چلے سے پہلے چہلم

بدھ 26 نومبر 2014

Nadeem Tabani

ندیم تابانی

اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ایک عدد کل وقتی چیف الیکشن کمیشن کی ضرورت ہے ، دستیاب افراد میں سے کسی کو حکومت نہیں بنانا چاہتی ،کوئی خود نہیں بننا چاہتا، یوں تو حکومت پر الزام ہے کہ وہ ایسا کٹھ پتلی الیکشن کمشنر چاہتی ہے جو اس کی ہاں میں ہاں اور نہ میں نہ ملائے ، حکومت یقینا ایسا ہی الیکشن کمشنر چاہتی ہو گی کیوں کہ وہ حکومت جو ٹھہری لیکن عمران خان جو حکومت میں نہیں (ہاں حکومت ان میں ہے)وہ بھی یہی چاہتے ہیں کہ چیف الیکشن کمشنر ایسا ہو کہ بس ان پر لٹو اور ان پر فدا ہو ، جب، جہاں، جس طرح اور جیسا الیکشن وہ چاہیں ویسا ہی ہو،ن لیگ کا ایک ایک آدمی نا اہل قرار دیتے جائیں اور ان کا ایک ایک بندہ جیتتا جائے ، یوں ہی کرتے کرتے چپکے چپکے نیا پاکستان بن جائے سب منہ دیکھتے رہ جائیں ۔

(جاری ہے)

پاکستان پیپلز پارٹی بھی اپنی من مرضی کا بندہ چاہتی ہے ، باقی پارٹیوں کی بھی خواہش یہی ہے کہ جہاں جہاں ان کا اثر رسوخ ہے یا جو علاقے ان کے من پسند ہیں وہاں ان کا کوئی مخالف دم لے سکے نہ ہی چڑیا پر مار سکے، مثلاایم کیو ایم کراچی اور حیدرآباد میں اپنی مرضی کے نتائج چاہتی ہے اسی طرح دوسری پارٹیوں کا بھی حال ہے ، اس لیے غیر جانب دار الیکشن ایک بچکانہ ضد ہے ، جب سب اپنی مرضی کا چاہتے ہیں تو کیوں نہ حکومت کی مرضی کا ہو ، جب جب جس کی حکومت ہو تب تب اس کی مرضی کے بندے لگتے رہیں ، صرف الیکشن کمیشن میں ہی نہیں ہر جگہ ہر محکمے میں ۔


####
مسلم لیگ ن کی حکومت ہے ، ایک آدھ پارٹی اس کی اتحادی ہے باقی سب اس کی مخالف ہی ہیں، ظاہر اہے ان کی حکومت جو نہیں آئی ، میاں صاحب ق لیگ کو دائیں طرف رکھتے ، شیخ رشید کو بائیں طرف ، ایم کیو ایم کو سامنے رکھتے دوسری پارٹیوں کو بھی پہلو بہ پہلو جگہ دیتے، ہر طرف میاں صاحب کی جے ہوتی ، اب چوں کہ ایسا نہیں ،اس لیے سب میاں صاحب کی ٹانگیں کھینچنے میں لگے ہیں، میاں صاحب بھی عجیب ضدی ہیں ٹانگیں کھنچوانا پسند ہے ، حکومت میں شریک کرنا پسند نہیں ، گویا زرداری کی طرح مل کر کھیلنے اور مل کر کھانے کو پسند نہیں کرتے ۔

کنجوس کہیں کے!
####
پچھلے چار ماہ سے یہ جھگڑا چل رہا ہے کہ انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کے لیے جو کمیشن بنے اس کو کتنی مدت میں فیصلہ کرنا چاہیے ، حکومت مدت کا معاملہ کمیشن پر چھوڑنا چاہتی ہے اور خان اینڈ کمپنی ایک ماہ میں فیصلہ چاہتی ہے ، اگر خان صاحب حکومت کی بات مان لیتے تو معاملہ کسی کنارے پر لگنے والا ہوتا لیکن خان کمپنی کو مدت ایک ماہ ہی چاہیے، چاہے یہ بات طے ہونے میں 3سال لگ جائیں ۔


####
جناب قائم علی شاہ بہ طور وزیر اعلی سندھ قائم و دائم ہیں ، اور ان کا دعوی ہے کہ قدرت ہی اس عہدے سے ان کو الگ کر سکتی ہے، شاہ جی قدرت کی دو قسمیں بتاتے ہیں ،ایک قدرت کا مطلب موت اوہ سوری! ان کا دنیا سے تشریف لے جانا ہے ، گو ان کا دل تو نہیں چاہتا،لیکن مجبوری ہے آخر ذوالفقار علی بھٹو کو بھی تو دنیا چھوڑنا پڑی ہے(اگر چہ وہ زندہ ہیں) بی بی کو بھی جانا پڑا ہے (ہے بی بی بھی زندہ) اس لیے ان کی پیروی میں شاہ جی بھی دنیا چھوڑ ہی دیں گے البتہ وہ ریکارڈ عمر جینا چاہتے ہیں، اتنی کہ سن کر ہر ایک دانتوں میں انگلی دبا لے ، قدرت کی دوسری قسم اس وقت دو حصوں میں تقسیم ہے ایک کو بلاول سائیں کہتے ہیں، دوسرے کو بلاول سمیت سب سائیوں کا ابا سائیں کہتے ہیں، رہ گئے مراد علی شاہ تو ان کو بکرے وکرے صدقہ کرنے چاہییں اور کچھ خاص قسم کی ریاضتیں اور مشقیں کرنی چاہیں ،یہ مشقیں بڑی مشقتوں سے ہوتی ہیں ۔

قائم علی شاہ نے جتنے چلے کاٹے ہیں، اتنے چلے کوئی دوسرا کاٹنا چاہے تو اس کا چہلم چلے سے پہلے آ جائے گا۔
####
آئیے دیکھتے ہیں اگلی حکومت میں کون کیا بنے گا: عمران خان وزیر اعظم ، پرویز مشرف صدر پاکستان ، شیریں مزاری وفاقی وزیر اطلاعات، شیخ رشید کم از کم گورنر پنجاب ، پرویز الہی وزیر اعلی پنجاب ، طاہر القادری کو عدالت عظمی کا چیف جسٹس بننے کا بہت شوق ہے ، الطاف بھائی ان سب کے پیر۔

ان عہدوں کو چھوڑ کرباقی عہدوں کے لے شاہ محمود قریشی کے پاس سی وی جمع کروائی جا سکتی ہے جب یہ حکومت جائے گی تو نئے لوگوں میں عہدے بانٹے جائیں گے، ، عہدے مشہور زمانہ فارمولے کی تحت بانٹے جائیں گے ، عہدے ہوں یا ریوڑیاں ایک ہی بات ہے، دونوں کی تقسیم میں فارمولا ایک ہی چلتا ہے۔ اور خدا نہ خواستہ عہدے نہ بانٹے جا سکے تو جوتیوں میں دال ہی بانٹ دی جائے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :