قصہ تمام(ایک پاکستانی کے جنازے کا احوال)

پیر 24 نومبر 2014

Hussain Jan

حُسین جان

اور پھر ہماراقصہ تمام ہوا،سوچا چلودُنیا کے بکھیروں سے چان چھوٹی بے رحم دُنیا سے نکل کر اب ایک ایسی ہستی کے پاس پہنچ گیا ہوں جس کے ہاں رحم،امن،سکون،خوشحالی کے ساتھ ساتھ تمام وہ لوازمات موجود ہیں جن کی خوائش دُنیا میں کرتا رہا ہوں اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اپنے ساتھ اعمال تو کچھ نہیں لے جا رہا مگر وہ رحمان ہے میرے تمام گناہوں سے زیادہ اُس کی رحمت ہے کچھ اس واسطے بھی تسلی تھی۔

چارپائی پر لیٹا اپنے مستقبل کے بارے میں اچھے اچھے خواب دیکھ ہی رہا تھا کہ بڑئے بیٹے کی آواز کانوں میں سنائی دی جو اپنے چھوٹے بھائی کو کہ رہا تھا کہ یار آس پاس کے تمام قبرستانوں میں پتا کر لیا ہے مگر کسی میں بھی اتنی جگہ نہیں کہ ابا جی کو دفنایا جاسکے سب کہ سب فل ہیں۔ اور مجھے لگتا ہے انہیں کسی دوسرئے علاقے میں لے جانا پڑئے گا یا پھر گاؤں لے چلیں مگر ان دونوں صورتوں میں اچھا خاصہ خرچہ ہو جانا ہے۔

(جاری ہے)

دل میں اک ہوک سی اُٹھی کہ بچے کیا سوچ رہے ہوں گے جاتے جاتے بھی ابا جی ٹیکہ لگا گئے۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے ہمارے بچپن میں ہر گاؤں کا اپنا الگ قبرستان ہوتا تھا اور اُس میں اتنی جگہ ہوتی کہ ہم مردوں کے ساتھ کرکٹ بھی کھیل لیا کرتے تھے۔ کبڈی اور فٹبال کا میچ بھی وہی منعقد کروا دیا کرتے تھے اور اب یہ زمانہ آگیا ہے کہ ایک قبر کی جگہ بھی میسر نہیں۔

اسی اثنامیں بھانجے نے پیغام سنایا کہ محلے کے کونسلر سے اُس کی اچھی یاد اللہ ہے اُسے ساتھ لے کر گیا تھا تو گورکن نے ایک عدد قبر کا بندوبست کر دیا ہے۔ یہ سن کر جان میں جان آئی کہ چلو "دوگز زمین توملی کوہ دیار میں " ۔
ویسے یہاں روایتی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں کہ بہو نے زیادہ آنسو بہائے یا بیٹی نے کیونکہ یہ تو رسم دُنیا ہے سب کو نبھانی پڑتی ہے کسی کو مجبورا اور کسی کو محبت میں۔

قبر کا بندوبست کرنے کے بعد بیٹون کے چہروں پر کچھ سکون کے تاثرات نظر آئے۔ اس کے ساتھ ہی باقی کے انتظامات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ کوئی کفن لا رہا تھا تو کسی کو پھول لینے بھیج دیا گیا۔ ویسے جب تک زندہ تھے تو پھول قسمت سے ہی نظر آتے تھے کہ بہت مہنگے ہو گئے تھے ۔ آج تو بیچاروں کی مجبوری ہے کچھ نہ کچھ تو بندوبست کرنا ہی پڑئے گا۔ کہ لوگ کیا کہیں گے باپ کے مرنے پر چار پھول بھی نا خرید سکے۔

اتنی دیر میں ایک رشتہ دار نے پیغام دیا کہ تمبو قناتوں کا بھی بندوبست کر لیا گیا ہے۔ اب یہاں مسئلہ تھا کہ کھانا کون پکوائے کیونکہ ہمارے دیس میں ایک رواج یہ بھی ہے کہ جب کوئی مر جاتا ہے تو اپنے ساتھ کسی نہ کسی غریب رشتہ دار کو بھی لے ڈوبتا ہے کہ اُسے کھانا پکانا پڑتا ہے۔ خیر بڑئے بھائی کے بیٹے نے کہا کہ آج کا کھانا وہ پکوائیں گے۔ یعنی ایک اور دردسر ختم ہوا۔

پھر کچھ رشتہ داروں کا انتظار شروع ہو گیا جنہوں نے دوسرے شہروں سے آنا تھا۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر اُن کے آنے سے پہلے ہی دفنا دیا جاتا کیونکہ رونے پیٹنے کا ایک اور دور سہنا میرے بس میں نہیں تھا۔ اسی دوران مجمے میں بیٹھے ایک دانشور کی آواز سنائی دی کہ ملک کا بہت برا حال ہو گیا ہے۔ ہر طرف ہاہا کار مچھی ہوئی ہے۔ دھرنوں سے لے کر وزیرآعظم کے غیر ملکی دوروں تک نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔

ہر کوئی اپنے اپنے پسندیدہ سیاستدان کی حمایت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا تھا۔ کہ کہیں پارٹی کے ووٹ کم نہ ہو جائیں۔ چھوٹی بیٹی کی نند کی ساس اُسے بتا رہی تھی کہ یہ جو اس کی پڑوسن نے سوٹ پہنچا ہے مارکیٹ میں اس کی قیمت 600روپے ہے مگر یہ جنم جلی سب کو 1600کا بتاتی پھرتی ہے۔ اورپھر ایک دم کسی نے چیخ مار کر کہا کہ بتی چلی گی۔ یعنی ایک اور بندوبست کرنا پڑئے گا۔

شام ہونے والی تھی اور روشنی کی ضرورت تھی۔ کسی بھلے محلے دار نے اپنا جنریٹر عطا کیا کہ جب تک بابا جی کو قبر کے سپرد نہ کردیا جائے یہ آپ لوگ استعمال کر سکتے ہیں۔ ویسے تو اب جس جگہ جا رہا تھا وہاں بجلی گیس پانی ،روزگار،صحت جیسی کسی چیز کی ضرورت نہیں تھی ویسے بھی اس ملک میں راہ کر ہم نے ان چیزوں کے بغیر زندگی گزارنا سیکھ لیا تھا۔ کچھ دیر بعد ایک نوجوان اپنے کسی دوست کو بتا رہا تھا یار یہ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بڑھ گئی ہیں مگر ہماری کمپنی کا مالک اس سے گریزہ ہیں۔

کام تو دن رات لیتا ہے مگر تنخواہ دیتے ہوئے اُسے موت پڑتی ہے۔ لو جی پھر پھوپھی زاد آگئیں اور رونے پیٹنے کا نیا سلسلہ شروع ہو گیا۔ پھر ہمیں نہلانے کا بندوبست کیا گیا تو پتا چلا کہ گیس نہیں ہے۔ کسی نے کہا کہ پانی لکڑیوں پر گرم کر لیا جائے تو کسی نے کوئلے کا مشورہ دیا۔ ویسے ہم بے جان پڑئے ہوئے تھے ٹھنڈے پانی سے بھی نہلا دیتے تو کون سا شور مچانا تھا چپ چاپ پڑئے رہتے ۔


اب ہمیں اپنی آخری آرام گاہ کی طرف لیجانے کی تقریبا تمام کاروائی مکمل ہو چکی تھی۔مولوی صاحب نے اعلان کیا کہ اگر کسی نے بزرگ سے کوئی لین دین کرنا ہو تو اُس کے بیٹوں سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ ہم سوچ میں پڑ گئے کے لینا تو ہم نے کسی سے کچھ نہیں ہاں کسی کا دینا ہو تو وہ یاد نہیں۔ اور اس کے ساتھ ہی ہمیں کندھوں پر اُٹھایا گیا کلمہ کا ورد شروع ہوا تو گھرکی خواتین نے رونا دھونا شروع کر دیا ۔

ہالنکہ کہ یہ وہی خواتین تھیں جن سے جب ہم زندہ تھے تو کہا کرتے کہ ایک گلاس پانی کا دے دینا تو پیچھے سے آواز آتی پتا نہیں اس بوڑھے سے کب چان چھوٹے گی۔ خیر ہم ایک کندھے سے دوسرئے تک کا سفر طے کرتے کرتے اپنی آخری آرام گام کی طرف محو پرواز تھے۔ قبرستان پہنچ کر علان کیا گیا کہ اگر کسی نے وضو کرنا ہے تو کر لے کیونکہ ابھی کافی لوگ پیچھے ہی راہ گئے تھے۔

ویسے تو بہت سے اپنی اپنی سواریوں میں ہم سے پہلے ہی موقع پر پہنچ چکے تھے۔ لیکن ابھی کچھ ہمارے ہم عمر آہستہ آہستہ چل رہے تھے اور اُمید کر رہے تھے کہ اس جگہ سے جتنا دور رہا جائے بہتر ہے۔ خدا خدا کر کرے تمام احباب اکٹھے ہو گئے اور مولوی صاحب کو کہا کہ بسم اللہ کریں۔ مولوی صاحب نے نماز پڑھانے کے بعد ہمارے لیے خوب دعا کی جن کے ہم مشکور ہیں کیونکہ باقی لوگوں کے دماغ میں تو اپنے معمولات زندگی دوڑ رہے تھے۔کوئی دفتر سے چھوٹی لے کر آیا تھا تو اُسے واپس جانا تھا کسی نے دُکان بند کی تھی تو اُسے دوبارہ کھولنا تھا۔ تو یوں ہمیں بہت سے سوگواروں کی موجودی میں سپرد خاک کر دیا گیا اور یوں ہمارا قصہ تمام ہوا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :