ذہنی سکون کی دوائیں

بدھ 26 نومبر 2014

Manzoor Qadir Kalru

منظور قادر کالرو

پہلے وقتوں میں شاذو نادر ہی کسی سیانی عمر کے مرد یا عورت کوبے خوابی کی شکایت ہوتی تو ڈاکٹر اُسے نیند کی ایک آدھ گولی لکھ دیا کرتا تھا۔ اب سائنسی دور ہے کسی وجہ سے ذرا سی پریشانی یا بے چینی ہو تو لوگ ذہنی سکون کی گولیاں کھالیتے ہیں اور اس طرح ان گولیوں کے نشئی ہو تے جارہے ہیں۔ یہ گولیاں وقتی طور پر سکون تو دیتی ہیں لیکن بعد میں ڈیپریشن میں مبتلا کر دیتی ہیں۔

ذہنی سکون کی دواؤں کا استعما ل دراصل ذمہ داریوں سے فرار اورا لجھن کا سامنا نہ کرنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔خود اعتمادی، ارتکازِ توجہ اور یکسوئی سے مسلوں پر توجہ مرکوز کرنے سے مسلے حل ہو سکتے ہیں۔اگر الجھن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرفتح پالی جائے تو راحت ہوتی ہے لیکن اگر اس سے فرار کی ناکام کوششیں کی جائیں تو الجھنیں ڈائنیں بن کر دانت کھٹ کھٹانے لگتی ہیں اور انسان ذہنی سکون کی دواؤں کے استعما ل میں جیسے سہارے ڈھونڈاتا ہے۔

(جاری ہے)

آج کل بازار میں مسکن گولیوں کی بھر مار ہے۔ میڈیکل سٹور والے کسی ڈاکٹر کے نسخے کے بغیر ہی کوئی جتنی گولیاں مانگے دے دیتے ہیں اور پیسے کھرے کر لیتے ہیں۔ قانون موجود ہے کہ نشہ آور دوائیاں کسی مستند ڈاکٹر کے نسخے کے بغیر کسی کو دینا جرم ہے لیکن کھلم کھلا قانون شکنی ہو رہی ہے۔چونکہ یہ گولیاں بلا روک ٹوک دستیاب ہیں اس لئے بعض لوگ ان گولیوں کے عادی ہو گئے ہیں۔

ان مسکن گولیوں میں بعض ایسی ہیں جو تھوڑا عرصہ لیتے رہو تو یہ انسان کو اپنا اسیر بنا لیتی ہیں۔ یہ گولیاں لینے والا انسان اگر گولیاں چھوڑ دے تو ذہن میں ایسی بے چینی محسوس کرنے لگتا ہے جو اُس کے لئے ناقابلِ برداشت ہوتی ہے۔ غصہ بھی آتا ہے ۔ان گولیوں کے استعمال کے بعد یہ کیفیت ٹھیک ہو جاتی ہے۔ نوجوان نسل مسکن اور خواب آور گولیوں کی عادی ہوتی جا رہی ہے اور یہ خطرناک نشہ بڑی تیزی سے نوجوانوں میں پھیلتا چلا جا رہا ہے۔

سکون دینے والی دوائیاں نشہ سمجھ کر نہیں بلکہ دوائی سمجھ کر استعمال کی جاتی ہے۔بعض مریضوں کو تو ڈاکٹر وں خصوصا سپیشلسٹ ڈاکٹروں نے ان گولیوں کا نشی بنا دیا ہے۔ مریض جب ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے تو وہ اس کی ہسٹری کو سمجھنے،مرض کی بنیادی وجہ معلوم کرنے اور اس کو روحانی حل بتانے کی طرف جانے کی بجائے اس پر ذہنی سکون دینے والی گولیاں لکھ کر اپنی جان چھڑا لیتے ہیں اور اپنی فیس کھری کر لیتے ہیں۔

دوائیں لیتے لیتے یہ مریض ان کے عادی ہو جاتے ہیں۔ ڈاکٹروں کو ان مریضوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی کہ مریض سکوں آور دواؤں کے عادی ہوتے جا رہے ہیں۔جب یہ عادی ہو جاتے ہیں تو ڈاکٹر کے پاس اس لئے جاتے ہیں تاکہ وہ انہیں یقین دلا دے کہ وہ مریض ہیں اور یہ کہ یہ ابھی دوائی جاری رکھنا ضروری ہے۔ان گولیوں کی کئی قسمیں ہیں اور ہر قسم کی مختلف طاقتیں (پوٹینسی) ہوتی ہیں۔

مثلا پانچ ملی گرام، دس ملی گرام، حتٰی کہ ایک سو ملی گرام کی گولیاں بھی ملتی ہیں۔ ہر قسم کی سکون آور گولی کا ایک جیسا اثر ہوتا ہے۔ ذہن بے حس ہو جاتا ہے نیند آ جاتی ہے اور تمام حسیں دب جاتی ہیں لیکن ان کے سائیڈ ایفیکٹ بہت زیادہ ہوتے ہیں۔یہ سکون آور گولیاں ایسی ہیں کہ جن کے مسلسل استعمال سے عجیب و غریب اور ڈراؤنے تصور اس طرح نظر آنے لگتے ہیں جیسے یہ حقیقی ہوں۔

ہر ٹرانکولائزر کا اثر یہ تو ضرور ہی ہوتا ہے کہ اگر کوئی ان کا عادی ہو تو وہ شخص جذباتی اور جنسی طور پر مردہ ہو جاتا ہے۔ دل سے ماں باپ بہنوں بھائیوں اور بیوی بچوں کی محبت سے خالی ہو جاتا ہے ۔یہاں تک کہ دل سے خوفِ خدا بھی نکل جاتا ہے۔ جو مرد یا عورت ان کے عادی ہو جائیں وہ جھوٹ بولنے لگ جاتے ہیں۔ اخلاقی لحاظ سے وہ اتنا گر جاتے ہیں کہ فریب کاری اور دھوکہ دہی کا ارتکاب کرنے لگتے ہیں۔

ان کے عادی انسان میں خود کشی کا رحجان بلکہ ارادہ پیدا ہو جاتا ہے۔ کسی وقت بھی وہ نشے سے ٹوٹا ہوا خود کشی کر سکتا ہے۔قوتِ برداشت اتنی کمزور ہو جاتی ہے کہ چند منٹ پہلے کہی ہوئی بات بھی یاد نہیں رہتی۔ ان کا عادی اپنے آپ کو انتہائی دانشمند اور دلیر اور دوسروں کو احمق اور کمتر سمجھنے لگتا ہے۔ وہ ہر بات حکم کے لہجے میں کرتا ہے اور اپنی ذرا سی مخالفت برداشت نہیں کرتا۔ ایسا انسان اپنے گھر والوں کے لئے تو مصیبت اور اذیت کا باعث بنا ہی رہتا ہے وہ خود بھی ایک اذیت ناک ذہنی کشمکش میں مبتلا رہتا ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :