داعش پاکستان میں؟ پروپیگنڈے کے مقاصد۔۔۔۔

بدھ 12 نومبر 2014

Badshah Khan

بادشاہ خان

ہر طرف ایک نئے پروپیگنڈے کا زور ہے جیسے نئے طوفان یا کسی واقعے کی سرخ پٹیاں چینلز پر بدلتی رہتی ہیں اسی طرح دفاتر سے لیکر نجی مجلیس میں داعش کی پاکستان میں آمد کا غلغلہ ہے،اور کسی کو اس پہلو کی طرف دہان نہیں ہے کہ کون لوگ اسے میڈیا کے زریعے پاکستان میں لانچ کرچکے ہیں؟ان کا ہدف پاکستان و افغانستان کیوں ہیں؟ کیا مقاصد ہیں ؟ کراچی میں چاکنگ اور پشاور سمیت سرحدی علاقوں میں پمفلٹ وکتابچوں کو کس نے تقسیم کیا؟اس صورت حال سے معاشرے میں مزید تفرقہ سامنے آرہا ہے ہر طرف پریشانی ہے ۔


اب آتے ہیں دوسری بات کی طرف داعش کیا ہے ؟ عراق میں کیسے وجود میں آئی اور اس میں کون لوگ شامل ہیں،اور کون اس کا ہدف ہے؟ داعش دولت اسلامیہ عراق وشام کا مختصر نام جو کہ اب مزیدکم ہوکر آئی ایس بن گیا ہے کا وجود عراق میں ریاستی سربراہی میں ہونے والے جبر کے نتیجے میں ابھر کر سامنے آیا یہ میرے الفاظ نہیں عراق کے سب سے بڑے قبیلے کے سربراہ نے ایک نجی چینل سے بات چیت میں کہا نورالمالکی نے حکومت سنبھلانے کے بعد سنی مسلک کے لوگوں پر ظلم وجبر کی وہ داستان رقم کی کہ اس کے ردعمل میں داعش کا مجموعہ بنا اس گروہ میں کیمونسٹ،مذہبی عناصر ، سابقہ فوجی اور انتقامی بدلہ لینے والے افراد جمع ہوگئے اور تھوڑے ہی عرصے میں مضبوط ہوگئے داعش کا قیام اگرچہ2006میں ابومصعب الزرقاوی کے جاں بحق ہونے کے بعد لایا گیا تھا مگر ۲۰۱۰ میں ابوبکر البغدادی کے امیر مقرر ہونے کے بعد تیزی سے ابھر کر سامنے آئی اور صرف چارسالوں میں موصل سمیت کئی صوبوں پر قابض ہوگئی اس تنظیم کو سنی اکثریتی علاقوں میں سپورٹ ملی، کیونکہ نورالمالکی نے مغربی سازش کے تحت جس فرقہ واریت کو پروان چڑھا تھا وہ عراق میں فروغ پاچکی ہے، امریکہ عراق کو تین حصوں میں تقسیم کرنا چاہتا تھا اور ایسا لگتا ہے کہ شائد وہ عراق میں کامیابی کے قریب ہے۔

(جاری ہے)


عراق میں اپنے ناپاک منصوبے کو کامیابی کے قریب دیکھ اس منصوبے کو عرب ممالک کے بعد پاکستان وافغانستان کے تیار کیا گیا اور چند نامعلوم افراد نے کراچی کی چند مقامات پر داعش کی چاکنگ کی اور اس واقعے چند روز قبل پشاور سمیت سرحدی علاقوں میں داعش کا پملٹ تقسیم کیا گیا اور اس کے لئے افراد کو تیار کیا جارہا ہے تاکہ یہاں بیلک واٹر کا نام داعش بن جائے اور اس میں حقیقت کا رنگ بھرنے کیلئے تین نکاتی منصوبے پر عمل درامد کی تیاریاں کی جارہی ہیں پہلا ان نوجوانوں کو تیار کرنا جو انتیقامی حملوں کے لئے تیار ہوں ،دوسرا مذہبی جماعتوں کے افراد کو اس میں شامل کرنا اور تیسرا فرقہ واریت کو ہوا دینے کے لئے مزارات اورافراد پر حملے و دھماکے شامل ہیں،کیونکہ اس وقت تک پاکستان میں داعش نامی تنظیم کا وجود نہیں ہے خود وزیر اعظم میاں نواز شریف نے چند روز قبل کہا کہ پاکستان میں داعش کی جگہ نہیں ہے اور نہ ہی موجود ہے۔


پھر کیا وجہ ہے کہ داعش کے بارے میں اس قدر تیزی سے رائے سازی کی جارہی ہے چند مبصرین کے نزدیک اس کے زریعے پاکستان دشمن ممالک کئی مفادات حاصل کرنا چاہتے ہیں جن میں سے ایک ہدف نیٹو کے انخلا کے بعد پختون آبادیوں میں افغان طالبان کا اثر رسوخ کم کرنا، افغانستان میں طالبان کا راستہ روکنا اور قبائلی علاقوں سے افغان طالبان کو کاٹنا تاکہ کابل پر مغربی طاقتوں کے اشارے پر بیھٹے حکمران موجود رہیں کیونکہ اگر طالبان کے سامنے کوئی قوت کھڑی نہ کی گئی تو آئندہ چندبرسوں میں طالبان ایک بار پھر کابل کے تخت پر براجمان ہونگے اور امریکہ و اس کے حواریوں کا آخری پتہ بھی بے کار جائیگا۔


رہی بات پاکستان کی تو پاکستان میں داعش کے نام سے جماعت کاقیام آسان ہے مسلکی اختلافات کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں اور داعش کے بننے کے بعد ملک میں فرقہ واریت میں اضافہ خطرناک حد تک بڑھ سکتا ہے اور یہی پاکستان کے دشمن چاہتے ہیں استنبول ابھی تک ختم نہیں ہوا جس میں کراچی کو الگ ملک کی شکل دینا تھی مغربی ہرکارے اب بھی مصروف عمل ہیں۔
اس بین الاقومی سازش جس کے زریعے عرب ممالک میں فرقہ واریت بھڑکا کرشام ،عراق ویمن میں سنی شیعہ لڑائی شروع کرائی گئی جس کے دوسرے اہداف میں سعودی عرب وبحرین بھی ہیں اس آگ میں پاکستان و افغانستان کو دھکیلنے کی کوشش جاری ہے اور پاکستان سمیت امت مسلمہ دم سادے چپ ہے صرف بیانات پر زور ہے کوئی کہہ رہا ہے کہ داعش کا سربراہ نیا لارنس آف عربیہ ہے کوئی فتوئے جاری کررہا ہے اور اگر مخالف فرقے سے ہے تو اس کا تو رنگ ڈھنگ کی نرالہ ہے مگر مسئلے کے حل کی طرف کسی کی توجہ نہیں ہے۔


اب صورت حال یہی رہی اور پاکستان بالخصوص سندھ میں جہاں حکومتی جبر کے نتیجے میں ایک طبقے کے افراد و علما کو مارا جارہا ہے صوبے میں تحفظ پاکستان بل کی وجہ سے پولیس اسٹیٹ بن چکی ہے اور وزیراعلی صاحب کو کچھ معلوم نہیں تو پھر گلہ کرنا فضول ہے اب بھی وقت ہے کہ تمام مسالک کے جید علماء کو جمع کرکے مضبوط لائحے عمل ترتیب دیا جائے ورنہ دشمنوں میں گھرے پاکستان کی سالمیت کو اس وقت شدید خطرات لاحق ہیں،ہمیں اندرونی خطرے کے ساتھ ساتھ بیرونی بین الاقومی خطرے پر بھی نظر رکھنی ہوگی لازمی نہیں کہ ہم اندر سے مار کھائیں باہر سے ہونے والے حملے بھی شدید ہوتے ہیں آئی ایس کیا ہے اس بحث میں پڑھنے کے بجائے ان اسباب کا تدارک کرنا ہوگا جس سے آج شام و عراق تقسیم کے دھانے پر ہے۔

ہمارے ایک دوست احمد ولی مجیب نے گذشتہ دنوں پوچھا کہ داعش کی حقیقت کیا ہے میرے دوست میرے بھائی داعش کی حقیقت ہمارے معاشروں میں جاری ناانصافی حکمرانوں کی نااہلی و کرپشن ہے جس سے آج عرب دوچار ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ اگر تدارک وقت پر نہ کیا گیا تو پاکستان بھی شکار ہوگا، فاٹا سے بلوچستان تک اور کراچی سے کشمیر تک سب کو مطمئن کرنا ہوگا ورنہ داعش نہ سہی کوئی اور نام بھی سامنے آسکتا ہے اور اسکے زمہ دار حکمران ،علماء و دور جدید کا بے لگام میڈیا ہوگا،قلم کا طوفان بر پا ہے اللہ خیر کرے۔۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :