میٹرو۔۔۔ اور کچھ پرانی یادیں

جمعرات 20 نومبر 2014

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

میٹرو بس سروس کے بعد اب میٹرو ٹرین کے منصوبے ایوان اقتدار کی راہداریوں میں پروان چڑھ رہے ہیں۔ اور جس جوش و جنوں سے میٹرو بس لاہور میں "کلکاریاں" بھر رہی ہے ۔ وہ دن دور نہیں کہ شاید میٹرو ٹرین بھی جلد ہی چنگھاڑتی دکھائی دے گی۔ لاہور میں میٹرو بس کی وجہ سے لوگوں کو سہولت میسر آئی لیکن یہ اختلاف اپنی جگہ میرا اب بھی موجود ہے کہ یہ سہولت صرف 27 کلومیٹر تک ہی کیوں؟ لیکن آج یہ نقطہ موضوع ء بحث نہیں ہے۔

میٹرو بس کا دائرہ ملتان تک وسیع کیا جا رہا ہے ۔ اور امکان یہی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ راولپنڈی ، اسلام آباد میں بھی ہواؤں کے سنگ جلد ہی اس کی ملاقات ہو گی۔ ہواؤں کے سنگ اس لیے کہ "میٹرو" کچھ اکھڑ مزاج ہے اسی لیے اسے بالا ہی بالا رکھا گیا ہے اور عام ٹریفک اس سے دور ہی رہے گی۔

(جاری ہے)

کچھ ایسا ہی میٹرو ٹرین کے ساتھ بھی ہو گا۔
پاکستا ن میں ہر شخص کے پاس اپنی گاڑی موجود نہیں اس لیے کروڑوں کے حساب سے لوگ حصول روزگار کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ کا سفر کرتے ہیں۔

اور اس سفر کے لیے یقینا ان کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ کہ سفر کا کوئی سستا ذریعہ میسر آئے۔اور امید تو یہی کی جا سکتی ہے کہ میٹرو ان کی دل کی یہ خواہش ضرور پوری کرے گی ۔ شاید اسی لیے راولپنڈی اسلام آباد میں لوگ دھول مٹی کی چادر اوڑھ کے بھی ناک بھوں نہیں چڑھا رہے کہ شاید اس منصوبے سے ان کی قسمت سنور ہی جائے۔
اس منصوبے کی اہمیت اپنی جگہ اہم ہے ۔

لیکن پتا نہیں کیوں جب سے یہ منصوبے شروع ہوئے ہیں مجھے کچھ بھولے بسرے قصے یاد آ گئے ہیں۔ مجھے مکمل طور پر تو شاید یہ قصے یاد نہیں کیوں کہ میں لکھاریوں کی اس نسل سے تعلق رکھتا ہوں جس نے ہوش سنبھالا تو دنیا ڈیجیٹل دور میں قدم رکھ چکی تھی۔ اسی لیے میری یادیں بھی محدود ہیں اور میرے لفظوں میں بھی فیض، غالب، پروین شاکر، یا اسی طرح کے دیگر ناموں جیسی چاشنی نہیں ہے۔

لیکن پھر بھی کچھ دوہرانے کی کوشش کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
جب میری نسل کے نوجوان نے عقل و شعور کی منزل پر قدم رکھا تو G.T.S بس سروس اپنی آخری سانسیں لے رہی تھی۔ لیکن پھر بھی خاکی دیوہیکل بس کی کچھ یادیں میرے پاس محفوظ ہیں۔ میں نے ایک خوبصورت گاؤں میں آنکھ کھولی اور آج تک میرا تعلق اس گاؤں کے ساتھ مضبوطی سے قائم ہے۔ میں خود کو آج تک ایک "ٹھیٹھ پینڈو" کہلواتے ہوئے فخر محسوس کرتا ہوں۔

والدین کیو ں کہ اپنے خواب اپنی اولاد کے ذریعے پورے کرتے ہیں لہذا مجھے بھی میرے والد نے شہر سے تعلیم دلوانے کا تہیہ کیا۔ اس وجہ سے ہی میرا واسطہ اس گم گشتہ بس سروس سے ہوا۔ اس بس سروس کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ اس کا ڈرائیور اور کنڈیکٹر دونوں زیادہ تر مقامی ہوتے تھے۔ لہذا اگر کسی غریب کے پاس کرایہ نہیں بھی موجود تو وہ بلا جھجک بس میں سوار ہو جاتا تھا کیوں کہ اسے یقین ہوتا تھا کہ اس کا ٹکٹ " بابو" ادا کر دے گا۔

(کنڈیکٹر کے پاس چونکہ بہت سے اختیارات ہوتے تھے اس لیے اسے اکثر بابو ہی کہا جاتا تھا)۔ یہ ایک کامیاب بس سروس تھی۔ گاؤں میں اگر کوئی بیمار ہو جائے تو ہسپتال لے جانے کے لیے ایمبولینس کا تو تصور ہی نہیں تھا بس رات کو گاڑی کے " بابو" کو اطلاع کر دی جاتی تھی کہ صبح ایک مریض بھی بس میں جائے گا۔ یا پھر صبح بس کے وقت سے پہلے سٹاپ پر پہنچ جاناہی بہتر سمجھا جاتا تھا۔

کسی کو بکری یا اپنی سبزیات منڈی تک لے جانا ہوتیں تو الگ سے گاڑی کا بندوبست کرنے کے بجائے یہی بس کام آتی تھی۔راولپنڈی میں اس بس کا مرکزصدر کے علاقے میں تھا۔اس بس سروس میں کرایہ نہ ہونے کے برابر ہوتا تھا(یعنی بہت کم )۔اور کرایہ کسی غریب کے پاس نہ ہونے کی صورت میں یہ ڈر نہیں کہ نیچے اتار دیا جائے گا۔ غرض یہ کہ یہ سہولت ہر لحاظ سے عام آدمی کے لیے فائدہ مند تھی۔

لیکن یہ کیوں کہ عام آدمی کے لیے فائدہ مند تھی اس لیے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شہری " بابوؤں " نے اس بس سروس کو نگل لیا( یہ بابو بس کے کنڈیکٹر بابو سے بہت مختلف تھے)۔ اور 90ء کی دہائی میں یہ بس سروس ہمیشہ کے لیے قصہ ء پارینہ بن گئی۔
اسی طرح کراچی ، جو پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی شہر ہے ، بہت اہمیت کا حامل ہے ۔ اس کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ کسی کو بھوکا نہیں سونے دیتا ۔

یعنی اس میں ہر رنگ و نسل کے لوگوں کے لیے مواقع موجود ہیں۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے لوگوں کی سہولت کے لیے اس شہر میں ایک ٹرین سروس چلا کرتی تھی۔ جس کا باقاعدہ نام شائد" سرکلر ٹرین" یا " مونو ریل" تھا۔( اگر میں غلطی پہ ہوں تو تصحیح کر دیجیے گا)۔یہ ٹرین سروس بھی جی ۔ ٹی۔ ایس بس سروس کی طرح ہی تھی۔ یہ ملیر، ملیر کینٹ، کیماڑی، اورنگی، سعود آباد، سٹی اسٹیشن وغیرہ اور اسی طرح کے دوسرے علاقوں سے گزرتی تھی۔

یا یوں کہہ لیں کہ یہ پورے کراچی کا چکر لگاتی تھی۔ میرے ایک عزیز جو فوج سے ریٹائرڈ ہیں انہوں نے بتایا کہ اس ٹرین پہ80ء کی دہائی میں ایک سٹاپ سے دوسرے سٹاپ تک کرایہ 25پیسے تھا۔ یہ لوگوں سے کچھا کچھ بھری ہوتی تھی۔ کیوں کہ یہ پورے کراچی کا چکر لگاتی تھی اس لیے کاروبار ء زندگی اور محنت مزدوری کے لیے شہر کے کسی بھی علاقے میں جانا مسلہ ء نہیں تھا۔

لیکن بات پھر وہیں پہ آتی ہے کہ اس سے چونکہ ایک عام آدمی کو فائدہ ہو رہا تھا لہذا یہ سروس بھی 1999-2000 میں بند کر دی گئی۔شائد ارباب اختیار کا خیال ہو گا کہ عوام تو پیدا ہی دھکے کھانے کے لیے ہوئی ہے تو پھر اسے یہ سہولت کیوں میسر ہے۔ اس سروس کا ٹریک بہت سا تو " ضرورت مند بابو" شائد ہضم کر چکے ہیں بس کسی علاقے میں یادگار یا نشانی کے طور پر کچھ حصے باقی ہیں۔


میٹرو بس و میٹرو ٹرین کا سن کے پتا نہیں کیوں یہ پرانے قصے یاد آ گئے۔ میاں صاحبان سے بہت سی باتوں میں اختلاف اب بھی ہے لیکن امید کی جا سکتی ہے کہ میٹرو بس و ٹرین سروس عوام کے لیے زحمت کے بجائے سہولت ہی بنے گی ۔لیکن ساتھ ہی یہ التجا ء بھی ہے کہ خدارا! اس منصوبے کو جی ۔ ٹی ۔ ایس سروس یا سرکلر ٹرین نہ بننے دیجیے گا۔اگر واقعی حقیقی معنوں میں ان منصوبوں سے عوام کو فائدہ ہونا ہے توپھراس کو ایک مستقل شکل دیں۔

کہیں ایسا نہ ہو کہ جب یہ حکومت ختم ہو تو ساتھ ہی یہ منصوبے بھی دم توڑ دیں۔ ان منصوبوں کی تکمیل کے ساتھ ایک ایسا نظام بھی وضح کریں کہ جس کی بدولت کسی بھی آنے والی حکومت کے " بابو" اس کو نقصان نہ پہنچا سکیں۔ یہ آپ کا پاکستان کی پسی عوام پر ایک بہت بڑا حسان ہو گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :