یہ ان دنوں کی با ت ہے

منگل 16 دسمبر 2014

Shahzada Raza

شہزادہ رضا

یہ ان دنو ں کی با ت ہے ۔
جب" کُھشی "خوشی اور"مِر چی " مرچ ہوا کرتی تھی !
ایک فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے گیا رہ سا لہ دور آمریت کے اثرات جوں کے توں موجود تھے،اِ س دورِ آمریت میں پاکستان کی معا شی ترقی کے ساتھ ساتھ قو می غیرت،وطن پرستی اور اسلام پسندی کا سورج پوری آب و تاب کے ساتھ با لخصوص پاکستا ن اور با لعموم عا لم اسلام کے سرو ں پر چمکا کرتا تھا ۔

۔۔۔
یہ ان دنوں کی بات ہے ․․․․!
جب ہما را قو می فخراور پہلی دفاعی لائن ہماری خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی رو س کے ملحدا نہ عزایٴم کو خا ک میں ملا نے کے بھا رتی دہشت گرد ایجنسی را (RAW) کی ہر اینٹ کا جوا ب پتھر سے -بلکہ دو پتھروں سے دے رہی تھی -اگر RAWپا کستا ن کے کسی سرحدی علا قے میں ایک بم دھماکہ کر تی ...تو آئی ایس آئی بھا رت کے قلب میں دو دھما کے کر کے حسا ب چکا دیتی ۔

(جاری ہے)

۔۔۔
اپنی گندی فطرت کے ہا تھو ں مجبو ر ہو کر اگر انڈیا اپنی ایک بٹا لین فوج کو سرحد ی علا قے میں Moveکرتا ، تو پاک آ رمی کے دو ڈویژن انڈیا کے سر پرجا کے بیٹھ جا تے۔۔۔۔
پاک ایٴر فو رس کے فائیٹر جیٹ چشم زدن میں ہوا بدوش (Airborn )ہو کر اپنی گھن گر ج سے انڈینز کے گلے خشک کر دیتے ۔۔۔۔
ادھر نیلگوں پا نیو ں پہ اٹھکیلیاں کر تی ہماری نیو ی بھی غرّ ا نے لگتی ۔

۔۔۔بھارتی ٹھنڈے ہوکر بیٹھ جاتے!!
پاکستانیو۔
یہ ان دنوں کی بات ہے
جب امریکیوں کو ہمارے معاملات میں براہ راست دخل اندازی کی جرات نہ ہو تی تھی،امریکی سفیر کے لیے ہمارے وزیرخارجہ سے ملاقات کا وقت مل جانا ہی اسکی سفا رتی کا میا بی تصو ر کی جا تی ۔
افغان جہاد پا کستا ن کی بقا کی جنگ بن چکا تھا ۔۔ امر یکہ ہما را اتحادی تھا، مگر ہما ری شرایٴط پہ !
آئی ایس آئی کی سر پرستی میں افغا ن مجا ہدین روس کو تگنی کا ناچ نچا رہے تھے ۔

۔
ISI امریکی حکو مت اور CIA کے اعلی ترین عہد یداروں کو افغا ن مجا ہد ین سے براہ راست بات کرنے کی بھی اجازت نہ دیتی _!
امریکی سفیر لویٴس را فیل نے ایک بار افغا ن مجا ہد کمانڈر پرو فیسر یو نس خالص سے ملنے کی ضد کر دی _آئی ایس آئی کے کسی شرارتی افسر نے ملا قا ت کروانے کی حامی بھر لی ۔۔۔
اُنہی دنوں افغا ن مجا ہد ین کے کما نڈرز کسی میٹنگ کے سلسلے میں اسلام آبا د اکٹھے ہوئے تھے ۔

۔عصر کا وقت تھا ،امریکی سفیر ملاقات کے لئے جا پہنچا ،جب پرو فیسر یونس سے ملا قا ت کا مدعا ظاہر کیا تو وہ بولے ۔۔"میں وضو کروں گا ۔..تم اسی دوران اپنی بات ختم کر لو ،اتنا ہی وقت دے سکتا ہو ں "
ا ٌس کے بعد کسی امریکی کو آئی ایس آئی سے ضد کرنے کی ہمت نہ ہو یٴ- !!
امریکی ہمارے آقا بعد میں بنے ---پہلے محض اتحادی ہوا کرتے تھے ،
یہ انہی پر مسرت اور خما ر آلود دنوں کی بات ہے جب پاکستان دشمنی کی دائمی مریضہ اندرا گا ند ھی کی اٹالین بہو سو نیا گا ندھی (مو جو دہ کانگریس کی سربراہ ) نے بیا ن دیا کہ
,ہم نے پاکستان سے کلچر کی جنگ جیت لی ہے -
اُن دنوں Cableکا وجو د نہیں تھا ۔

۔ انڈین فلمیں چوری چھپے سمگل کر کے پاکستان لایٴ جاتیں اور VCRپہ دیکھی جاتیں -ان بھا رتی فلموں کا فا ر مو لاآجکل کی انڈین فلموں سے کچھ خاص مختلف نہ تھا -اوور ایکٹنگ کا شکار ادا کا ر ،تین چار سو لو گوں پر مشتمل پورے گاؤں کا مشترکہ ڈانس،PT شو کے انداز میں ناچتے ہوئے ہیرو اور ہیروئن کے گردا گرد 25 - 30 غلام لڑکے لڑکیاں محو رقص_!!مو ضوع وہی روائیتی لڑکے لڑکی کی محبت ممنوعہ -!
ہیرو ہیروئن کے سوا باقی تمام لوگ میرے جیسے سانولے ۔

۔بلکہ کالے کلوٹے
ہم نے بطور قوم سونیا گا ندھی کے اس بیان کو در خور اعتنانہ جانا !!
مگر وقت نے ثابت کر دیا ۔۔۔ سونیاگا ندھی کی بات درست تھی
ضیاالحق کے اقتدار کے خاتمے کے بعد ایک خاص پلاننگ کے تحت پاکستان دشمنی پر مبنی فلموں ایک سیلاب امڈ آیا
ان فلموں کے ذریعے ایک ثقافتی حملہ (Cultural Invasion)کر دیا گیا ۔
نظریہ پاکستان کی نفی ، ہند دوانہ رسم و رواج کی ترویج ۔

۔اور سب سے بڑھ کر اُردو زبان کا جنازہ نکالنے میں یہ ثقافتی حملہ بہت کارگر ثابت ہوا ، ۔۔۔۔۔
بچے اکثر اپنے دادا، دادی کے وفات پا جانے پر پوچھنے لگے کہ "اب ان کو جلانا کب ہے "؟
پاکستانیو!
یہ ثقافتی حملے جنگی حکمت عملی کا ہی ایک پُر اثر حصہ ہوتے ہیں ۔
امریکیوں نے برطانوی سامر اج سے آزادی پانے کے بعد محض اپنا قومی تشخص برقرار رکھنے کے لئے داہنے ہاتھ کی ڈرائیونگ کا قانون بنا دیا ، انگریزی زبان کا تلفظ اور کسی حَد تک گرامر بھی بدل کے رکھ دی ۔

۔۔۔آج تک بجلی کا سوچ آن کرنے کیلئے اُوپر کی جانب اور آف کرنے کیلئے نیچے کی جانب ٹرن کیا جاتا ہے ۔۔
روس کی شکست و ریخت سے پہلے ہی امریکیوں نے POPمیوزک سے وہ کام لے لیا ، جو روایتی جنگی پروپیگنڈا سے نہ لیا جا سکتا تھا۔ ۔
روسیوں کے کیمیو نزم کے خلاف چھپے جذبات کو امریکی سنگرز نے خوب مستی سے ہوا دی ، رو سی نوجوان امریکی POPمیوزک اور امریکی Jeansکے دیوانے ہوگئے ، ر وسیوں کی اس برین واشنگ میں جن مشہور گانوں نے کردار ادا کیا ۔

اُن میں Advice to Joe,Bear Flew over the Ocean,I am no Communistسِر فہرست ہیں ۔
50کی دہائی میں جب امریکی قیادت میں کمیونسٹ اور غیر کمیو نسٹ ممالک کے درمیان "سرد جنگ "اپنے عروج پر تھی تو امریکی خفیہ ایجنسی CIA نے Advancing American Art کے نام سے کمیونسٹ ممالک میں آزادی کی ایک باقاعدہ مہم شروع کردی ۔ Robert Mother Wel'Jackson Pollock، اور Mark Rothocksکی پینٹنگز کے ذریعے کمیونسٹ مخالف جذبات اُبھارے گئے ۔

۔۔
CIAنے 3ملین ڈالر ان پینٹنگز میں مخص ایسے رنگوں کے استعمال پہ خرچ کر دئیے گئے ۔۔ جو انسانی لا شعور میں بس کر آزادی کی خواہش پیدا کرتے ، رنگوں کا یہ امتزاج انسانی دماغ پر گہرا اثر چھوڑتا ۔۔۔!
ہماری نوجوان نسل تخلیقی صلاحتیوں سے ما لامال ہے مگر اپنی زبان سے تعلق کھورہی ہے ۔ ۔۔
ماہرین لسا ینات (linguists) کے مطابق ․․اگر کسی انسان کی اپنی مادری زبان پہ گرفت مضبوط ہے تو وہ غیر ملکی زبان میں بھی کمال پیدا کر سکتا یعنی اگر آپ کی مادری یا قومی زبان اچھی ہے تو آپ کی انگریری بھی اچھی ہو سکتی افسوس کہ ہماری نوجوان نسل زبان کے معاملے میں گھر کی رہی نہ گھاٹ کی ۔

۔۔۔۔!!
پاکستان میں دکھائی جانے والی انڈین فلمیں اور گانے 99% اُردو، جبکہ علمی اور تحقیقی چینلز Animal Planet,National Geographic Channel Discovery 100فی صد ہندی میں ڈب ہوتے ہیں۔۔!
ہمارے نوجوان "آرتی اُتارنے "اور "چتا جلانے "کے فن سے تو آشنا ہو ہی چکے تھے ، مگر ہندی زبان کا زہربھی اب پوری طرح ہماری رگ وپے میں سرایت کر چکا ہے
متاثرین میں اکثریت خواتین کی ہے ، ماہرین لسّا نیا ت کے مطابق خواتین پےئر پریشر (Peer Pressure) کے تحت فطری طور پر بولتے وقت اپنی زبان میں نفاست اور نزاکت لانے پر مجبور ہوتی ہیں ۔

۔۔
چنانچہ "خان "کو کھان ۔۔۔۔"کیونکہ "کو کیونکی "مرچ "کو مرچی ۔۔۔۔"خوش "کو کھش
"سمت" کو دِشا، "تیز "کو تیکھا کہنا عام ہے
کراچی کے گلی محلوں میں یہ ہندی Slangخوب بولی جا رہی ہے ، "ارے " کو ابے ۔۔۔۔۔"مجھے اور تمھیں "کو میرے کو ،تیرے کو ، بولا جاتا ہے۔۔۔
قومی زبان کا یہ قتل عام ارباب اختیار کی نظروں سے مستقل اوجھل ہے ۔

۔۔۔!!
مزید بر آں قسم اُ ٹھاتے وقت گلے کو چٹکی میں لینا ، مخصو ص ہندو و آنہ طرز میں نظر اُتا رنا کراوؤ کی تالیوں کے جواب میں نمستے کے انداز میں ہاتھ جوڑنا عام ہو چکا ،
کسی کو چنداں فکر، نہ کوئی غم لا حق ۔۔۔۔۔۔!!
اس ثقافتی حملے کی زدَ میں ہمارے موجود ہ وزیراعظم بھی آگئے ۔۔۔
13اگست 2011کو SAFMAکے اجلاس سے خطاب کے دوران بھارتی اداکاراؤں کا جادو سر چڑھ کر بولا اور موصوف گویا ہوئے
"ہم (پاکستا نی ) اور آپ (بھارتی ) ایک ہی قوم ہیں ، ہماری زبان ، کلچر اور کھانے ، ایک جیسے ہی ہیں ، یہ تو بس ہمارے بیچ ایک لکیر (Border) ہی ہے ۔

(یعنی جس کی کوئی اہمیت نہیں )"
افسو س صد افسوس ہم نے اپنا تشخص ، اپنا قومی وقار (National Pride) کھودیا ۔۔۔۔۔ہمارے سبز پاسپورٹ کی حر مت بین الاقوامی ائر پورٹس یہ یوں پا مال ہو رہی ہے کہ خُدا کی پناہ ۔۔۔۔۔!!
دو سال قبل ماسکو جاتے ہوئے تا شقند ائیر پورٹ جو کہ ایک اسلامی ملک ازبکستان میں واقع ہیں ، پر مجھے محض پاکستانی ہونے کی بناء پر علیحدہ کر لیا گیا اور جہاز میں سوار ہونے سے پہلے علیحدہ کمرے میں "تفصیل "سے تلاشی لی گئی اور وہ بھی ایک خاتون کے ذریعے ۔

۔۔۔
ماسکو پہنچنے تک میں اپنی اس تذلیل پر کڑھتا رہا جومحض میری قو میت کی بنا پر کی گئی ۔۔۔ میں سوچتا رہاکہ دنیا میں ہمارا مقام 1987سے پہلے تک تو ایسا نہ تھا۔۔۔ ہم ساری دنیااور
خصو صاََ امریکہ کے لیے بہت اہم تھے۔۔۔ اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں کسی بھی مذ ہب کی تبلیغ ممنو ع ہے ۔۔
مگر جنرل ضیا الحق نے بنا تلاوت اپنی تقریر شروع کرنے سے انکارکردیا مجبوراََ UNO کو ہتھیار ڈالنا پڑے اور ہم سب نے دیکھا کہ ا قوام متحدہ کی تاریخ میں پہلی بار جنرل اسمبلی کے اجلاس میں تلاوت قرآن گو نج رہی تھی ۔۔۔۔!!
دنیا میں ہمارا دبدبہ تھا ۔۔۔۔عزت تھی ،
کیونکہ یہ اُن دنوں کی بات ہے
جب کُھشی "خوشی " ۔۔۔ اور مرچی "مرچ "ہو ا کرتی تھی ۔۔۔۔!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :