غریب ہونابھی جرم ہے۔۔۔۔؟

اتوار 14 دسمبر 2014

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

الیکشن2013میں اس کی کامیابی کیلئے میں نے کیاکچھ نہیں کیا۔اس کی انتخابی مہم چلانے کیلئے میں نے گرمی ،سردی،بارش ودھوپ ،دن رات اورروشنی واندھیرے کی بھی کوئی پرواہ نہیں کی ،آدھی آدھی رات جب دنیا میٹھی نیند سوجاتی میں اس کے لئے ووٹ مانگتے ہوئے ٹھوکریں کھاتا۔اس کاکوئی بھی جلسہ یاجلوس ہوتا تومیں ہی سب سے آگے ہوتا۔اللہ نے کیا کہ وہ گیارہ مئی کوبھاری لیڈ کے ساتھ جیت گئے ۔

اس کی کامیابی سے میری خوشی کی انتہا نہ رہی ۔وہ جب خیبرپختونخوا اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تومجھے سوفیصد یقین ہوگیا کہ اس کی برکت سے سرکاری نوکری ملنے سے میرے حالات بھی اب بدل جائیں گے ۔لیکن ممبرصوبائی اسمبلی منتخب ہونے کے بعد وہ وزیربھی بن گئے لیکن میرے سپنے پورے نہ ہوسکے میں نے سرکاری نوکری کیلئے ہرمحکمے میں کاغذات جمع کئے ۔

(جاری ہے)

درجن سے زائد جگہوں پرٹیسٹ وانٹرویو دیئے لیکن ڈیڑھ سال کاعرصہ گزرنے کے باوجود میراکام نہ ہوسکا۔

اس کی دعاؤں کے طفیل ڈیڑھ سال میں ایک نہیں کئی ایسے لوگ سرکاری محکموں میں بھرتی ہوگئے جوان کے انتخابی مہم کے دوران میں نے کیا جنات نے بھی نہیں دیکھے ہونگے ۔لیکن ایک میں ہی کہیں بھرتی نہ ہوسکا۔ڈیڑھ سال نوکری کے پیچھے بھاگتے بھاگتے نوکری تومجھے نہ مل سکی ۔پرپاس جوکچھ جمع پونجی تھی وہ ضرورہاتھوں سے نکل گئی ۔یہ کہتے ہوئے نوجوان کے آنکھوں میں آنسو آگئے ۔

میرے پاس اب کھانے کیلئے بھی کچھ نہیں ۔اس نے موبائل میں اپنے پھول جیسے بچے کی تصویر میرے سامنے کرتے ہوئے کہا کہ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اوربیوی بھی میری بیمار ہے ۔لیکن اب میرے پاس ایک روپیہ بھی نہیں۔آج کسی سے بیس روپے لیکر یہاں آیاہوں،یہاں ایک جگہ پرکاغذات جمع کئے تھے ۔منسٹرصاحب نے کہا تھا کہ یہاں کام ہوجائیگا لیکن اب صاحب کاسیکرٹری کہہ رہاہے کہ کاغذات کے ساتھ کچھ اوربھی جمع کرانا پڑے گا ۔

اللہ جانے کچھ اورسے اس کاکیامطلب ۔۔؟کاغذات تومیں نے سارے جمع کرادیئے ہیں ۔لگتا ہے اس بار بھی یہ سیکرٹری میرا کام نہیں ہونے دے گا۔کیونکہ اس سے پہلے بھی کئی جگہوں سے اس نے میرا نام نکال کرمجھے غریبی کی سزادی ۔یہ کہتے ہوئے نوجوان تو چلے گئے لیکن میری نیندیں اڑگئیں ۔آفس سے گھر جاتے ہوئے جب میں دکان سے اپنے بچوں کیلئے کوئی چیز لیتا ہوں تومجھے فوراً اس کاپھول جیسا بچہ یادآجاتا ہے اورمیرے ہاتھ کانپنے لگتے ہیں ۔

میں سوچتا ہوں کہ جب وہ روزانہ خالی ہاتھ گھر جاتے ہوئے پھول جیسے بچے کاسامنا کرینگے تواس کے دل پرکیاگزررہی ہوگی۔ ۔؟جن لوگوں کے بچے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ غریبوں کے ابو،برگرفیملی والوں کے پاپا اورجاگیرداروں ،سرمایہ داروں،اورنوابوں کے ڈیڈی جب گھر میں داخل ہوتے ہیں توبچے نہ صرف عقابی نظروں سے ان کے ہاتھوں کی طرف دیکھتے ہیں بلکہ ہاتھ میں کچھ نہ ہوتوپھر پولیس کے شیرجوانوں کی طرح جیبیں ٹٹولنے سے گریزبھی نہیں کرتے اوراگرہاتھ اورجیبوں سے کچھ برآمد نہ ہوتوپھر ماڑدھاڑ اوررونے دھونے کاپرچہ فوراً درج کرادیتے ہیں ۔

اس نوجوان کے توہاتھ اورجیب کیاگھر میں کھانے کیلئے بھی کچھ نہیں ۔اس کے معصوم اورپھول جیسے بچے جب بھوک سے بھلک بھلک کرروتے ہونگے تواس وقت کیاغمناک اوردردناک منظرہوگا۔وزارت کی کرسی پربراجمان ایبٹ آباد کے اس شریف سیاستدان اورموجودہ صوبائی وزیر جوعوامی خدمت کے دعوے کرتے ہوئے نہیں تھکتے اس کواپنے ان غریب ووٹروں اورسپورٹروں کی ذرہ بھی پرواہ نہیں کہ ان پراس کی حکمرانی میں کیا گزررہی ہے ۔

؟یہ ووٹراورسپورٹر غریب ضرور ہیں لیکن یہ اس کے محسن ہیں۔ انہی کی شب وروز محنت اورقربانیوں کی وجہ سے وہ آج وزارت کے مزے لے رہے ہیں ورنہ اس طرح کے چھوٹے موٹے سیاستدان ہم نے بہت دیکھے ہیں جوآج بھی گلی محلوں میں روڈ ماسٹری کرتے دکھائی دے رہے ہیں ۔منسٹرصاحب کوایک بات یادرکھنی چاہیے کہ جولوگ ووٹ بٹورنے کے بعد خود کو”میں“ میں قید کرکے اپنے ووٹروں ،سپورٹروں اورحلقہ کے غریب عوام کوعوامی خدمت اورسیاست سے نابلد سیکرٹریوں کے حوالے کردیتے ہیں وہ لوگ پھر سیاستدان تورہتے ہیں لیکن حکمران کبھی نہیں بنتے ۔

اس نوجوان کی حالت زارنے مجھے ہلاکررکھ دیا ہے ۔ہزار کوششوں کے باوجود اس کے پھول جیسے بچے کامعصومانہ اورپیاراچہرہ میری آنکھوں کے سامنے سے نہیں ہٹتا۔نہ وہ چہرہ مجھے چین اورسکون سے جینے دے رہاہے ۔کھاناکھاتے ہوئے جب بھی مجھے اس نوجوان کاخیال آتا ہے توبھرپور کوشش کے باوجود روٹی کاایک نوالہ بھی میرے حلق سے نیچے نہیں اترتا۔نہ جانے اس بدقسمت ملک اورخاص کرہزارہ میں ایسے اورکتنے نوجوان ہونگے جن کی بیروزگاری کی وجہ سے نہ صرف ان کے غریب اوربوڑھے والدین روز جیتے اورروزمرتے ہونگے بلکہ ان کے چھوٹے چھوٹے بچے بھی دوسرے بچوں کے ہاتھوں میں پاپڑ،لالی پاپ،ٹافیاں ،آئسکریم ، بسکٹ،کوکومووغیرہ دیکھتے ہوئے روزمچھلی کی طرح تڑپتے ہونگے ۔

کیامنتخب ممبران اسمبلی ،صوبائی و وفاقی وزراء اورمشیر ایک دن بھی اپنے بچوں کادرد برداشت کریں گے۔ ۔؟ اگرنہیں توپھر ان کوبھی سوچنا چاہیے کہ غریبوں کے سینے میں بھی گوشت کادل ہوتا ہے کوئی پتھر یالوہے کا نہیں کہ وہ اپنے بچوں کوروزانہ تڑپتے دیکھیں ۔صوبائی وزیر کواس نوجوان کے ساتھ ہزارہ کے تمام بیروزگارنوجوانوں کوباعزت روزگار دینے کیلئے فوری کرداراداکرناچاہیے۔تاکہ بوڑھے والدین کے ساتھ معصوم بچوں کی امیدوں کامزیدخون نہ ہوورنہ اللہ کی لاٹھی بے آوازہے۔کہیں ایسانہ ہوکہ غریبی کی یہ آگ اس کے گھرنہ پہنچ جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :