لیے بہت سے سوالات تشنہ تکمیل چھوڑ گئے جن میں سے ایک مبینہ طور پر سانحہ ٴ ماڈل ٹاؤن کے شرکاء کے لواحقین کے حصے کے کروڑوں روپے بسلسلہ دیت منہاج القرآن ٹرسٹ کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر ہونا بھی ہے ۔

یہ سیاسی دنگل ہر روز نت نئی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے ۔ عمران خان کے مخالفین کپتان کی حکمت عملی میں تبدیلی کو غلط فہمی کی بناء پر دھرنے کی معاشی کمزوری سمجھ کر تازہ تازہ اور کرارے کرارے بیانات داغ رہے ہیں ۔ شاید انہیں معلوم نہیں کہ کپتان اپنی پالیسی میں تبدیلی کر کے ہی میچ کا پانسا پلٹا کرتا ہے ۔ ہو سکتا ہے کپتان صاحب فاسٹ ہٹر بیٹسمین کو ”گگلی باؤلنگ “ کے ساتھ بولڈ کرنا چاہتے ہوں ۔


اب ہم آتے ہیں اپنے صوبائی دارالحکومت زندہ دلوں کے شہر کی جانب ، تو جناب اقتدار کے ایوانوں میں مخملیں بستر پہ بیٹھے ہوئے حکمران خاندان نے میڈیا پر دکھائے جانے والے واقعات تو چشم بینا سے دیکھ لیے ہوں گے کہ بادامی باغ کے علاقہ میں کچھ مردہ دل عناصر نے ”زندہ دل “ والوں کو مردہ گدھوں کا گوشت کھلا ڈالا۔ ایسے حالات کی خبریں سن کر دل کرتا ہے کہ موجودہ حکومت کی کارکردگی پر ماتم کیا جائے ۔

اس حکمران ٹولے سے اگر دریافت کیا جائے کہ ملک اس وقت کیسے چل رہا ہے تو یقیناً ”گڈ گورننس “ کا نعرہ لگائیں گے اور ضرور کہیں گے کہ ملک ٹھیک چل رہا ہے کیوں کہ میٹرو بس ٹھیک چل رہی ہے ۔
نواز شریف صاحب ویسے ہمارے بھولے بھالے اور معصوم وزیر اعظم ہیں ۔ جب سیلاب نے جنوبی پنجاب میں تباہی پھیر کر رکھ دی تھی تو یہ اپنی ایک تقریر میں کہہ رہے تھے کہ ”یہ سیلاب نجانے کہاں سے آگیا “ ہائے ہائے ۔

وزیر اعظم صاحب آپ کی سادگی پہ قربان جاؤں ۔
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
یہی معصوم وزیر اعظم صاحب انڈیا میں اپنے ” کاروباری دورہ “ کے دوران تقریر میں فرما رہے تھے کہ ” ہمارا اور آپ کا کلچر ایک ہی ہے (نعوذ بااللہ ) ۔ جس کی آپ پوجا کرتے ہو اسی کی ہم عبادت کرتے ہیں (استغفراللہ) ۔

بس یہ درمیان میں جو بارڈر کی لائن سی ہے یہ ہمیں جدا کیے ہوئے ہے ورنہ تو ہم ایک ہی ہیں “۔ان کے اس بیان نے بیک وقت دو قومی نظریہ اور نظریہ پاکستان کی دھجیاں اڑائیں ۔ اس بیان سے قائد اعظم  کی روح کو لازمی تکلیف پہنچی ہوگی ۔
بات دور تک نکل گئی ۔ واپس آتے ہیں گدھوں کے گوشت کی جانب ۔ لاہور کی عوام نے اپنے طور پر گدھوں کے گوشت کو بیچنے کے ناجائز دھندے کے خلاف آواز اٹھائی اور الیکٹرانک میڈیا کی ٹیموں نے اس گھناؤنے دھندے کی ویڈیو عوام کو دکھائی ۔

نام نہاد حکمرانوں کے ٹولہ کو کچھ خبر نہیں کیونکہ ”ملک ٹھیک چل رہا ہے “ ۔ ارے اللہ کے بندو اپنا شہر تو کم از کم ٹھیک کر لو ۔حکومت کے پانچ سال پورے کرنے کے خواب دیکھنے والواپنے ایوانوں سے نکلو اور بھیس بدل کر پیدل ایسے علاقوں میں گھو مو تا کہ تمہیں عوام کے مسائل کا کچھ ادراک ہو سکے ۔ ایوانِ صوبائی حکومت جیسے شہرمیں ایسے دھندوں کا ہونا حکومتی بے بسی کی منہ بولتی تصویر ہے ۔

عوام پر بجلی کے بلوں کی شکل میں بے جا بوجھ ڈالاجائے تو پھر بھی کوئی بات نہیں کیونکہ میٹرو بس ٹھیک چل رہی ہے لہذا ملک ٹھیک چل رہاہے ۔ غریب عوام مفلسی کی وجہ سے خود کشیاں کرتے رہیں تو کوئی بات نہیں کیوں کہ میٹرو بس ٹھیک چل رہی ہے لہذا ملک ٹھیک چل رہا ہے ۔ نوجوان ہاتھو ں میں ڈگریا ں لیے در بدر کی ٹھوکریں کھاتے رہیں تو کوئی بات نہیں کیونکہ میٹرو بس ٹھیک چل رہی ہے لہذا ملک ٹھیک چل رہا ہے ۔

تھانہ کلچر کی بد معاشی کی وجہ سے کسی غریب کو گولیوں سے اڑا دیا جائے تو کوئی بات نہیں کیونکہ میٹرو بس ٹھیک چل رہی ہے لہذا ملک ٹھیک چل رہا ہے ۔ انڈین آرمی سیالکوٹ کے بارڈر پر مارٹر گولوں کے ساتھ مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلتی رہے تو کوئی بات نہیں کیونکہ میٹرو بس ٹھیک چل رہی ہے لہذا ملک ٹھیک چل رہا ہے ۔ میٹرو بس کے سالانہ خساراے کی وجہ سے ملکی معیشت تباہی کے دھانے پر جا نکلے تو کوئی بات نہیں کیونکہ میٹرو بس ٹھیک چل رہی ہے لہذا ملک ٹھیک چل رہا ہے ۔

پی آئی اے کے سات طیارے حکومتی غفلت کی وجہ سے کباڑیوں کے ہاتھوں کوڈیوں کے دام بک جائیں تو کوئی بات نہیں کیونکہ میٹرو بس ٹھیک چل رہی ہے لہذا ملک ٹھیک چل رہا ہے ۔
انسانوں کو مردہ جانوروں اور گدھوں کاگوشت کھلانے پر معصوم وزیر اعظم اور تبخیر کے مریض وزیر اعلیٰ کی جانب سے کسی قسم کا مذمتی بیان تک نہیں دیا گیا ۔ جن لوگو ں نے اپنے ہاتھوں سے یہ گوشت خرید کر انجانے میں اپنے خاندان اور پیاروں کو اپنے ہاتھوں سے کھلا ڈالا ، ان کے دل پر کیا بیت رہی ہو گی ۔


حکومت کے کارندوں سے استدعا ہے کہ ہیلی کاپٹروں اور طیاروں میں اڑنے کی بجائے اپنے گھر ”لاہور“ میں چل پھر کر دیکھیں کہ کہاں پر کیا ہو رہا ہے ؟ اپنی آنکھوں پر سے سیاہ چشمہ اتار کر ہی غلط درست کی شناخت ہو سکے گی ۔ پاکستانی قوم پر خدا کے لیے کچھ ترس کھایئے اور انہیں جینے کا حق دیجیئے۔ چند روز قبل میرے ایک دوست تنویر اسلم نے مجھے اوکاڑہ سے فون کیا اور کہا کہ یار زرا لاہور کا بتانا کہ میٹر و بس کیسی چل رہی ہے ۔ میں نے مشاہدہ کر کے اسے فون پر بتایا کہ میٹرو بس بالکل ٹھیک چل رہی ہے تو جواباً اس نے کہا ” شکر ہے اس کا مطلب ہے ملک ٹھیک چل رہا ہے “۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :