عدل و انصاف کا گھپ اندھیرا ۔ آخری قسط

پیر 24 نومبر 2014

Abdul Raheem Anjaan

عبدالرحیم انجان

منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے
پہلی قسط میں ٹائپنگ کی غلطی سے فیض صاحب کے درج بالا مصرعے میں ” اب “ رہ گیا تھا۔سوال ہے ، ہمارے منصف قومی مجرموں کے خلاف حشر کیسے اٹھا سکتے ہیں ؟ اُلٹا بے چارے منصفوں کے خلاف مجرمو ں نے عدلیہ پر حملہ کر کے جو حشر منصفوں پر اٹھایا تھا۔اُس کے بعد مجرموں کی منصفوں پر ایسی دھاک بیٹھی ہے کہ اب طاقتور مجرموں کو پاکستان میں لوٹ کھسوٹ کی کھلی چھٹی مل چکی ہوئی ہے۔

اُن کا کوئی کیس منصفوں کے پاس پہنچتا بھی ہے تو منصف انصاف کرنے کی ہمت کا مظاہرہ کرنے کے بجائے چند دنوں کے لئے چھٹیاں لے کر لندن کی سیر کو نکل جاتے ہیں۔
ہمارے حکمرانوں کے ہاں قول و فعل میں تضادات کے لطیفے آج کل عوام کے پاس وقت گزاری کے لئے بہترین مشغلہ ہیں۔

(جاری ہے)

دیکھنا ہوتا ہے کہ کون سی فلم باکس آفس پر ہٹ ہوتی ہے۔یعنی کون سا لطیفہ دوست احباب میں فون پر سب سے زیادہ زیر بحث آتا ہے۔


ذرا غور فرمائیں، لندن کے چرچل ہوٹل میں زر داری اور نواز شریف ، ونوں لیڈران قوم نے اپنے اپنے ساتھیوں کے ساتھ، عمران خان کو ، اُن کے مطالبات کے جواب میں کوئی مثبت روّیہ اختیار کر کے مسئلے کو عدل و انصا ف کے ساتھ حل کرنے کے بجائے، عمران خان کے ۳۰ نومبر کے جلسے سے نپٹنے کے لئے ریا ستی طاقت کے ساتھ نپٹنے کے لئے حکمت عملی تیار کر لی ہے اور ”، لندن پلان“ کے طعنے سے بچنے کی غرض نواز شریف نے واپس پا کستا ن پہنچ کر ایک رسمی سے کیبنٹ میٹنگ کے بعد جو بیان جاری کیا ہے، وہ بیان قول و فعل میں تضاد کے حوالے سے تازہ تریں لطیفہ ہے۔

” ہم کسی کو آئین ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیں گے “ سبحان اللہ ، گویا ملک کا آئین اور سارے قانوں صرف نواز شریف کے طابع ہیں۔ جنہوں نے آج تک سانحہ ماڈل ٹاوٴن کے مجرموں کے خلاف ایف۔آئی۔آر کٹ جانے کے باوجود ملک کے قانون کی رسائی مجرموں تک نہیں ہونے دی۔ ثابت ہوا کہ ہمارے حکمرانوں کے لئے ہر وہ با ت غیر آئینی ہے، جس کے شکنجے میں وہ خود پھنستے ہوں یاجو اُن کے اقتدار کے ہاضمے پر گراں گزرے ۔

میاں محمد نواز شریف خود تو کم کم ہی لطیفہ بازی کرتے ہیں ، اکثر ہر بات کے جواب میں بڑے سکہ بند مدبروں کی طرح خاموش ہی رہتے ہیں،۔البتہ ان کے وزیر مشیر تو ہیں ہی اسی کام کے لئے ، عوام کے لئے کچھ کریں یا نہ کریں، میاں برادران کے حریفوں کے بارے میں خوب خرافات اگلتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ بعض اوقات مخالفت برائے مخالفت کے جنون میں بڑے اچھے اچھے لطیفوں کو جنم دے لیتے ہیں۔

جیسا کہ چند دن پہلے پرویز رشید وزیر اطلاعات نے ایک لطیفہ چھوڑا تھا۔”عمران جھوٹ بولتے ہوئے ڈرتے بھی نہیں ہیں۔“ سب سے پہی بات تو یہ ہے کہ جھوٹ بولنے کا مقدمہ ان کے لیڈر پر بنا ہوا ہے۔جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ عدلیہ پارلیمنٹ کی کسی بھی کاروا ئی پر گرفت کا حق نہیں رکھتی۔ ہمارے ہاں کے نظام عدل و انصاف کی خستگی پر ذرا غور فرمائیں۔

میں اگر غلطی پر نہیں تو پارلیمانی کاروائی وہ ہوتی ہے جو سارے پارلیمنٹ کے معزز ممبران کے ووٹ سے پاس ہوئی ہو۔کیا جنرل راحیل شریف کو ، یہ کہنے کے لئے کہ عمران خان اور ڈاکٹر قادری سے کوئی تصفیہ کرانے کے لئے اپنا کردار ادا کر یں ، وزیر اعظم ہاوٴس میں بلایا گیا تھا یا پارلیمنٹ میں؟ہم نے تو یہی سنا ہے کہ ُانہیں وزیر اعظم ہاوٴ س میں بلایا گیا تھا اور دونوں بڑوں میں یہ بات چیت پارلیمنٹ میں نہیں وزیر اعظم ہاوٴس میں ہوئی تھی۔

پھر یہ پار لیمنٹ کی کاروائی کیسے ہو گئی ؟ میاں صاحب کی اس دروغ گوئی پر عدلیہ کسی گرفت کا حق کیوں نہیں رکھتی ؟ اس سارے معاملے میں جو سب سے اہم بات ہے، وہ یہ ہے کہ اسلام میں جھوٹ بولنے سے سختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے ۔ذرا غور فرمائیں، ایک طرف تو ہم یہ کہتے نہیں تھکتے کہ پاکستان کا آئین مکمل اسلا می ہے،جس میں کوئی بھی بات غیر اسلامی نہیں ہے۔

دوسر ی طرف ایک سر سر جھوٹ کو ساری پار لیمٹ ، پارلیمانی کاروائی قرار دے کر ہضم کرنے کے لئے تیار ہو گئی ہے۔ شرم مگر ہم کو نہیں آتی
عمران خان کو جھوٹا کہنے والے پرویز رشید کا خود اپنا یہ حال ہے کہ اُس نے اتنی ساری حقیقتوں کے ہجوم میں محض اپنی وزارت کو بچانے کے لئے جھوٹ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے۔اب عمران خان کے خلاف ایک نیا اسکینڈل جے ، ڈبلیو، ڈی پبلک کمپنی کا لے کر آ گئے ہیں کہ عمران خان اس پبلک کمپنی کا جہاز استعمال کر کے اس کمپنی کے حصے داروں کے حق پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں۔

پرویز رشید صاحب اگر عمران خان کوئی چوری کر رہے ہیں،تو وہ جانیں اور کمپنی کے حصے دار جانیں اور اگر جہانگیر تریں کے جہاز کا استعما ل غیر قانونی ہے تو پھر آپ تو حکومت میں ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے تو آپ کے گھر کی باندی ہیں۔ اس کیس کو قانون کے حوالے کردیں۔آپ کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ پرویز رشید کی سا ئیکل کے کتے بھی فیل ہو جاتے ہیں۔

لیکن جہا نگیر ترین کے جہاز پر کچھ بھی خرچ نہیں ہوتا۔وہ پٹرول پر نہیں ،ہوا سے چلتا ہے۔اس لئے کہ اس کا کوئی بھی خرچہ کمپنی کے اخراجا ت میں شو نہیں کیا جا رہا۔ تو اس کا مطلب یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ وہ اخراجات جہانگیر تریں صاحب کمپنی کے خرچے میں ڈالتے ہی نہ ہوں ۔ اپنی گرہ سے خرچ کرتے ہوں۔ جس طرح آپ نے صحافیوں کی طرف سے حمزہ شریف پر لگائے گئے ایک الزام کا یہ جواب دے دیا ہے۔

کہ حمزہ شریف نے کرائے کی رسیدیں صحافیوں کو شو کر دیں تھیں۔
پرویز رشید صاحب ! آپ کی پریس کانفرنس سن کر کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ آپ کی سائیکل ہی کے نہیں ، آپ کے دماغ کے کتے بھی فیل ہو چکے ہیں۔ورنہ آپ عمران خان کے ادا شدہ ٹیکس ایک لاکھ کا ذکر کرنے کے بجائے پہلے یہ بتاتے کہ نواز شریف کتنا ٹیکس ادا کرتا ہے اور اپنے ذاتی گھر جاتی عمرہ کی سکیورٹی پر قومی خزانے سے کتنے پیسے خرث کر رہا ہے۔

آپ یا آپ کے پارلیمانی ساتھی کتنا ٹیکس ادا کر رہے ہیں ؟ کیا یہ سچ نہیں کہ آپ واقعی میاں نواز شریف کی کیبنٹ میں کمی کمین سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ورنہ اس سے یہ ضرور پوچھتے کہ تم سیاست میں آنے کے بعد ایشیا کے بزنس ٹائیگر کیسے بن گئے ہو ؟ خیر غیر معقولیت آپ پر ہی موقوف نہیں، میا ں نواز شریف کے سبھی پیادوں کا یہی حال ہے۔ جو مُنہ آتا ہے، اُس کے نتائج سے بے خبر ہو کر کہہ دیتے ہیں۔

پرویز رشید آپ کے پاس اس بات کا کیا جواب ہے کہ نواز شریف انگلینڈ میں ایک سال کا ٹیکس پانچ ارب روپے دیتا ہے۔لیکن پاکستان میں کتنا دیتا ہے ۔پاکستان میں تو وہ قومی اداروں سے قرض لے کر بھی واپس نہیں دیتا۔تم جیسے میاں صاحب کے کمی کمینو ں میں سے کچھ کو عمران خان سے یہ شکایت بھی ہے کہ وہ نوااز شریف پر لوٹ کھسوٹ کے اور عدلیہ پر جانب داری کے بے سرو پا الزام لگاتے رہتے ہیں۔

لیکن ایک با وقار پارلیمنٹ ممبر کی طرح میاں نواز شریف سے یہ کوئی بھی نہیں کہتا کہ میاں صاحب آپ اپنے اثاثے ڈکلئیر کیوں نہیں کر دیتے ؟ قوم کو کیوں نہیں بتا دیتے کہ یہ اتنی ڈھیر ساری ملیں اور کار خانے ، بیرون ملک بزنس ایمپائر اور سرمایہ آپ کہا ں سے لائے ہیں ؟ اور اگر آپ نے یہ سب کچھ اپنی جائز انکم سے بنائے ہیں تو پھر اس انکم پر آپ نے قوم کو انکم ٹیکس کتنا دیا ہے ؟
رہا یہ سوال کہ عمران خان عدلیہ پر جانب داری کا الزام کیوں لگاتے ہیں۔

تو وہ عمران خان ہی نہیں عدلیہ کے کارنامے بھی بتاتے ہیں کہ عدلیہ جانب دار ہے۔
(۱) عدلیہ اگر غیر جانب دار ہے تو پھر آج تک اصغر خان کے کیس کی سماعت کیوں نہیں ہوئی ؟
(۲) شریف برادران کے خلاف پانچ چھ ارب روپئے کی نا دھندگی کا ایک کیس لاہور ہائی کورٹ میں گزشتہ دس گیارہ سال سے کسی کار وائی کے لئے عدلیہ کا مُنہ دیکھ رہا ہے۔جو اب سود ملا کر ڈبل ہو گیا ہو گا۔

میاں برادران غریب قوم کا وہ قرض ادا کیوں نہیں کر رہے ؟
(۳) اب ایک خبر یہ بھی ہے کہ شریف برادران کے خلاف ڈیڑھ سو کے قریب کرپشن کے کیسز احتساب بیورو میں من مانی کاروائیاں ڈال کر دھڑا دھڑ بند کئے جا رہے ہیں ۔سوال ہے ایک شراب کی بوتل پر سو موٹو لینے والی عدلیہ اپنے چہیتے نواز شریف کے لئے خاموش تماشائی کیوں بنی ہوئی ہے؟ نواز شریف پر کرپشن کے جو کیسزدھڑا دھڑ ختم کئے جا رہے ہیں۔

کیا اُن کیسز کی سماعت چند ٹی۔وی والوں کے سامنے ہو سکتی ہے ؟ معذرت کے ساتھ، عدلیہ کو دودھ کی دھلی ہوئی بتانے والے تو بڑے ہیں،لیکن دودھ میں پانی کتنا ہے ۔ یہ تو اُسی وقت ثابت ہو سکتا ہے۔جب کہ قوم کو یہ بتایا جائے کہ نواز شریف پر کرپشن کے کتنے کیس تھے ؟ اور ان میں سے کتنے اور عدل و انصاف کی کس دلیل کے ساتھ بند کئے گئے ہیں ؟
اِس جمہوری دور میں کرپشن کے اُن مقدمات کے بارے میں قوم کو ضرور با خبر رکھا جانا چاہیے کہ قومی خزانے اور وسائل کے چور ، احتساب بیورو کے نہیں ، غریب قوم کے چور ہیں، یہ کیسا انصاف ہے کہ ایک غریب آدمی ایک و قت کا فاقہ ٹالنے کے لئے کہیں سے ایک بریڈ چوری کرتا ہوا پکڑا جائے تو اسے تو جیل میں بند کر دیا جائے اور جو لوگ اربوں کھر بوں روپیوں کے گھپلے کر کے غریب قوم میں بڑی فراخدلی سے فاقے بانٹ رہے ہیں۔

اُنہیں کوئی کچھ نہیں کہتا۔وہ سرکاری سانڈھ کی طرح دندناتے پھرتے ہیں۔
کسی بھی جمہوری نظام میں طاقت کا سرچشمہ عوام ہوتے ہیں۔جو ملک میں عدل و انصاف کے گھپ اند ھیروں اور موجودہ حکومت کی بیڈ گورننس سے تنگ آ کر عمران خان کے ساتھ کھڑے ہو گئے ہیں۔پہلے پا کستان پیپلز پارٹی والے الیکشن ۲۰۱۳ ء ء میں شرمناک دھاندلی کے حوالے سے دونوں کشتیوں پر سوار تھے ۔

الیکشن کو ”این۔آر۔اوز “ کا الیکشن بھی کہتے تھے اور جمہوریت کو ڈیریل نہیں ہونے دیں گے کی ڈفلی بھی بجاتے تھے۔لیکن اب لاڑکانہ میں عمران خان کے کامیاب جلسے کے بعد وہ بھی کھل کر عمران خان کی مخا لفت پر کمر بستہ ہو جائیں گے۔ عمران خان بار بار کہہ رہے ہیں کہ ہمارا ۳۰ نومبر کا جلسہ بھی پہلے کے سبھی جلسوں کی طرح پر امن ہو گا۔ لیکن حکومت اپنے خلاف کسی بھی قسم کی کوئی اپوزیشن برداشت کر ہی نہیں سکتی۔

انہوں نے عوامی طاقت کو ریاستی طاقت سے کچلنے کا منصوبہ بنا لیا ہے۔سانحہ ماڈل ٹاوٴن ہی کی طرح کچھ بے گناہ شہریوں کو موت کے گھاٹ اتار کر اپنی بر بریت کا الزام عمران خان پر لگا دیں گے۔ وزیر اطلاعات پرویز رشید اپنے شرمناک جھوٹوں میں ایک مزید جھوٹ کا اضافہ کرتے ہوئے کہیں گے۔
”عمران خان شروع ہی سے لاشوں کی سیاست کرنا چاہتے تھے ، وہ تو ہم تھے ، جنہوں نے کمال صبر کا مظاہرہ کیا ہے۔ لیکن حکمران طبقے کو معلوم ہونا چاہیے کہ اگر پر امن جلوس کے خلاف ریاستی طاقت آزمائی گئی تو ان کی یہ غلطی چرائے ہوئے مینڈیٹ کے تابوت میں آ خری کیل بھی ہو سکتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :