صوبائی محتسب سیکرٹریٹ سے استعفادہ حاصل کیجئے !!!

منگل 18 نومبر 2014

Younas Majaz

یونس مجاز

صاحبو ! جمہوری اقدا ر کے حامل جمہوری معاشرے میں اختیارات کے ناجائز استعمال کی روک تھام کے لیئے احتسابی عمل بنیادی ضرورت خیال کیا جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے وطن عزیز میں جمہوریت کے نام پر لوٹ مار کا بازار گرم ہے سر کاری اادرے مفلوج ہو کر رہ گئے ہیں اور سرکاری اہلکار بھی اس بہتی گنگا میں خوب اشنان کرتے دکھائی دے رہے ہیں ،کیونکہ سیاسی حکومتیں بہتر نظم ونسق چلانے میں ناکام ہوگئی ہیں سرکاری ادارے عضو معطل ہو کر رہ گئے ہیں باریاں لگا کر میثاق جمہوریت کی چھتری تلے پیپلز پارٹی نے پہلے پانچ سال اس ملک کو اپنے حلیفوں اے این پی ،جمعیت علما ءِ اسلام( ف) مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر جی بھر کر لوٹااب مسلم لیگ ن اسی ڈگر پر چل رہی ہے لیکن تحریک انصاف کے دھرنوں نے ان کے رنگ میں بھنگ ڈال دی ہے جس کے اثرات مرتب تو ہوئے ہیں تاہم پارلیمنٹ مین موجو د کرپشن کے عامل جمہوریت پسندوں نے اس بیل کو منڈے چڑنے سے روک رکھا ہے ،سوال یہ پیدا ہو تا کیا یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا باوجود اس کے کہ احتساب کے ادارے موجود ہیں جن کے آگے عمومی طور پر سرکاری افسران اور ادارے اپنے کردار اور افعال کے لئے جواب دہ ہیں سرکاری ملازم کا احتساب کسی بھی سر کاری ملازم یا ادارے کے فرائض اور ذمہ داریوں کی تکمیل یا کسی ادارے یا ملازم کو اپنے کئیے کا حساب دینے کے طریقہ کار پر منحصر ہے اس نکتہ نگاہ سے احتساب کا مطلب تسلیم شدہ معیار پر پورا اترنا ہے اور جب اسے حکمت عملی کے طور پر اپنایا جا ئے تو مقصد طاقت اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی روک تھام اور اس میں کمی لانا ہے ،سیاسی ،عدالتی،قانونی اور انتظامی احتساب کو یقینی بنانے کے لئے ملک بھر میں کئی ادارے قائم کئے گئے ہیں جن میں محتسب کا ادارہ بھی اسی احتسابی نظام کا حصہ ہے جسے سرکاری اداروں کے خلاف بدانتظامی کی شکایات کے بارے میں سماعت اور اقدامات کا اختیار دیا گیا ہے تاکہ حکومتی اداروں اور سرکاری ملازمین کے خلاف عام شہریوں کی شکایات کے ازالے کو یقینی بنایا جاسکے ۔

(جاری ہے)


محتسب کے ادارے وفاق کے علاوہ پنجاب ،سند ھ اور بلوچستان میں بالترتیب2001,1991.1997,1983 میں قائم ہوئے لیکن خیبر پختون خواہ میں طویل عرصہ تک اس کا قیام عمل میں نہ لایا جا سکا تاہم اے این پی کے دورِ حکومت میں خیبر پختون خواصوبائی محتسب ایکٹ 2010 نافذ کیا گیا جس نے فروری 2011میں صوبائی محتسب خیبر پختون خوا کے دفتر کے قیام کی راہ ہموار کی لیکن دفتر کے جزوی قیام سے کوئی مو ثر کردار کی توقع پوری نہ ہو سکی کیونکہ انسانی وسائل کی کمی اس کی کارکردگی اور اہلیت کو بری طرح متاثر کر رہی ہے تحریک انصاف کی حکومت نے اسے مزید موثر بنانے کے لئے اقدامات اٹھائیں ہیں اس ادراہ میں خواتین اور بچوں کے مسائل حل کرنے کے لئے ایک علیحدہ سیکشن قائم کیا گیا ہے مجھے گزشتہ دنوں صوبہ خیبر پختون خوا محتسب سیکرٹریٹ پشاور(حیات آبادفیز۵نزدنادرہ آفس فون نمبر[email protected],9216627-28 ; )میں جانے کا اتفاق ہوا سبیل اس کی یوں نکلی کہ ایک ذاتی کام سے پشاور جانا تھا جب کہ میرے ایک عزیز دوست معروف شاعرو کالم نویس نیر سرحدی کے بڑے بھائی ایس ایس پی( ر) فاروق جان بابر صاحب( جنھیں ہم بھائی جان کہتے ہیں معروف شاعر بھی ہیں اور آج کل صوبائی محتسب سیکر ٹریٹ میں انویسٹی گیشن سیل کے سر براہ ہیں ) حج کی سعادت حاصل کرکے واپس لوٹے ہیں سو ان سے شرفِ ملاقات بھی مقصو د تھی ذاتی کام نبٹانے کے بعد بھائی جان کو فون کیا پتہ چلا وہ آفس میں ہیں ، ان کے آفس پہنچا تو وہ نماز پڑھنے گئے تھے میں نے بھی اس فرض کی ادائیگی کو مقدم سمجھا نماز سے فارغ ہو کر واپس گیا تو ان کوموجود پایا، دیکھ کر خوش ہوئے گلے لگایا میں نے حج کی مبارک باد دی دعائیں لیں روضہءِ رسولﷺ کی حاضری کے موقع کہے گئے اشعار ان سے سنے اور پھر حکم ملاچلوکھانا گھر چل کر کھائیں گے گل بہار جاتے ہوئے راستے میں میری صحافتی رگ پھڑکی تو میں سوال د اغ دیا بھائی جان یہ آپ کے محتسب سیکرٹر یٹ کا کیاکام ہے عام آدمی کے لئے فوائدحاصل کرنے کا طریقہ کار کیا ہے تو وہ گویا ہوئے صوبائی محتسب کسی بھی صوبائی سرکاری و حکومتی ادارے میں بد انتظامی یا اس کے کسی اہلکار یا افسر کے خلاف تحریری شکایت پر جو کسی شکایت کنندہ کی طرف سے موصول ہوئی ہو یا گورنر ،صوبائی اسمبلی ،سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے کسی ریفرنس یا ازخود کاروائی کرتے ہوئے تفتیش کا آغاز کر سکتا ہے البتہ د رج ذیل معاملات میں صوبائی محتسب کو اختیار حاصل نہیں ۱؛کوئی ایسا معاملہ جو کسی عدالت یا جوڈیشل ٹرابیونل میں زیر سماعت ہو۔

۲؛․ امور خارجہ سے متعلق کوئی معاملہ ۔۳؛ مسلح افواج بشمول نیوی ائیر فورس سے متعلق کوئی شکایت ۔۴؛سرکاری ملازم کا اس کے اپنے محکمے سے سروس کے بارے میں شکایت ،صوبائی محتسب اپنے اختیارات اورفرائض منصبی ،دیانت اری ،شفاف اور انتظامیہ کے اثرو رسوخ سے بالکل آزاد انداز میں انجام دے گا اور صوبے کی انتظامی مشینری ااس سلسلے میں صوبائی محتسب سے تعاون کا پابند ہے بد انتظامی سے کیا مراد ہے کے سوال پر بھائی جان نے بتایا کہ بد انتظامی کے میں وہ تمام فیصلے اور سرکاری و انتظامی امور شامل ہیں جو خلاف ِقاعدہ وقانون ،غلط ،غیر منطقی ،غیر دانشمندانہ ،غیر منصفانہ ،مخالفانہ ،امتیازی رویہ ،غیر متعلقہ وجوہات اور بدیانتی و غیر موزوں بنیااور اختیارات کے استعمال پر مبنی ہوں یا رشوت ستانی ،اقراباء پروری ،پسند و نا پسند ،انتظامی زیادتی ،غفلت ،بے توجہی ،تاخیر ،نااہلی،نالائقی اور انتظامی امور کی انجام دہی و ذمہ داری سے پہلو تہی پر مشتمل ہوں،کوئی بھی شخص کسی بھی محکمے یا ادارے کی بد انتظامی یا نا انصافی کے خلاف ماسوائے عدالت اور صوبائی اسمبلی ،سفیدکاغذ پر اردو یا انگریزی میں شکایت تحریر کر کے صوبائی محتسب کے دفتر میں ذاتی طور پر یا کوئی اور ذریعہ استعمال کر کے دائر کر سکتا ہے ،تاہم ہر شکایت کے ساتھ شکایت کنندہ کے کمپیوٹر ائز قومی شناختی کی فوٹو سٹیٹ نقل اور حلف نامہ منسلک ہو نا چائیے کہ الزامات اس کے علم وعقیدہ کے مطابق سچ اور درست ہیں ،قبل ازیں کوئی شکایت اس بارے میں دائر نہیں کی گئی ،کوئی مقدمہ ،اپیل یا کوئی دوسری عدالتی کاروائی شکایت میں دیئے گئے الزامات کے بارے میں کسی عدالت یا ٹربیونل میں زیرِ سماعت نہیں ہے جب کہ شکایت پر شکایت کنندہ کا دستخط یا نشان انگوٹھا اور ڈاک کا مکمل پتہ بمعہ ٹیلفون نمبر یا موبائل نمبر درج ہونا ضروری ہے کسی گمنام یا دوسرے نام سے دی گئی شکایت پر غور نہیں کیا جائے گااس کے ساتھ ہی کوئی ایسی شکایت جس میں درج معاملہ کا علم شکایت کنندہ کو چھ ماہ کے عرصہ میں ہوا ہو قابل ادخال ہو گی ورنہ غیر موئثر ،البتہ مخصوص حالات میں اگر شکایت میں موجود الزامات کی تفتیش کو ضروری خیال کیا جائے تو اسے سماعت کے لئے منظور کیا جا سکتا ہے ہر شکایت میں آخری فیصلے کی نقل شکایت کنندہ اور محکمہ دونوں کو تفتیش کے احتتام پر ارسال کی جائے گی ،شکایت کنندہ یامحکمہ دونوں محتسب کے فیصلہ کے خلاف گورنر خیبر پختون خوا کے پاس تیس دنوں کے اندر نگرانی دائر کر سکتے ہیں اسی اثنا میں گل بہار آگیابھائی جان کے گھر پہنچے کھانا کھایا میں نے واپسی کا ارادہ ظاہر کیا تو بھائی جان کا اصرار تھا نہ جائیں آج شام ادبی تنظیم ”ملاقات“ کا ہفتہ وار اجلاس ہے سو شام تک کے لئے رک گیا قیلولہ کیا شام کو اٹھے نماز پڑھی اور حسام حر کے گھر جا پہنچے جہاں اجلاس منعقد ہو رہا تھا حسام حر بڑے تپاک سے ملے اتنے میں دیگر احباب بھی آگئے آج کے اجلاس میں ڈاکٹر نذیر تبسم کی غزل تنقید کے لئے پیش کی گئی جس پر شرکا ءِ محفل سجاد بابر، ناصر علی سید،عزیز اعجاز ، ، حسام حر،فاروق جان بابر مشتاق شباب ،یو نس مجاز(راقم)شکیل نایاب ،اقبال سکندر ،صوفی بشیر نے سیر حاصل بحث کی مجموعی طور بپرخوبصورت غزل قرار پائی اجلاس ختم ہوا تو میں نے اجازت چاہی بھائی جان اور اقبال سکندر کو راستے میں ان کے گھر ڈراب کیا پونے گیارہ پشاور سے چلا اور رات ایک بجے گھر( ہری پور)پہنچ گیا، ڈاکٹر نذیر تبسم کے اس شعر کے ساتھ اجازت ؛۔


تاک میں رہتے ہیں کچھ اسطرح سفاک سے لوگ
سہمے جاتے ہیں یہاں اپنے ہی ادراک سے لوگ

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :