ہم قوم کیوں نہ بن سکے؟

منگل 18 نومبر 2014

Dr Awais Farooqi

ڈاکٹر اویس فاروقی

68برس پہلے وجود میں آنے والی مملکت خدا داد پاکستان جس کے سینے پر بیٹھ کر ہم بڑئے فخر سے آزادی کی فضاوں میں سانس لے رہے ہیں کو حاصل کرنے کے لئے ایک لازوال قربانیوں کی داستان رقم کی گئی کوئی حمتمی اعداد و شمار تو میسر نہیں ہیں مگر مختلف زرائع یہ بتاتے ہیں کہ کسی ملک کے حصول کی خاطر پہلی مرتبہ دنیا تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کی گئی لاکھوں افرد ادھر سے ادھر ہوئے اور دس لاکھ سے زائد افراد نے اپنی جانیں دیں جبکہ ہزاروں کی تعداد میں مسلمان خواتین بے حرمتی اور جبری شادیوں کی نذر ہوئیں یہ سب اس لئے کیا گیا کہ ہمیں ایک ایسی آزاد فضا میسر ہو جہاں ہم ایک قوم کے طور پر رہیں اور دنیا بھر میں پہچانے جائیں آج ہم 68 برس بعد جہاں سے چلے تھے اس نقطہ آغاز سے بھی بد تر حالت میں ہیں بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ جس ہجوم کو قائد نے قوم بنانے کی خاطر اپنا دن رات ایک کیا اور بے سروسامانی کے عالم میں ملک بھی حاصل کیاا ور قوم بھی بنائی لیکن صد افسوس کے قائد کے بعد آنے والی قیادتوں نے نہ ہی ملک ایک رہنے دیا اور نہ ہی قوم کو قوم بننے دیا ،پاکستان بننے کے ساتھ ہی جعلی کلیموں کے زریعے نا انصافی اور بے ایمانی کی جو بنیاد رکھی گئی وہ آج تن آوار درخت بن چکی ہے بلکہ کرپشن ہمارے لہو میں سرایت کر چکی ہے۔

(جاری ہے)


حصول آزادی کے لئے ہم ایک قوم بنے اور وہ کر دکھایا جس کی کسی کو امید نہ تھی مگر اس کے بعد ہم 68 برسوں میں آج تک ایک قوم نہ بن سکے۔1979 تک کی صورت حال پھر بھی کچھ بہتر تھی حالانکہ اس دوران میں ہم آدھا ملک گنوا چکے تھے لیکن پھر بھی ہمارے حالات کچھ بہتر تھے جنرل ضیا الحق کے آتے ہی ملکی وحدت کا شیرازہ بکھر گیا قوم فرقوں میں ہی نہ بٹی بلکہ لسانی ،سیاسی اور گروہی اور علاقائی تقسیم کا ایسا بیج بویا گیا جس کی فصل ہم آج سروں کی صورت کا ٹ رہے ہیں پاکستانی عوام کو زمین کی طرح بانٹ دیا گیا ۔

جیسے زمینوں کی آپس میں بندر بانٹ ہوتی ہے اور پھر اس بندر بانٹ کے نتیجے میں وہ زمین کا ٹکڑا کسی ایک فرد یا گروہ کی ملکیت ہوجا تا ہے، اس پر وہ چاہے جو مرضی کرے اس کی مرضی ہوتی ہے۔ اسی طرح اس عوام کی بندر بانٹ کر دی گئی اور اس کے نتیجے میں لوگ آزاد ملک میں رہ کر بھی مختلف سیاسسی و مذہبی گروہوں کے غلام بن کر رہ گئے۔ پاکستان تو بن گیا لیکن ہم ایک قوم آج تک نہ بن سکے۔

قوم کو قائداعظم متحد اور مضبوط کر سکتے تھے لیکن ان زندگی نے وفا نہ کی اور ملک مخدوموں، نوابوں، لغاریوں، مزاریوں، سرداروں، جمالیوں اور چودھریوں اور کے ہتھے چڑھ گیا۔ اور اس کا جو حال کیا گیا وہ آج سب کے سامنے ہے۔ انہوں نے سب سے کاری وار تعلیم اور صحت پر کیا سکول بننے نہ دئیے ۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق ہماری شرح خواندگی 30 فیصد سے اوپر نہیں جا سکی۔


دنیا میں تقریباَ اڑھائی سو سے زائد خود مختار ممالک ہیں جن میں اسلامی ملکوں کی تعداد 57 ہے۔ ان اسلامی ملکوں میں بھی جمہوری اسلامی ایران اور جمہوری اسلامی افغانستان کے علاوہ پاکستان ہی کو یہ فخر حاصل ہے کہ وہ ایک اسلامی جمہوریہ ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ عرب ممالک کی اکثریت اسلامی کے بجائے عرب ریاستیں یا جمہوریائیں کہلوانا زیادہ پسند کرتی ہے۔

ان 57 اسلامی ملکوں میں بھی صرف پاکستان ہی کو “مملکت خداداد” یعنی خدا کی عطا کردہ مملکت ہونے کا شرف حاصل ہے۔
یہ سوالات بھی جواب کے متقاضی ہیں کہ اس سرزمین پر آئے دن بچّوں، بوڑھوں، عورتوں اور مزدوروں کا قتل عام کیوں ہوتا ہے؟ یہاں احمدیوں اور عیسائیوں کو جان کے لالے کیوں پڑے ہوئے ہیں اور ہندو اپنی عزت و آبرو بچانے کی خاطرملک چھوڑنے پرکیوں مجبور ہیں؟۔

مذہب کے نام پر بڑی بے دردی سے مخالفین کی گردنیں کاٹی جاتی ہیں۔ جہاں مساجد، امام بارگاہیں، مزارات اور جنازے تک خود کش بمباروں سے محفوظ نہیں؟ہمیں اس بات پر بھی بہت ناز ہے کہ ہمارا ملک پاکستان اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہے لیکن ہم اس بات کا ذکر کرنا بھول جاتے ہیں کہ دنیا کے 120 ممالک میں کئے گئے سروے کے مطابق ہمارا ملک شرح خواندگی میں 114 ویں نمبر پر ہے۔

ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 60 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے جبکہ پانچ سال سے کم عمر کے 31 فیصد بچوں کو مناسب خوراک تک دستیاب نہیں۔ ایک ہیلتھ سروئے کے دروان یہ بتایا گیا کہ پاکستان میں5 سال سے کم عمر کے بچوں کی اموات کی تعداد 89 فی ہزار ہے،جبکہ شیر خوار بچوں کی شرح اموات 74فی ہزار ہے ان میں زیادہ تر بچوں کی اموات پیدائش کے ایک ماہ کے دوران ہو جاتی ہے ۔

اس کی وجوہات صحت عامہ کی سہولتوں کی عدم دستیابی بتائی جاتی ہے۔غیر سرکاری اداروں کے سروے کے مطابق اٹھارہ سو انسانوں کو صحت کی سہولیات فراہم کرنے کیلئے صرف ایک ڈاکٹر موجود ہے جس کی اہلیت کے بارے میں اندازہ لگانا مشکل ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ پاکستان بھر میں 916 ہسپتال ہیں جن میں شہری علاقوں کے ہسپتال ایک سو سے پانچ سو بستروں پر مشتمل ہیں، دیہی علاقوں کی صورتحال کا اندازہ لگانا مشکل ہے، 4600 ڈسپنسریاں، 5301 بنیادی مراکز صحت، 552 دیہی مراکز صحت ہیں جبکہ ٹی بی مراکز کی تعداد 289 ہے۔

تمام پاکستانی ہسپتالوں میں مریضوں کے علاج معالجے کیلئے لگائے گئے بستروں کی تعداد 99908 ہے۔پاکستانی ریاست کی جانب سے عوام کو صحت کی سہولتیں مہیا کرنے کیلئے متعین کردہ ڈاکٹروں کی تعداد 113206 ہے۔ ماہر امراض دندان 6127، نرسیں 48446، دیگر ملازمین صحت 23559 اور لیڈی ہیلتھ ورکرز 6741 ہیں۔ مگر ان تمام ہسپتالوں اور مراکز صحت میں کتنی سہولتیں ادوایات اور ڈاکٹرز حضرات موجود ہوتے ہیں اس ضمن میں خاموشی ہے۔

یاد رہے مندرجہ بالا اعداد و شمار 2004کے ہیں۔
ہم اپنی عوام ان کی ضرورت کے مطابق بجلی بھی مہیا کرنے کے قابل نہیں۔ بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ سے ملک کے متعدد کارخانے بند ہونے کے قریب ہیں اور ہمارا سرمایہ کار دیگر ملکوں میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ ہم تو ڈینگی مچھر اور کانگو وائرس تک کا مقابلہ نہیں کرسکتے جن کی وجہ سے ہر سال سینکڑوں لوگ جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔

ہسپتالوں میں صحت کی سہولیات میسر نہ ہو نے کی وجہ سے غریب ایڑیاں رگڑنے پر مجبور ہیں جبکہ حکمران اور امراء علاج معالجے کے لئے بیرون ملک جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔بچوں میں اموات کی شرح کے لحاظ سے پاکستان دنیا میں 25 ویں نمبر پرجبکہ جنوبی ایشیاء میں سر فہرست ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق ملک کی تقریباَ نصف آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے جس کی وجہ سے شہرء مختلف بیماریوں میں جکڑئے ہوئے ہیں جبکہ 22 فیصد لوگوں کو ٹوائلٹ کی سہولت تک میسر نہیں۔

بلوچستان اور سندھ کے دیہی علاقوں میں عوام اور جانور ایک ہی جوہڑ سے پانی پینے پر مجبور ہیں جبکہ تھر بچوں کی اموات کے حوالے سے عنقریب گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل ہونے والا۔ قدرت کی ہزار ا نعمتوں کے ھامل اس ملک کے عوام کی یہ حالت زارکر کے رکھ دی ہیاور قوم بننے کے تمام عوامل سے ہم پہلو تہی کرتے آئے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ ہم قوم کیوں نہیں بن سکے؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :