مژھل اور ممبئی میں فاصلہ،بھوپندرا اور قصاب میں فرق!!!

جمعہ 28 نومبر 2014

Sareer Khalid

صریر خالد

اسوقت جبکہ بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی)جموں و کشمیر میں اپنے مشن چوالیس کو حاصل کرنے کے لئے دن رات ایک کئے ہوئے ہے،چار سال پُرانی ”مژھل فرضی جھڑپ“کا فیصلہ سامنے آیا ہے۔ہندوستانی فوج نے پہلی بار کرنل رینک کے ایک افسر سمیت نصف درجن جوانوں کو خاطی مانتے ہوئے اُنہیں عمر قید کی سزا سُنائی ہے۔حالانکہ ایک فوجی عدالت کے اِس فیصلے کی ابھی فوج کی شمالی کمان سے توثیق کرانا باقی ہے تاہم بی جے پی کی سرکار ہے اور اِس نے فوج کے لئے دیش بھکتی کے گانے گانے کی بجائے سلیقے سے اس فیصلے کا کریڈٹ لینے کی کوشش شروع کی ہے۔

کشمیر میں تعینات فوج کو گو کہ افسپا نام کے بدنامِِ زمانہ قانون کے تحت بے پناہ اختیارات بھی حاصل ہیں اور بے گناہوں کا ان اختیارات کا شکار بننا بھی جاری تاہم مژھل کے گناہگاروں کو ملی سزا کے چرچے ریاست کے منظر نامہ پر غالب ہیں۔

(جاری ہے)


13/نومبر کو یہ خبر ،اسلئے کہ توقعات کے برعکس اس طرح کی کوئی خبر پہلے کبھی سُننے میں نہیں آئی ہے،سب کو چونکا گئی کہ ایک فوجی عدالت نے چار سال پُرانی ”مژھل فرضی جھڑپ“کا فیصلہ سُناتے ہوئے ایک کرنل سمیت چھ فوجیوں کو مجرم قرار دیتے ہوئے اُنہیں عمر قید کی سزا سُنائی ہے۔

سزا پانے والے سبھی فوجی، کمانڈنگ اافسرکرنل ڈی کے پٹھانیہ، میجر اوپندر سنگھ، صوبیدار ستبیر سنگھ، حوالدار بیر سنگھ، سپاہی چھدرا بھان اور سپاہی نریندر سنگھ،4/راجپوت ریجمنٹ سے وابستہ ہیں اور تب شمالی کشمیر کے کپوارہ ضلع میں کنٹرول لائن (ایل او سی)کے مژھل سیکٹر میں تعینات تھے کہ جب اُنہوں نے ترقی اور تمغوں کے لئے30/اپریل2010کو، تین عام شہریوں کو غیر ملکی جنگجووٴں کا نام دیگر موت کے گھاٹ اُتارا تھا۔

یہ واقعہ ”مژھل فرضی جھڑپ “کے نام سے بد نامِ زمانہ ہے۔
فوج کی شمالی کمان کے جنرل آفیسر کمانڈنگ(جی او سی)لیفٹننٹ جنرل ڈی ایس ہُڈانے فوجی عدالت کے فیصلے کی منادی کرتے ہوئے کہا کہ چھ فوجیوں کے خلاف سزا سُنائی گئی ہے لیکن ابھی اس فیصلے کو منظوری ملنا باقی ہے۔اُنکا کہنا تھا”یہ فیصلہ میرے دفتر میں پیش کیا گیا ہے،میرا شعبہ قانون اسکا مطالبہ کر رہا ہے “۔

اُنہوں نے کہا ہے کہ ایک بار اُنکے دفتر کے شعبہٴ قانون نے فیصلے کے مندرجات کا مطالبہ مکمل کیا اور اسے درست ٹھہرایا تو وہ(ہُڈا)اسے منظوری دینگے ۔جنرل ہُڈا نے بتایا کہ سزا یافتہ افسر اور سبھی فوجی ابھی بھی اُسی یونٹ کے ساتھ وابستہ ہیں کہ جسکے ساتھ وہ مژھل میں تعیناتی کے دوران وابستہ تھے۔حالانکہ عوام میں یہ منادی ہو گئی ہے کہ فوجیوں کو سزا مل چکی ہے لیکن جنرل ہُڈا وضاحت کے ساتھ کہتے ہیں کہ عدالت کی سُنائی ہوئی سزا کو فوج کی شمالی کمان کی منظوری ملی تو ہی مجرمین کو پولس کے حوالے کرکے سزا پر عمل در آمد کرائے جانے کا راستہ صاف ہوگا۔


مژھل فرضی جھڑپ کا واقعہ زائد از چار سال قبل اُسوقت پیش آیا تھا کہ جب کشمیر میں سب کچھ مقابلتاََ ٹھیک تھا اور”حالات کے بدلاوٴ“کی تیز طرار لہروں میں آئے کشمیر میں وزیرِ اعظم منموہن سنگھ کے علیٰحدگی پسندوں کو دعوتِ سخن دئے جانے کے امکانات زیرِ بحث تھے۔حالانکہ جموں و کشمیر میں جاری علیٰحدگی پسند تحریک کے، قریباڈھائی دہائی قبل ،مسلح ہوجانے سے لیکر ریاست کے طول و ارض میں فوج اور” جنگجووٴں“ کے مابین ایسی بے شمار جھڑپیں ہوئی ہیں کہ جو بعدازاں فرضی ثابت ہوئی ہیں۔


ایسی کئی فرضی جھڑپیں ثابت ہیں کہ جن میں مارے گئے ”جنگجو“وہ بے قصور نوجوان تھے کہ جنہیں یا تو فوج یا فورسز کی دیگر ایجنسیوں نے با ضابطہ گرفتار کیا تھا یا وہ اچانک ہی ”غائب“ ہو گئے تھے۔ شمالی کشمیر کے کپوارہ ضلع میں ہی مژھل واقعہ سے محض ماہ بھر قبل اِسی نوعیت کے ایک ”اینکاونٹر“ کا راز فاش ہو گیاتھا اور معلوم ہوا تھاکہ جس شخص کو پاکستانی شہری اور کشمیر میں سرگرم بزرگ ترین جنگجو بتاکر ایک زبردست ’ ’ معرکہ آرائی“ میں مار گرانے کا ”فخریہ دعویٰ“کیا گیا تھا وہ کوئی اور نہیں بلکہ اِسی ضلع کا ایک بوڑھا بھکاری تھا۔

چناچہ اس واقعہ کی ”تحقیقات“ابھی جاری ہی تھی کہ ہندوپاک کے مابین موجود حدبندی لکیر یا ایل اوسی کے مژھل سیکٹر میں دراندازی کے دوران مارے گئے تین ”نا معلوم“جنگجووٴں کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ شمالی کشمیر کے ہی بارہمولہ ضلع کے وہ تین غریب لڑکے تھے کہ جو چند روز قبل اچانک ہی اپنے گھروں سے غائب ہو گئے تھے۔اس”اینکاونٹر“کی کہانی دل دہلادینے اور رونگٹے کھڑا کردینے والی تو ہے ہی ساتھ ہی اس نسانیت سوز واقعہ کے راز کا اِفشا بھی ایک فلمی کہانی کی طرح ہے۔


شمالی کشمیر کیبارہمولہ ضلع کے نادی ہل علاقہ میں اپریل کے آخر پر تین لڑکے،شہزاد احمد،محمدشفیع اور ریاض احمد ،اچانک غائب ہو گئے تھے اور اِنکا کہیں اتہ پتہ نہیں مل رہا تھا۔ردی اشیاء جمع کر کے اول الذکر اور سکوٹر مکینک کا کام کرکے گھر چلاتے رہے آخر الذکر لڑکے نے اس سے قبل ہی گھر والوں کو بتایا تھا کہ اِنہیں ایک ایسا کام مل رہا ہے کہ جس میں اِنکی روز کی کمائی میں کئی گنا اضافہ ہو سکتا ہے۔

کُریدنے پر اِس واقعہ کے راز سے جو پرتیں اُٹھتی رہیں اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ تینوں کو ایک اخوانی(فوج کے ساتھ کام کرنے والے بندوق بردار جو انسانی حقوق کی پامالیوں اور لوٹ مار کے لئے خاصے بد نام ہیں)بشیر احمد ،جو مقتولین کا پڑوسی ہے،نے فوج کے لئے بہتر معاوضے پر مزدوری کرنے کے لئے راغب کیا تھا۔معلوم ہوا کہ بشیر نے اپنے دیگر ساتھیوں ،عباس اور حمید،کی مدد سے پہلے 27/اپریل (2010)کو کپوارہ کے ایک فوجی کیمپ میں پہنچایا جہاں سے اُن سے کوئی مزدوری لئے بنا انہیں فی کس پانچ پانچ سو روپے کی رقم دے کر اگلے دن واپس گھر بھیج دیا گیا۔

دوسرے ہی دن بشیر نے تینوں کے ساتھ پھر رابطہ کر کے اُنہیں ایک سومو گاڑی میں بٹھا کر پھر کپوارہ کے ایک فوجی کیمپ کے حوالے کیا جہاں سے وہ بعد ازاں واپس نہ لوٹ سکے۔چناچہ تینوں کے اچانک غائب ہو جانے کے بعد اُنکے لواحقین نے 10/مئی تک اپنے بچوں کی مختلف ممکنہ مقامات پر ناکام تلاش کرنے کے بعد 10/مئی کوہی مقامی پولس تھانہ میں اُنکی گمشدگی سے متعلق رپورٹ درج کرائی جسکی پولس نے دھیمی رفتار سے ”چھان بین“شروع کی۔

تاہم 17/تاریخ کو علاقے کے لوگوں نے تین گمشدہ لڑکوں کی بازیابی کے لئے احتجاجی جلوس نکالا تو پولس کچھ حرکت میں آگئی ۔اِس دوران گمشدہ لڑکوں کے لواحقین کو ایک اور اخوانی فیاض احمد کے ذریعے معلوم پڑا کہ تینوں لڑکے بشیر احمد نامی اخوانی کے ساتھ گئے تھے،انہوں نے پولس کو سُراغ دے دیا جس نے پہلے فیاض اور پھر بشیر کو دبوچ لیا۔چناچہ بشیر نے گمشدہ لڑکوں کو فوج کے حوالے کردینے کا انکشاف کرنے کے ساتھ ساتھ عباس اور حمید نامی دو مزید فوجی مخبروں کا نام دیا اور کہا کہ اس نے اِنہی دو کے کہنے پر مذکورہ لڑکوں کو پیسے کا لالچ دے کر فوجی کیمپ تک پہنچایا تھا۔

بعد ازاں عباس اور حمید کی گرفتاری عمل میں لائی گئی تو ایک ایسی کہانی سے پردہ ہٹ گیا کہ جو واقعتاََ افسوسناک اور دل دہلادینے والی ہے۔
معاملے کی تحقیقات کر رہے پولس افسروں کے مطابق کمل کوٹ اوڑی کے ایک فوجی اعانتکار عباس حسین کا فوج کی 4راجپوت یونٹ کے میجر بھوپندرا کے ساتھ،تب،6/ ماہ سے گہرا یارانہ چل رہاتھا۔اِن تحقیق کاروں کے مطابق میجر بھوپندرا نے عباس کو کہا تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ جنگجووٴں کو مار کر ترقی پانا چاہتا ہے اور اس میں اسے عباس کی اس مدد کی ضرورت ہے کہ وہ جنگجووٴں کی نقل وحرکت سے متعلق اسے معلومات دیتا رہے۔

اس واقعہ کی تحقیقات کے ساتھ وابستہ رہے ذرائع کے مطابق جنگجووٴں تک نہ پہنچ پانے کے بعد بھوپندرا نے عباس سے کہا کہ وہ ایسے لڑکوں کا انتظام کرے کہ جنہیں جنگجووٴں کا نام دے کر مارا جائے اور وہ (بھوپندرا)”ترقی“پانے کا اہل ہو پائے۔چناچہ عباس نے حمید کے ذرئعے بشیر کے ساتھ رابطہ کیا جو فوری طور لڑکوں کا انتظام کرنے پر آمادہ ہو گیا اور شہزاد احمد،محمد شفیع اور ریاض احمدبلی کے بکرے ٹھہرے۔

پولس ذرائع کے مطابق میجر بھوپندرا نے تینوں لڑکوں کی تحویل کے لئے عباس کو ڈیڑھ لاکھ روپے کی رقم دی جو اس نے حمید اور بشیر کے ساتھ بحصہ برابر بانٹ لی۔فوج کی 4راجپوت یونٹ نے 29/اور30/اپریل(2010) کی درمیانی رات کو ہی ایک جھڑپ کا ڈرامہ رچا جسکے بعد یونٹ کے ایک جونیئر کمشنڈ افسر ست بیر سنگھ نے پولس تھانہ کلاروس میں واقعہ سے متعلق اس دعویٰ کے ساتھ ایف آئی آر درج کرائی کہ فوج نے دراندازی کی ایک کوشش کے دوران تین جنگجووٴں کو مار گرایا ہے جنکی تحویل سے 5/ کلاشنکوف رائفلیں،1/پستول،کئی کارتوس،کھانے پینے کا سامان اور1/ ایک ہزار پاکستانی روپے وغیرہ بر آمد کر لئے گئے ہیں۔

گو کہ فوج نے یہ چیزیں پولس کو سونپ تو نہیں دیں تاہم تحریری طور کہا گیا کہ یہ سارا سامان مذکورہ فوجی یونٹ کی محفوظ تحویل میں ہے اور ضرورت پیش آنے پر پولس یا عدالت کو پیش کیا جا سکتا ہے۔اس ”جھڑپ“کے چند دن بعد ہی مذکورہ فوجی یونٹ کا کشمیر سے بیرون ریاست تبادلہ ہو گیا اور اسکی جگہ 8ڈوگرہ رائفلز کو تعینات کیا گیا۔
پولس ذرائع کا کہنا ہے کہ کلاروس پولس کو پہلے ہی کچھ شک گذرا تھا کہ چونکہ مذکورہ علاقہ برف سے ڈھکا ہوا ہے جبکہ جنگجو بتا کر مارے گئے لڑکوں نے سرد لباس زیب تن کیا ہوا تھا اور اِنکی تازہ حجامت ہوئی تھی۔

حالانکہ سرد ترین اس علاقہ میں برف کی موجودگی میں سرد کپڑے زیبِ تن کئے ہوئے کسی بھی انسان کا زندہ رہنا تقریباََ نا ممکن ہے جبکہ یہ بھی بڑا عجیب سا ہے کہ ان حالات میں کسی جنگجو کے لئے یہاں حجامت بنانا بھی ممکن ہو۔ذرائع کا کہنا ہے کہ پولس کو اس بات سے بھی معاملہ مشکوک لگا کہ مارے گئے ”پاکستانی جنگجووٴں“نے ایک ہندوستانی کمپنی کے زیرِ جامہ پہن رکھے تھے۔

تاہم نعشوں کی شناخت نہ ہوپانے پر پولس نے مقامی لوگوں کی مدد سے اِنہیں نزدیکی قبرستان میں دفنا دیا۔واضح رہے کہ ایل اوسیپر دراندازی یا دیگر جھڑپوں میں مارے جانے والے اِن جنگجووٴں کو، کہ جنکی شناخت نہیں ہو پاتی ہے ،مقامی طور ہی دفنا دیا جاتا ہے تاہم گذشتہ برسوں کے دوران کئی بار قبریں کھولی گئیں اور نعشوں کی شناخت کر کے اِنکے لواحقین اِنہیں اپنے آبائی قبرستانوں میں دفنا گئے۔

انسانی حقوق کے لئے سرگرم بعض تنظیموں نے چند سال پہلے ِانکشاف کیا تھا کہ شمالی کشمیر میں ایسی ہزاروں قبریں ہیں کہ جن میں وہ عام لوگ دفن ہیں کہ جنہیں مختلف علاقوں سے گرفتار کر کے یہاں غیر ملکی جنگجو ہونے کے نام پر قتل کر کے دفنا دیا گیا ہے۔
ویسے تو ”نا معلوم“جنگجووٴں کو دفن کرنے کے بعد اُنکی کہانی اُنکے ساتھ ہی منوں مٹی تلے دبی رہتی ہے لیکن مژھل واقع کو لیکر پولس نے مارے گئے تینوں لڑکوں کی تصاویر شناخت کے لئے مقامی اخباروں میں مشتہر کروائیں جس سے وہ با الآخر بہت دیر تک ”نا معلوم“نہ رہ پائیں جیسا کہ میجر بھوپندرا نے سوچا تھا۔

پولس کی تحقیقات میں نادی ہل کے نوجوانوں کے مژھل کے فوجی کیمپ تک پہنچنے کا راز کھلنے پر یہاں 30/اپریل (2010)کو ہوئی مذکورہ بالا جھڑپ شک کے دائرے میں آگئی اور بعد ازاں قبر کشائی کر کے نعشوں کی شناخت نادی ہل کے مذکورہ بالا تین لڑکوں کے بطور ہوئی اور یہ بات واضح ہوئی کہ جنگجو بتا کر مارے گئے یہ وہی لڑکے ہیں کہ جنہیں بہتر روزگار کی لالچ دے کر یہاں لایا گیا تھا۔


ظاہر ہے کہ اس واقعہ کا عوامی سطح پر زبردست ردعمل سامنے آیا جبکہ مزاحمتی تنظیموں کے ساتھ ساتھ مین سٹریم کی سبھی سیاسی پارٹیوں نے اس واقعہ پر شدید ناراضگی کا اظہار کیاجسکے بعد وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے اس واقعہ کی تحقیقات کرائے جانے کا اعلان کیا۔چناچہ یہ واقعہ ایک ایسے وقت پر پیش آیا تھا کہ جب مرکزی سرکار کے مولوی عمر فاروق اینڈ کمپنی کے ساتھ خفیہ رابطے میں ہونے کی باتیں کئے جانے کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم کے مجوزہ دورہٴ ریاست کے دوران اُنکی جانب سے مزاحمتی قائدین کو مذاکرات کی دعوت دئے جانے کی بھی باتیں ہو رہیتھیں۔

مژھل واقعہ نے تاہم معاملہ یوں بگاڑ دیا کہ اِسکے خلاف عوامی احتجاج کا ایسا ایسا سلسلہ چل پڑا کہ جو ”تحریکِ کشمیر“کا ایک ایسا باب ٹھہرا کہ جسے پڑھے بغیر مستقبل کا مورخ کشمیر پر نہیں لکھ سکتا ہے۔چناچہ اسی سلسلے کے احتجاج کے دوران سرینگر میں طفیل متو نام کا ایک کمسن راہ چلتے ہوئے پولس کی گولیوں کا شکار ہوا اور پھر یہ احتجاج کئی ماہ کی لگاتار ہڑتال پر محیط ہوا جسکے دوران سوا سو لڑکے،جن میں کئی نا بالغ بچے شامل تھے،فورسز کا شکار بن گئے۔


جموں و کشمیر سرکار کے حُکم کے مطابق مژھل جھڑپ کی” تحقیقات“ کچھ وقت تک سیویلین عدالت میں جاری رہی لیکن فوج نے بعدازاں اسے اپنی عدالت میں منتقل کرانے میں کامیابی پائی اور یوں دسمبر 2013میں کورٹ مارشل کا حُکم ہوا جس پر کارروائی ، فوج کی68/مونٹین برگیڈ کے کمانڈر دیپک مہراکی نگرانی میں،رواں سال جنوری میں شروع ہوئی ۔کپوارہ کے درگمولہ فوجی کیمپ میں لگی اس عدالت میں 60گواہوں کو جانچ کی گئی جبکہ ملزمین کو اپنا دفاع کرنے کا بھرپور موقع دیا گیالیکن وہ گناہگار ثابت ہوئے اور فوج نے اُنہیں عمر قید کی سزا سُنائی۔

ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ کسی فوجی عدالت نے نہ صرف اپنے لوگوں کی غلطی مان لی ہو بلکہ اُنہیں سزا بھی سنا دی ہو حالانکہ کشمیر میں اس طرح کے بے شمار واقعات درج ہوئے ہیں لیکن افسپا اور اس طرح کے دیگر قوانین کو ”سُرکھشا کوچ“کے بطور استعمال کرتے ہوئے ہمیشہ ہی خاطیوں کا بچاوٴ کیا جاتا رہا ہے جس پر اور تو اور ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسے ،انسانی حقوق کے علمبردار،عالمی ادارے تک احتجاج درج کراتے رہے ہیں۔

اب کی بار آخر ایسا کیا ہوا کہ فوج نے اپنے لوگوں کے لئے سزا سُنائی،اس سوال کا مختلف حلقوں کے پاس مختلف جواب ہے۔کچھ مبصرین کا ماننا ہے کہ چونکہ مژھل جھڑپ میں جرم کی نوعیت اِتنی واضح اور ثبوت اِتنے پختہ تھے کہ خود فوج کے لئے اپنے کاطی لوگوں کے دفاع میں ٹِک پانا نا ممکن ہو گیا تھا۔تاہم بعض مبصرین اس پورے معاملے کی Timingکو انتہائی دلچسپ اور اہم بتاتے ہوئے کہتے اور اِسے جموں و کشمیر میں بی جے پی کے مشن44کے ساتھ جوڑ کر دیکھتے ہیں۔

اُنکا نام نہ لئے جانے کی شرط پر ریاست کے ایک معروف قانون دان کا کہنا ہے”دیکھئے ہمارے یہاں اور بھی ایسے کئی واقعات رونما ہو چکے ہیں کہ جن میں سرکاری فورسز کا ہاتھ واضح طور نظر آتا ہے لیکن اُن واقعات کو دبا دیا جاتا رہا ہے لیکن ابھی چونکہ بی جے پی کی کشمیر اسمبلی پر نظر ہے وہ اس فیصلے کے جیسے پروانے ہاتھ میں رکھکر کشمیریوں کی نظروں کو دھندلانا چاہتے ہیں“۔

مذکورہ ماہرِ قانون کا کہنا ہے”فوجی عدالت کا فیصلہ در اصل ستمبر میں آیا تھا لیکن اِسے ابھی تک فقط اسلئے صیغہٴ راز میں رکھا گیا کہ تاکہ انتکابات کے دوران اِسے عام کرکے لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جائے کہ بی جے پی کشمیریوں کی اصل غمخوار ہے اور وہ ریاست میں جوابدہی کا ماحول پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے“۔بزرگ علیٰحدگی پسند لیڈر سید علی شاہ گیلانی مذکورہ قانون دان کی ہی طرح سوچتے ہوئے کہتے ہیں”فوجی عدالت کا یہ فیصہ تب تک بے معنیٰ ہے کہ جب تک اس جیسے دیگر بے شمار معاملوں میں بھی انصاف نہیں کیا جاتا،آخر مژھل واقعہ کو اسی طرح کے دیگر ہزاروں معاملات سے بدون نہیں دیکھا جا سکتا ہے“۔

وہ کہتے ہیں”یہ بھی دیکھنے والی بات ہوگی کہ کہیں اس فیصلے کا ریاست میں ہونے جارہے انتخابات کے ساتھ کوئی تعلق تو نہیں ہے،حالانکہ یہاں کے لوگ کسی بہکاوے میں آنے والے نہیں ہیں“۔وہ کہتے ہیں ”اگر بھارت واقعی جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی بند کرنے میں سنجیدہ ہے تو پھر اسے مژھل کے جیسے سبھی واقعات کی مثلیں کھول کر اِنکی سچی تحقیقات کرانی چاہیئے“۔

علیٰحدگی پسند مولوی عمر فاروق کا بھی کم و بیش اِسی طرح کا ردِ عمل ہے جبکہ وزیرِ اعلیٰ عمر عبداللہ لوگوں سے یہ بات منوانے کے زبردست جتن کرنے لگے ہیں کہ مژھل کے مجرمین کو سزا اُنہی کی کاوشوں کا ثمرہ ہے حالانکہ بے چارے وزیرِ اعلیٰ کو اس سودا کا کوئی خریدار ملتے دکھائی نہیں دے رہا ہے۔جیسا کہ نوگام سرینگر کے بزرگ شہری اور سابق سرکاری افسر غلام قادر بٹ کہتے ہیں”وزیرِ اعلیٰ تو بس ووٹوں کے لئے پریشان ہیں ،اگر اُنہوں نے واقعی کوئی کوشش کی ہوتی تو چند دن پہلے ہمارے یہاں دو معصوم بچوں کو فوج نے بے دردی سے نہیں مارا ہوتا اور پھر اس واقعہ پر معافی مانگنے والی فوج چند دن بعد ہی جنوبی کشمیر میں ایک اور بچے کی جان نہیں لیتی“۔

وہ کہتے ہیں”فوج نے تو مژھل کے مجرمین کے لئے بھی بچاوٴ کا راستہ کھلا رکھا ہے،عجب نہیں ہے کہ انتخابات کے بعد پتہ چلے کہ شمالی کمان کے فوجی کمانڈر نے مجرمین کو معاف کیا ہے یا اُنکی سزا کم کردی ہے“۔
مذکورہ بالا فوجی فیصلے کا واقعی جموں و کشمیر کے انتخابات کے ساتھ کوئی تعلق ہے بھی یا نہیں یہ بہر حال ایک ایسا سوال ہے کہ جسکا جواب تلاش کرنے کے لئے انتخابات کے بعد کا انتظار لازمی ہے لیکن فی الحال اس فیصلے کو لیکر ہندوستان عالمی سطح پر کسی حد تک واہ واہی لوٹنے میں کامیاب نظر آرہا ہے۔

چناچہ فوج کی جانب سے پہلی بار ”خلافِ معمول“فیصلہ سامنے آیا تو ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھارتی فوج کی جانب سے حالیہ ایام میں اٹھائے گئے اقدامات جن میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے مرتکب اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے ،کو خوش آئیند قدم قرار دیا ہے۔ایک بیان میں ایمنسٹی کے میڈیا افسر ہمانشی مٹا کی جانب سے جاری بیان تاہم کہا گیا ہے کہ فوج کو اُن دیگرمعاملوں میں بھی انصاف کوملحوظِ نظر رکھ کر حل کرنا چاہئے کہ جن کے متعلق انصاف ہونا باقی ہے۔

البتہ سب سے اہم فریق مژھل میں مارے جانے والوں کے لواحقین ہندوستانی فوج کی تاریخ میں ”اپنی نوعیت“کے اس فیصلے پر کس طرح سوچتے ہیں؟۔تینوں مہلوکین کے لواحقین نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اِس فیصلے کے ذرئعے در اصل فوج نے انصاف کے سبھی راستے بند کرنا چاہے ہیں۔ پوچھنے پر فردوس احمد(جھڑپ میں مارے گئے ریاض احمد کے بھائی)نے ایک مقامی اخبار کو بتایا ہے”پچھلے چار برس سے انصاف کیلئے در در بھٹک رہے ہیں تاہم اب آئے فیصلے نے نا اُمید کردیا ہے،آخر اگر جپرم ثابت ہوا ہے تو پھر مجرموں کو سزائے موت کیوں نہیں سُنائی گئی ہے“۔

ریاض کی ماں نسیمہ بیگم بھی اپنے بیٹے کے قاتلوں کی موت چاہتی ہیں۔وہ کہتی ہیں”کسے معلوم کہ اِس معمولی سزا پر عمل بھی ہوجائے ،آخر اگر کسی عام شہری کو ایک قتل کے لئے بھی موت کی سزا دی جاتی ہے تو پھر فوجی افسر جیسے ذمہ دار شخص اور اُنکی ٹیم کو ایک انتہائی سنگین جُرم ،جس میں تین بے گناہوں کا قتل شامل ہے،کو سزائے موت کیوں نہیں سُنائی جا سکتی ہی“۔

فوجی افسروں کی لالچ کا شکار ہوئے دوسرے بد نصیب شہزاد احمد کی بیوہجبینہ بیگم کہتی ہیں”اگر چہ یہ حقیقت ہے میرے شوہر اب کبھی لوٹ کر نہیں آسکتے ہیں لیکن اگر مجرمین کوسزائے موت ملتی تو کچھ تو راحت ضرور محسوس ہو پاتی لیکن چار سال کے انتظار کے بعد مایوسی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو پایا ہے“۔مقتولین کے لواحقین کے مطالبے کو صحیح ٹھہراتے ہوئے کشمیر یونیورسٹی کے ایک طالبِ علم کا کہنا ہے”اجمل قصاب ایک باغی تھا جو خود پر کسی قانون کی بندش نہیں سمجھتا تھا لیکن اُس نے بے گناہوں کا قتل کیا تو ہندوستان نے اُسی سزائے موت سُنا کر متاثرین کو انصاف دلایا،افضل گورو پر عائد الزامات میں کئی نقائص موجود ہونے کے باوجود بھی اُنہیں سزائے موت دی گئی جبکہ فوجیوں پر خود فوجی عدالت میں جُرم ثابت ہونے کے باوجود بھی اُنہیں سزائے عمر قید سُنائی گئی ہے جو بہر حال اُنکے جُرم کے مقابلے میں کم ہے،اگر ایک باغی تو سزائے موت دی جا سکتی ہے تو اُسکے ہم پلہ جُرم کے لئے اپن لوگوں کو مساوی سزا کیوں نہیں دی جا سکتی ہے کہ جو بصورتِ دیگر لوگوں کے مھافظ ہیں اور ایک قانون و ضابطے کے ماتحت!“۔

کیا فوجی عدالت اور دیگر متعلقین اہلِ کشمیر کو یہ سمجھانے کی کوشش بھی کرینگے کہ مژھل کے مجرمین اجمل قصاب سے مختلف کیسے ہیں اور پھر اُنہیں سُنائی جا چکی سزا انصاف کے تقاضاوٴں کے عین مطابق کیسے ہے…دیکھنا باقی ہے!!!(بشکریہ عالمی سہارا ،دلی)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :