ایک وضاحت

جمعہ 28 نومبر 2014

Abdul Raheem Anjaan

عبدالرحیم انجان

دو چار دن پہلے مجھے میرے گزشتہ کالم” عدل و انصاف کا گھپ اندھیرا“ ( قسط نمر ۲) کے ایک قاری جناب منظور الہی یا ظہور الہی ( موصوف کا ای۔میل ڈیلیٹ کر چکا ہوں اور اب مجھے اُن کا نام بھی یاد نہیں رہا ) نے چار حرفی ای۔میل بھیج کر مجھے عمران خان کا چمچہ کہا ہے۔میں ایک نظریاتی آدمی ہوں اور میری لگام میرے نظریا ت کے ہاتھ میں ہے اور اگر نظریاتی ہم آہنگی یا کسی شخصیت کی” ہیرو شپ“ کے لئے” فین شپ“ کو چمچہ گیری کہا جا سکتا ہے تو پھر میں صرف عمران خان ہی کا نہیں، قائد اعظم ، علامہ اقبال  اور اپنی لیلائے وطن کی زلفوں میں حب الوطنی کے پھول گوندھنے کے حوالے سے فیض احمد فیض کا چمچہ بھی ہوں اور خوشی اس بات کی ہے کہ الحمداللہ کہ مجھے کسی کرپشن کنگ کا چمچہ نہیں کہا گیا۔

(جاری ہے)

ورنہ میرے لئے مر مٹنے کا مقام ہوتا ۔
بہر کیف،حضرت عمر  ابن خطاب کے اس قو ل کہ ” میرا بہترین دوست وہ ہے، جو میرے عیب مجھے تحفے میں بھیجتا ہے “ پر میں صرف ایمان ہی نہیں رکھتا ،اسے عزت مندانہ زندگی کی چابی بھی سمجھتا ہوں، مکمل اور بے عیب ذات صرف اللہ سبحان و تعالی کی ہے۔خود کو حرف آ خر سمجھنا اور اپنی برائیوں پر نظر نہ رکھنا ، جیسے خود پسند ا نہ روّ یے سے بڑی برائی اور کوئی نہیں ہے اور ہاں کسی کو خود سے کمتر سمجھتے ہوئے اُس کی بات کا جواب نہ دینا بھی ایک خود پسندا نہ روش ہے اور گالی کے جواب میں صرف گالی ہی نہیں دی جا سکتی،گالی کے جواب میں یہ سوچنے اور سمجھنے کی ضرورت بھی ہوتی ہے کہ کسی نے آپ کو گالی کیوں دی ہے ؟ اپنے لئے عمران خان کے چمچے جیسی گالی سننے کے بعد میں نے ایک بار پھر اپنا کالم پڑھا ہے ۔

پور ے کالم میں صرف ایک لفظ ” کمی کمین “ تھا جو واقعی اخلاقی سطح سے گرا ہوا لفظ ہے۔بشرطیکہ اگر کسی شریف انسان کے لئے استعمال کیا جائے۔ لیکن اس لفظ کے استعمال پر مجھے کوئی پچھتا وا یا افسوس ہر گز نہیں ہے، اگر سارے لوگ دودھ کے دُھلے ہوئے ہوتے تو برے الفاظ جنم ہی نہ لیتے۔ ایسے اخلاقی سطح سے گرے ہوئے الفاظ بد قماش لوگوں ہی کے لئے جنم لیتے ہیں اوربرا آدمی ہونے کے کئی پیمانے ہیں ۔

جن میں ایک قول و فعل میں تضاد بھی ہے۔ جب کوئی انسان ایک بد نام زمانہ لٹیرے ( جس کی لوٹ کھسوٹ پر بی۔بی۔سی جیسا با وقار اور قابلِ اعتماد ادارہ دو ڈوکومنٹریز تک بنا چکا ہو) کی گود میں بیٹھ کر ایک شریف انسان کو بار بار چور کہئے گا تو سننے والوں کی نظروں میں اس کی اپنی شرافت کے بھرم کا انجام بھی پانی کے بلبلے جیسا ہی ثابت ہو گا۔ الہی صاحب نے شایدپرویز رشید صاحب کی وہ پریس کانفرنس نہیں سنی، جس میں انہوں نے عمران خان پر جہانگیر ترین کا جہاز استعمال کرنے کے جرم میں بے سرو پا الزامات لگائے ہیں اور انہیں چور ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ہے۔

” میں عمران خان کی اور چوریاں بھی بے نقاب کروں گا۔“ میں سمجھتا ہوں کہ پرویز رشید پہلے اپنے مذکورہ الزام کو تو ہضم کر لیں کہ جہانگیر ترین نے ان پر اس بے سرو پا الزام کے جواب میں مقدمہ کرنے کی ٹھان لی ہے۔بہر کیف، اس کے علاوہ مذکورہ پریس کانفرنس میں یہ ”کمی کمین “ کا لفظ خود پرویز رشید صاحب نے اپنے لئے استعمال کر کے شاید یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ کبھی کبھار سچ بھی بول لیتے ہیں۔

انہوں نے کہا تھا۔ عمران خان ہم لوگوں کو کمی مین سمجھتے ہوئے ہمیں مُنہ لگانا پسند نہیں کرتے۔میں نے تو ان کے الفاظ کو دھرایا ہے۔
پرویز رشید صاحب رشید عطرے کے صاحبزادے ہیں،جو کسی زمانے میں چوہدری کالو نی سمن باد میں ہمارے محلے دار تھے اور محلے میں بڑی عزت مندانہ پہچان رکھتے تھے۔رشید عطرے جیسے شریف آدمی کے صاحبزاد ے پرویز رشید کو جب میں میاں نواز شریف جیسے کرپشن کنگ کے لئے جھوٹ بولتے دیکھتا ہوں تو دکھ ہوتا ہے، صحیح یا غلط میاں نواز شریف اور آ صف علی زرداری ، دونوں اپنی اپنی کرپشن کے حوالے سے اتنے بد نام ہو چکے ہیں کہ اب ان کی حمایت یا تو وہ لوگ کرتے ہیں جو کرپشن کو کرپشن نہیں سمجھتے اور یا پھر وہ لوگ کرتے ہیں جن کی آنکھوں پر کم علمی یا پھر ذاتی مفادات کے غلاف چڑھے ہوئے ہیں۔

جن لوگوں کی آنکھوں پر کم علمی کے غلاف ہیں وہ تو بے چارے معصوم لوگ ہیں،اُنہیں معلوم ہی نہیں کہ اُن کے لیڈر ان کے سا تھ کیا ہاتھ کر رہے ہیں ؟ اور میرے کالم انہیں معصوم لوگوں کے لئے ہوتے ہیں۔ جنہیں تعلیم کی سہولتو ں سے صرف اس لئے محروم رکھا جا رہا ہے کہ کہیں یہ لوگ اپنے لیڈروں کی اصلیت جان کر لیڈروں سے بدک نہ جائیں۔ کہیں شیر کی کھال میں چھپے ہوئے بھیڑئے بے نقاب نہ ہو جائیں۔

ظلم کی انتہا ہے کہ سندھ میں لوگ قحط کا شکار ہو کر مر رہے ہیں۔سویز بنکوں میں ہمارے لٹیروں کے دو سو بلین ڈالرز رکھے ہیں۔ہمیں صرف ان پیسوں کا مطالبہ کرنا ہے۔انتخابی مُہمات کے دوران میاں برادران آستینیں چڑھا چڑھا کر کہتے بھی رہے ہیں کہ ہم یہ پیسہ واپس لے کر آئیں گے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پارلیمنٹ کے فلور پر مئی میں کہا تھا کہ ہم سویز بنکوں میں رکھے ہوئے دو سو بلین ڈالرز کا مطالبہ کر رہے ہیں،لیکن تا حال کوئی کاروائی نہیں ہوئی۔

انہیں فاقہ مستی کے ہاتھوں مرتے ہوئے ملک کے غریب عوام سے زیادہ اپنے چور ساتھیوں کی خوشنودی اور تحفظ مقصود ہے۔ سو بار لعنت ہے ایسی جمہوریت پر۔اب کسی سویز بنک میں رکھے ہوئے بے نظیر بھٹو مرحومہ کے زیورات، جن کی مالیت کم و بیش دو ملین بتائی جاتی ہے،کے معاملے میں بھی حکومت گم سم ہے۔اس لئے کہ انہیں اپنی حکومت بچانے کے لئے زرداری کی حمایت کی ضرورت ہے۔


رہے ذاتی مفادات کے شکار لوگ ،جن میں چندصحافیوں کا کردار لائق توجہ ہے،تو میری کیا حیثیت ہے کہ میں ان کے بارے میں کچھ لکھوں ، وہ مجھ سے زیادہ سمجھ دار ہیں کہ اپنے خاندان کے لئے خوشحالی کے گلشن سجا رہے ہیں۔ جو نبی کریم اللہ ﷺ پر ہزاروں درود بھیج کرعاشقان ِ رسول ﷺ کو بھی اپنے اعتماد میں رکھتے ہیں اور عوام الناس کے راہزنوں میں بھی شمار کئے جاتے ہیں۔

ایک مشہور کہاوت ” طاقت ور کے ہاتھ اور کمزور کی زبان چلتی ہے“ کے عین مطابق ایسے لوگ جو لکھنے کے فن سے محرو یا جنہیں لکھنے کے لئے کوئی پلیٹ فام میسر نہیں ہے ۔ جب سوشل میڈیا پر اپنے جذبات کے سینے پر مونگ دلنے وال دلنے والے کسی صحافی کو گالیاں دیتے ہیں تو یہ خود پسند لوگ ، اپنے کردار کا محاسبہ کرنے کے بجائے اُن گالیوں کا ذمہ دار بھی عمران خان کو ٹھہرا دیتے ہیں۔

کسی شخصیت کی خوشامد کرنا اور چمچہ گیری کرنا ایک ہی معنے میں استعمال ہوتے ہیں ۔چمچہ لاہور کے موالیوں کی زبان ہے۔میں اس گالی کا ذمہ دار کسے ٹھہراوٴں ؟
عمران خان کے ساتھ میری نظریاتی ہم آہنگی کی وجہ پاکستان کی خستہ حالی ہے۔گزشتہ سات دھائیوں سے پاکستان کے عوام اُس پاکستان کو تلاش کر رہے ہیں۔ جس کا خوب علامہ اقبال  نے دیکھا تھا اور جو قائد اعظم  نے غریبوں کے لئے بنایا تھا اور جس پاکستان پر قائد اعظم کے آنکھیں بند کرتے ہی کچھ نامی گرامی لٹیروں نے قبضہ کر لیا تھا۔

ملک میں حکومت فوجی ہو یا جمہوری ، غریبوں کے خلاف پاکستان پر یہ قبضہ ہمیشہ قائم رہا ہے۔غریب عوام کے لئے کسی نے بھی کچھ نہیں کیا۔اب عمران خان ذوالفقار علی بھٹو کے بعد دوسرے لیڈر ہیں جو غریبوں کے حقوق کی بات کر رہے ہیں۔دونوں میں فرق اتنا ہے کہ عمران خان نے غریبوں کے لئے بہت کچھ کر کے دکھا بھی دیا ہے اور اب جبکہ عمران خان نے عوام کو بیداری کا پیغام دیا ہے اور میاں نواز شریف کی بیڈ گورننس نے ان کے پیغام کو تقویت دی ہے۔

تو عوام کے بیدار ہوتے ہی لٹیروں کی صفوں میں بھگدڑ مچ گئی ہے۔ انہیں اپنی کھال بچانی اور کھایا پیا ہضم کرنا مشکل نظر آ رہا ہے۔ عمران خان میرے ماموں ذاد بھائی ہیں اور نہ ہی نواز شریف یا زرداری سے مجھے کوئی ذاتی پر خاش ہے۔البتہ جس بے دردی سے انہوں نے ملک کو لوٹا ہے۔اُس بے رحم لوٹ کھسوٹ نے مجھے ان سے بد گمان کر دیا ہے۔پاکستان میں جس کسمپرسی کے ساتھ غریبوں کے شب و روز گزار رہے ہیں،اُس کسمپرسی کے تناظر میں جب میں اپنے حکمرانوں کی شاہانہ زندگی کو دیکھتا ہوں تو میردا دل چاہتا ہے، دوبئی میں اسحاق ڈار کے بیٹے کے ٹاور پر کھڑے ہو کر ان بد قماش لیڈروں کو وہ گالیاں دوں کہ گالیاں بھی شرمندہ ہو جائیں۔

اِن لٹیروں کی بے رحم لوٹ کھسوٹ اور اُس لوٹ کھسوٹ سے ان ظالمو ں کی بے رحم بے نیازی کی کہانی جن لوگوں نے سننی ہو، وہ دنیا ٹی۔وی پر ”سوال “ نامی پروگرام کے میزبان عمران خان کا ۲۵ اور ۲۶ نومبر کا پروگرام ضرور دیکھ لیں اور دل پر ہاتھ رکھ کے سوچیں کہ ایک طرف سندھ میں لوگ قحط سالی کا شکار ہو کر مر رہے ہیں اور دوسری طرف سویز بنکوں مین پاکستان سے لوٹا ہوا دو سو بلین ڈالرز رکھا ہے لیکن اسے کوئی کلیم نہیں کر رہا۔

رسول اللہ ﷺ کی ایک حدیث ہے۔” اُحد کی پہاڑی اپنی جگہ بدل سکتی ہے،لیکن انسان کی فطرت نہیں بدل سکتی“ ہمارے لیڈروں کی فطرت میں نہ صرف لوٹ کھسوٹ شامل ہے ۔ جو بدل نہیں سکتی ،بوقت ِ ضرورت اپنے ساتھی لٹیروں کو تحفظ فراہم کرنا بھی ان بد قماش لوگوں کی فطرت میں شامل ہے۔
میں یہ نہیں کہتا کہ عمران خان پاکستان کو اوج ثریّا پر بٹھا دے گا۔

لیکن جن دو نامی گرامی لٹیروں کو ہم کئی بار
آزما چکے ہیں۔اُن کے مقابلے میں ایک ایسے شخص کو آگے لے کر آنا کس لحاظ سے گھاٹے کا سودہ ہے، جس نے آج تک قوم کو کچھ دیا ہی ہے اور جو پاکستان کے بے لگام نظام کو بدلنے کی باتیں کر رہا ہے۔ ویسے بھی مومن کے لئے ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسوانے کا حکم نہیں ہے۔پلیز میں اگر غلطی پر ہوں تو برائہ کرم میری غلطی کی نشاندہی کریں۔

میاں صاحب یا اُن کی سیای بساط کے مہروں کی باتیں نہ سنیں ۔ پرویز رشید، رانا ثنا اللہ، سعد رفیق ، خواجہ آ صف وزیر دفاع اور پنجابی لہجے میں اردو بولنے والا، میاں صا حب کی بیوی کا بھانجہ عابد شیر علی ، اللہ انہیں سلامت رکھے،یہ وہ آئینے ہیں، جن میں پاکستان کے لئے میاں صاحب کے اخلاص کا چہرہ بے نقاب ہو کر سامنے آ جاتا ہے۔کیسی کیسی اہم وزارتوں پر کیسے کیسے تماشے لگا رکھے ہیں۔

جنہوں نے میاں صاحب کی خوشندی حاصل کرنے کے لئے جھوٹ بولنے کے سوا کچھ نہیں سیکھا اور ایسے ایسے جھوٹ تراشتے ہیں کہ رہے نام اللہ کا۔ایک پبلک کمپنی کے جہاز کے استعمال پر انہیں اس پبلک کمپنی کے حصے دارورں کی حق تلفی کا غم کھائے جا رہا ہے،اِن بد قماشوں کے پیٹ میں اس بات پر بھی مروڑ اٹھتے ہیں کہ کوئی بھی بزنس ادارہ کسی سیاسی پارٹی پر خرچ نہیں کر سکتا۔

لیکن پاکستان کے قومی خزانے پر جو ڈاکے ڈالے جا رہے ہیں۔ لندن کے چرچل ہوٹل میں بیٹھ کر میاں صاحب اورزرداری اپنی سیاست کو زندہ رکھنے کے لئے اپنے خاص خاص لوگوں کے ساتھ میٹنگز پر جب قومی خزانے سے خرچ کرتے ہیں، تواس فضول خرچی کی انہیں مطلق کوئی پروا نہیں ہوتی۔ ایسے دوہرے معیار رکھنے والوں کو اگر کوئی دل جلا بے شرم کہہ بھی دے تو کیا مضائقہ ہے َ کہ یہ لفظ بنا ہی ایسے لوگوں کے لئے جنہیں اپنے کسی بھی فعل پر شرم نہیں آتی۔جو پاکستان اور اس کے وسائل کو اپنے اباوٴ اجداد کی چھوڑی ہوئی وراثت سمجھتے ہیں۔
کعبے کس مُنہ سے جاوٴ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :