جماعت اسلامی کی سیاسی جدوجہد

اتوار 30 نومبر 2014

Mubashir Mir

مبشر میر

مینار پاکستان لاہور کے سائے میں جماعت اسلامی کے تین روزہ اجتماع عام میں شرکت کا موقع ملا، جس کا مرکزی خیال ”اسلامی پاکستان، خوشحال پاکستان“ تجویز کیا گیا تھا۔ چونکہ کراچی میں مدیران اخبارات میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق سے خصوصی نشست کے موقع پر ہماری کسی حد تک تفصیلی ملاقات ہوچکی تھی اس لیے اس بات کا اندازہ تھا کہ اس اجتماع میں کس بات کو نمایاں کرنے کی کوشش کی جائیگی۔

اسلامی حکومت کا قیام، جماعت اسلامی کی نئی فلاسفی نہیں ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ اس کیلئے طریقہ کار کیا اختیار کیا جائے گا؟ اگر چہ امیر جماعت اسلامی کی تقاریر سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ پارلیمانی اور انتخابی سیاست کے ذریعے ہی اپنا منشور نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ سوال یہ بھی ہے کہ کیا اس وقت اسلامی جمہوریہ پاکستان کہلانے والا ملک غیر اسلامی طرز حکومت اپنائے ہوئے ہے ؟ جبکہ ملک میں 1973ء کا جو آئین نافذ ہے اس میں اسلامی دفعات بھی شامل ہیں۔

(جاری ہے)

یہ کس حد تک قابل عمل ہے یہ علیحدہ بحث ہے ، جس کے تحت جماعت اسلامی کئی مرتبہ انتخابات میں حصہ لے چکی ہے۔ اس وقت بھی وہ صوبہ خیبرپختون خواہ میں حکومت کا حصہ ہے۔ موجودہ امیر جماعت اسلامی سراج الحق خود بھی صوبائی حکومت کے وزیرخزانہ رہ چکے ہیں۔ جب بھی اسلامی حکومت کی بات کی جائے گی تو یہ سوالات جماعت اسلامی کی قیادت کے سامنے ایک عام پاکستانی کی طرف سے آئیں گے ،جن کا اُسے جواب دینا چاہیے۔

اجتماع عام کے احوال کو سامنے رکھتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ دو باتیں موجودہ قیادت کے نقطہ نظر اور جدوجہد کو تقویت دینے کی بجائے مشکلات کا شکار کرسکتی ہیں۔
سابق امیر جماعت اسلامی سید منور حسن کی گفتگو جس کی بازگشت ابھی تک سنائی دے رہی ہے کہ وہ قتال فی سبیل الله کا درس دے رہے تھے اور ان کو مسائل کا حل انتخابی سیاست میں نظر نہیں آرہا۔

اس کے ساتھ ساتھ اجتماع میں حزب المجاہدین کے کمانڈر سید صلاح الدین کی شرکت جو کہ سید منور حسن کے نقطہ نظر کو ہی تقویت دیتی ہے۔
مجھے اس صورتحال کو سمجھنے میں بہت دشواری ہورہی ہے کہ جماعت اسلامی جو کہ اپنے وقت کے جید عالم دین مولانا مودودی  کی فکر اور فلاسفی کے نتیجے میں وجود میں آئی، جنہوں نے دین اسلام میں ملوکیت کے تصور اور اقدامات کو رد کیا اور پُرامن جدوجہد پر یقین رکھا ، اس کے ساتھ جماعت اسلامی کی تمام قیادت شاعر مشرق علامہ اقبال کی داعی نظر آتی ہے، تقریباً ہر مقرر اپنی تقریر کو پُر اثر بنانے کے لئے کلام اقبال کو اس کا حصہ بنانے پر فخر محسوس کرتا ہے۔

جو خود پُرامن سیاسی جدوجہد کے قائل تھے۔ اور برصغیر کی آزادی کی تحریکوں میں انہوں نے جارحیت کا درس نہیں دیا حالانکہ خطہ غیرملکی تسلط میں تھا، انہوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کو سیاسی جدوجہد کیلئے مسلمانوں کی قیادت پر قائل کیا اور محمد علی جناح لندن سے واپس ہندوستان آئے جنہوں نے آزادی حاصل کرنے کی کامیاب جدوجہد کی۔
ایک قدم اس سے بھی آگے دیکھوں تو امیر جماعت اسلامی سراج الحق سے کراچی میں ہونے والی ملاقات میں یہ بات خاص طور پر نوٹس ہوئی کہ موصوف قائد اعظم محمد علی جناح سے بے حد متاثر ہیں، بلکہ انہوں نے اس بات کا برملا اظہار کیا کہ میں بانی پاکستان کی تمام تقاریر کا ازسر نو مطالعہ کررہا ہوں اور کئی اہم باتیں مجھ پر آشکار ہورہی ہیں۔

یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جماعت اسلامی کی موجودہ قیادت ایک پُرامن سیاسی جدوجہد پر یقین رکھتی ہے۔ ملک میں انتخابی اصلاحات چاہتی ہے جس کیلئے وہ متناسب نمائندگی کا طرز انتخاب اپنانے کی جدوجہد کررہی ہے۔ اور ایسی ہی جدوجہد سے برسراقتدار آکر اپنے منشور کو نافذ کرنا چاہتی ہے۔ ان سے ہر سطح پر اختلاف کرنا ہر کسی کا جمہوری حق ہے لیکن ان کا ویژن عام پاکستانی کی حالت کو بدلنا درست بات ہے۔

لیکن ساتھ ساتھ تشدد کی بات کرنا قوم کو کنفیوژ (Confuse) کرنے کا باعث بن رہا ہے۔
یہ بات ضرور ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ ماضی میں جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیمیں خاص طور پر طلباء تنظیم اسلامی جمعیت طلباء پر اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مخالفین پر تشدد کے الزامات لگتے رہے ہیں، جنہیں مکمل طور پر رد بھی نہیں کیا جاسکتا یا مارشل لاء حکومتوں کا ساتھ دینا جس پر پروفیسر غفور (مرحوم) سابق مرکزی نائب امیر کے بیانات اور تحریریں بھی گواہ ہیں اور انہوں نے اس غلطی کو تسلیم کیا جس سے جماعت اسلامی کا مورال عوامی سطح پر نہ صرف بحال ہوا بلکہ بہتر ہوا اور ملک کے جمہوری اور دانشور حلقے نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ جماعت کی قیادت میں احساس زیاں موجود ہے۔

اس لیے آئندہ کی سیاست وہ نئے انداز سے کرنے کیلئے خود کو فعال اور متحرک کررہی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ بلدیاتی سیاست میں بہتری کے عملی اقدامات نے جماعت اسلامی کے قد کاٹھ میں اضافہ کیا جس کا کریڈٹ نعمت الله خان ایڈوکیٹ، سابق ناظم اعلیٰ کراچی کو جاتا ہے۔
موجودہ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے بحیثیت وزیرخزانہ خیبرپختون خواہ میں شفافیت کی مثال قائم کی ، ان کی اب تک کی قلندرانہ اور صوفیانہ زندگی اس بات کی غماز ہے کہ انہوں نے اقبال کا شاہین بننے کی کامیاب کوشش کی ہے۔

جس پر ان کے مخالفین بھی ان کو داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتے۔
یہ نیک نامی جو جماعت اسلامی پرامن سیاسی جدوجہد سے حاصل کرچکی ہے، اسے گنوانے میں جذباتیت ار جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ اس اجتماع کے نتیجے میں سراج الحق اپنے نقطہ نظر اور کردار سے اپنی خواتین ممبران اور نوجوانوں کو بھی متحرک کرنے میں کامیاب نظر آئے۔ جبکہ غیر مسلم پاکستانیوں کو بھی متاثر کرنے میں کامیاب رہے۔

اس لیے ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ مسلح جدوجہد کے حوالے سے کی گئی گفتگو کو زائل کرنے کی کوشش کریں اور آئندہ کیلئے ایسی صورتحال سے اجتناب کرنے کی دانستہ کوشش کریں۔
سید منور حسن کا نقطہ نظر ان کی امارات کے دور سے ہی تنقید کی زد میں ہے، ان کی طرف سے قتال کی بات کرنا ملک میں انارکی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ ان کو یہ بات ضرور ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ اسلامی ریاست میں بھی جہاد اور قتال ملک کی افواج کی ذمہ داری ہے جو کہ حکومت کے تابع ہے۔

اس وقت اسلامی جمہوریہ پاکستان کی افواج ملک دشمنوں کے خلا نبروآزما ہے، جسے ملک کی پارلیمنٹ اور عوام کی مکمل حمایت حاصل ہے ۔ اس موقع پر اس کی کوششوں کو ہدف تنقید بنانا کسی طور پر بھی درست بات نہیں۔ میرے خیال میں سابق امیر جماعت اسلامی کے خیالات موجودہ اعلیٰ قیادت اور عمومی طو رپر جماعت اسلامی کی سیاسی جدوجہد کے راستے میں اپنے سیاسی مخالفین سے بھی بڑا خطرہ ہیں۔

ان کا موجودہ طرز خطابت مسلسل جماعت اسلامی کو عوامی کٹہرے میں جوابدہی کیلئے کھڑا کرتا رہے گا۔ سیاسی جدوجہد کے فلسفے پرمکمل طور پر عمل پیرا ہونے اور اس نقطہ نظر کو تقویت دینے کیلئے ضروری ہے کہ تشدد کی بنیاد پر ابھرنے والی سوچ اور تحریکوں کی مذمت کی جائے، ایسی تحریکوں سے مسلم ممالک کے معاشروں کو جو خطرات لاحق ہوتے ہیں اس پر مذہبی سیاسی جماعتوں کا دو ٹوک موقف سامنے آنا بھی ضروری ہے۔


جہاں تک اسلامی ریاست کے خواب کی تعبیر کا معاملہ ہے تو اس حوالے سے اجتہاد نہ ہونے کی بناء پر مسلم معاشرے جمود کا شکار ہیں۔ بہت سے مسلم ممالک میں جمہوری عمل شروع ہی نہیں ہوسکا۔ عوام کا سیاسی معاملات میں عمل دخل موجود نہیں جبکہ جن ممالک میں سیاسی عمل کا آغاز ہوچکا ہے وہ قدیم روایات اور فرسودہ رسم و رواج میں بری طرح پھنسے ہوئے ہیں۔


پاکستانی معاشرہ کو بھی ایسے ہی چیلنجز درپیش ہیں۔ ملک میں سیاسی عمل اگر چہ تعطل کا شکار ہوتا رہا ہے، لیکن سرداری ، جاگیرداری اور زمینداری نظام متوازی حکومت کے طور پر چل رہا ہے، ایسی صورتحال میں ریاست عملاً بہت کمزور ہے، جبکہ شدت پسندی کی لہر جو گذشتہ چار دہائیوں سے خطے میں جنگی حالات نے پھیلائی ہے، اس کے اثرات ابھی کئی دہائیوں تک محسوس ہوتے رہیں گے۔


اسلامی رو دراصل استحصالی اور ظالمانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑنے کیلئے تیر بہ ہدف ثابت ہوسکتی ہے، لیکن پارلیمنٹ کے ہوتے ہوئے بھی اجتہاد کا دروازہ بند ہے، کیونکہ پارلیمان میں آنے والے تمام نمائندے ایسی اہلیت نہیں رکھتے کہ وہ ایسی قانون سازی کرسکیں جو معاشرے سے استحصال کو ختم کرنے کا باعث ہو
جماعت اسلامی کو بھی ایسی قوتوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے جو اس ملک کے عوام کو استحصال کرنے والوں کی غلامی سے نجات دلائے۔


اس سلسلے میں جماعت کو اپنا دامن وسیع اور سینہ کشادہ رکھنا پڑیگا صرف ہم خیال مذہبی گروپس اور جماعتوں کی رفاقت کافی نہیں بلکہ استحصال کے خاتمے اور سماجی انصاف کے حصول کیلئے کام کرنے والے لوگوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہوگی۔
پاکستانی عوام ابھی بھی نو آبادی طرز حکومت کے غلبے کے خلاف نبروآزما ہیں۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم خیال سیاسی نظریات کے لوگ مل کر عوام کو استحصالی طبقے سے نجات دلائیں۔ جس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ سیاسی نظام میں اصلاحات کا عمل تیز تر ہو اور منزل کا حصول یقینی ہوسکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :