مشرقی پاکستان:جب بازو ٹوٹ گیا!

جمعرات 18 دسمبر 2014

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

دو جملے بہت مشہور ہیں ایک محمد علی جناح سے منسوب جملہ جس میں کہا گیاتھا کہ ”پاکستان اس دن بن گیا تھا جب برصغیر میں پہلا شخص مسلمان ہوا تھا“ اس فقرے کی حقانیت اور جامعیت متضاد دلیلوں کا شکار ہے۔دوسرا جملہ یہ ہے کہ ”بنگلہ دیش کی بنیاد اسی دن رکھی گئی تھی جب 1948ء میں ڈھاکہ ایئرپورٹ پر محمد علی جناح کا استقبال کالی جھنڈیوں اور مخالفانہ نعروں سے ہوا تھا۔

نئے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل اور بابائے قوم کہلانے والے اس راہنما کا اس طرح کا استقبال اس رنج و الم اور غصے کا اظہار تھاجو پاکستان کا دارلخلافہ ڈھاکہ کی بجائے کراچی کو بنانے اوراکثریتی”بنگلہ“ زبان کی بجائے ایک اقلیتی اور بہت ہی کمزور زبان ”اردو“کو قومی زبان کادرجہ دے دیا گیا۔

(جاری ہے)

یہ آغاز تھا اس تقسیم کا ‘جس کی پرورش پھر 1947ء سے 16دسمبر1971ء تک کی گئی۔

افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ اس سانحہ کے 43سال بعد بھی پاکستان کے حکمران طبقے اور ساری خرابی کی ذمہ دار سیاسی اور مذہبی پارٹیوں اورانکا نقطہ نگاہ‘ آج تک اس تقسیم کا حقیقت پسندی سے نہ ادراک کرسکا اور نہ ہی اس روش کو ترک کرنے کی طرف کوئی پیش رفت ہوئی۔مختلف قوموں کے برابری کے حقوق کو تسلیم نہ کیا جاناآج بھی شد ومد سے جاری وساری ہے۔مشرقی پاکستان کے نہ صرف برابری کے سیاسی حقوق کو تسلیم نہ کیاگیا بلکہ معاشی حقوق زبردست حق تلفی کی گئی۔

فوجی بیرکوں تک میں مغربی پاکستانیوں اور مشرقی پاکستان کے سپاہیوں کے لئے الگ” میس“بنے ہوئے تھے۔بنگالیوں کی ثقافتی تحقیر اسی طرح کی جاتی تھی جس طرح اب بلوچوں،سندھیوں اور سرائیکوں کی کی جاتی ہے۔آج بھی پختونوں کی تذلیل کے لئے لطیفے گھڑے جاتے ہیں۔اکثریتی قوم کے بالادست طبقے کی طرف سے دیگر تمام اقوام کو ”سیکورٹی رسک“ غدار،جاہل ،بزدل اور مجرم سمجھنے کی سوچ کو پھیلانے میں کوئی شرم محسوس نہیں کی جاتی۔

بنگالیوں کے ساتھ بھی یہی ہوتا رہا۔شیخ مجیب الرحمان کے چھ نقاط کے مطالبات آج کی اٹھارویں ترمیم سے کہیں کمتر تھے مگر ان مطالبات کو پاکستان کے مفادات کے خلاف قراردے کر پاکستان کو ٹوٹنے دیا گیا مگراکثریتی قوم کے حقوق کو تسلیم کرنے سے یکسر انکار کردیا گیا۔بیس لاکھ لوگوں کا قتل اور چار لاکھ خواتین کی بے حرمتی کے اس مجرمانہ کھیل کا دفاع کرنے کے لئے آج بھی ”محب وطن“ افراد کی کمی نہیں جنہوں نے تاریخ کا مذاق بننا پسند کیا مگر تاریخ سے کچھ سیکھا نہیں۔


مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کی خون آلودہ کہانی کی مجرم صرف مغربی پاکستان کے حکمران،اسٹیبلشمنٹ اور جماعت اسلامی ہی نہیں تھی بلکہ اس کے اور بھی بہت سے رخ اور ذمہ داران تھے۔بنگلہ دیش بننے سے ایک طرف تویہ بات ثابت ہوئی کہ کسی استحصال زدہ قوم کو مذہب اور جبر کی بنا پر اپنے ساتھ چمٹائے رکھنا ناممکن ہے۔ تو دوسری طرف یہ بھی ثابت ہوگیا کہ سامراجیت اور سرمایہ داری کو قائم رکھتے ہوئے کسی قسم کے قومی حقوق کا تصور ایک یوٹوپیائی خواب اور مجرمانہ حماقت ہے۔

مشرقی پاکستانیوں کا اگر پاکستان کے اندر 22سال استحصال ہوا،حق تلفی ہوئی اور انکو تذلیل کا سامنا کرنا پڑا تو بنگلہ دیش کی اس نام نہادقومی آزادی کے 43سال بعد بھی بنگالی عوام کی اکثریت جس بڑے پیمانے پر بے روزگاری،پست معیار زندگی، غربت،جہالت،بیماریوں اور ذلت کا شکار ہے،اسکے ذمہ داروہ قوم پرستی کے نظریات ہیں جو کسی قوم کو محض ایک ”اکائی“قرار دیتے ہوئے اسکی طبقاتی تقسیم اور طبقاتی مفادات کو فراموش کردیتے ہیں۔


سامراجی نظام اور سرمایہ داری کے رہتے ہوئے کسی بھی قومی آزادی کی جدوجہد کی کامیابی استحصال کرنے والے ہاتھوں کوبدلنے کے علاوہ کوئی فریضہ سرانجام نہیں دیتی۔محض قتل کرنیوالے بدل جاتے ہیں ،پہلے کسی دوسری قوم کا بالادست طبقہ لوٹ مارکررہا ہوتا ہے پھر محنت کش طبقے کی اپنی قوم کا بالادست طبقہ یہ لوٹ مار شروع کردیتا ہے۔غریب غریب رہتا ہے بلکہ لوٹ کھسوٹ میں شدت آنے سے غربت اور محرومی اور گہری ہونا شروع ہوجاتی ہے۔

بنگلہ دیش کی گارمنٹس فیکٹری میں کام کرنے والی ایک سولہ سالہ بچی نے ایک مغربی جریدے کے صحافی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ”مجھے اپنی ہم عمر ان لڑکیوں پر رشک آتا ہے جو جسم فروشی کے کاروبار سے منسلک ہوچکی ہیں“اس ہولناک نقطہ نظر سے واضع ہوتا ہے کہ بنگلہ دیش میں محنت کا استحصال اور جبر کس حد تک انسانیت سوز کیفیت اختیار کرچکا ہے۔ نام نہاد قومی آزادی اس کے ذمہ داروں کا تاریخی اور نظریاتی تناظر میں جائیزہ لینا ضروری ہے۔

اس کے ساتھ ہی بنگلہ دیش کے لوگوں کا پست معیار زندگی اور اکثریتی محنت طبقے کا ”مشرقی پاکستان “ اور ”بنگلہ دیش“ میں ایک جیسا ہی مقدر کیوں ہے ؟ کو سمجھے بغیر قومی حقوق کی موجودہ تحریکوں کا رخ درست نہیں کیا جاسکتا ۔برصغیر کے بٹوارے اور مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے ،یعنی پاکستان بننے کے 24سالوں میں ہی کئی سرکاری ”نظریات“ کے غلط ہونے پر مہر ثبت ہوگئی۔

دوسری طرف عوامی جمہوری انقلاب اور قومی جمہوری انقلاب کے ناقص،بانجھ ،متروک اور سفاک ہونے کی بھی اس سے بڑی کیا دلیل ہوگی کہ عبدالحمید بھاشانی جومشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے محنت کش طبقے کی نمائندگی کررہے تھے،پیکنگ کے زیر اثر ایوب خاں کے خلاف تحریک سے الگ ہوکر تنگ نظر قوم پرستی کے پنپنے اور بنگالی قوم کوشیخ مجیب کی طرف سے دکھائی گئی راہ گم گشتہ پر ڈالنے کا موجب بنے۔

دوسری طرف مغربی پاکستان میں سات نومبر1968ء میں ابھرنے والی طالبعلموں او ر محنت کش طبقے کی تحریک جو اپنے مطالبات اور کردار کے لحاظ سے مکمل سوشلسٹ تحریک تھی جو جغرافیائی بندشوں او ر دوریوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے مشرقی پاکستان کے گوشے گوشے تک پھیل گئی ۔مگرایک طرف مولانا عبدالحمید بھاشانی کی پیکنگ کی پیروکارانہ روش اس تحریک کو نظریاتی جواز،قیادت اور کیڈر فراہم نہ کرسکی تو دوسری طرف اس تحریک کا مغربی پاکستان میں ”مرکزہ“ پا کستان پیپلز پارٹی بنی‘ جو پھر قیادت کے ذہنی طور پر تیار نہ ہونے اور تحریک کے ”کردار“ کا درست تجزیہ کرنے کی عدم صلاحیت کی بنا پر اس تحریک کو منزل مقصود تک پہنچانے کی بجائے سرمایہ دارانہ نظام کے انتخابات کی چوکھٹ پر پہنچ کر اپنے مقاصد کے بالکل متضاد پہنچ گئی۔

تاریخ کا یہ سبق ہے کہ ایک انقلابی تحریک کے ابھرنے سے قبل انقلابی نظریات پر عبور رکھنے والی قیادت،انقلابی تنظیم اور کیڈر جو درست لائحہ عمل بنانے کی صلاحیت رکھتے ہوں ،کا وجود لازم ہے۔ورنہ پھر تحریکیں انقلابات سے بچھڑ کر ردانقلاب کی طرف گامزن ہوسکتی ہیں ۔جیسا کہ پاکستان میں 1967-71کے دوران ہوا۔انقلاب اور قیادت سے
محروم ہوکر پچھلے 22سالوں سے قومی استحصال کا شکار لوگوں کی ایک تعداد قومی شاونزم کی طرف گامزن ہوسکتی ہے جس کا مظاہرہ مشرقی پاکستان میں ہوا۔

مشرقی پاکستان کے فوجی آپریشن نے جہاں قتل وغارت گری،خواتین کی عصمت دری اور جبر کے نئے ریکارڈ قائم کئے وہیں مکتی باہنی کیمونسٹ گوریلوں کے انقلابی کردار اور زبردست مذاحمت نے بھارت کو اس خوف سے کہ کہیں یہ ”سرخ انقلاب“ سرحدوں کو عبور کرکے مغربی بنگا ل اور پھر پورے ہندوستان کو اپنی لپیٹ میں نہ لے لے،جارحیت پر مجبور کیا۔امریکہ کا ساتواں بحری بیڑا بھی بحریہ ہند میں موجود تھا کہ اگر کیمونسٹوں کو بھارتی افواج نہ کچل سکیں تو امریکی براہ راست مداخلت سے یہ فریضہ“ سرانجام دیں ۔

عالمی سطح پر موجود تیز ترین تبدیلیوں کے عہد میں سرخ بنگال طاقتوں کا توازن تبدیل کر سکتا تھا۔ اسی خطرے کے پیش نظر امریکی بحری بیڑہ خلیج بنگال میں موجود تھا تا کہ پاکستانی فوج کے بد ترین مظالم کی ناکامی کے بعد اگر ہندوستانی فوج بھی ناکام ہوتی ہے تو وہ اس تحریک کو کچلنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انقلاب میں ابھرے ہوئے عوام کو فوجی جبر کے ساتھ نہیں کچلا جا سکتا بلکہ قیادتوں کی نظریاتی غداریاں تحریکوں کو برباد کرتی ہیں۔

لاکھوں افراد کی قربانیوں کے بعد حاصل ہونے والی ”آزادی“ میں بنگلہ دیش کے محنت کش آج بھی غربت کی چکی میں پس رہے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ان پر ظلم اور استحصال کرنے والے اب پاکستان کی بجائے بنگلہ دیش کے حکمران طبقات ہیں۔ عالمی مالیاتی اداروں اور سامراج کا جبر و استحصال نہ صرف موجود ہے بلکہ 1971ء کے بعد پاکستان کی طرح بنگلہ دیش میں بھی کئی گنا بڑھا ہے۔

عالمی منڈی کی جکڑ بندیاں بھی پہلے سے زیادہ سخت ہوئی ہیں۔ گارمنٹس کی صنعت کے لاکھوں محنت کش آج بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اور انتہائی بے سر و سامانی کی کیفیت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ دنیاکے سستے ترین محنت کشوں میں شمار ہونے والے بنگلہ دیش کے محنت کش ملٹی نیشنل کمپنیوں کا منافع بڑھانے والا خام مال بن کے رہ گئے ہیں۔ کبھی فیکٹریوں میں لگنے والی آگ میں جھلس کر اور کبھی ناقص عمارت کے انہدام سے مرنے والے محنت کش آج بھی اپنے بنیادی حقوق کی جدوجہد میں سرگرداں ہیں۔

سرمایہ دارانہ معیشت کے بلند ”گروتھ ریٹ“ کے نتیجے میں بنگلہ دیش کے 54 فیصد بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔عوامی لیگ کی موجودہ حکومت آزادی کے 43 سال بعد بھی انہیں بنیادی سہولیات دینے سے قاصر ہے اور حقیقی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے 1971ء کے مجرموں کو سزائیں دینے کی کاروائی کر رہی ہے۔ 1971ء کے مجرموں کو سزا ضرور ملنی چاہیے۔ جن لوگوں نے سامراجی فوج کے ساتھ مل کر خواتین کے ساتھ جبری زیادتی کی اور قتل عام میں حصہ لیا ان کو کیفر کردار تک پہنچانا انتہائی ضروری ہے لیکن ان سے کہیں بڑے مجرم وہ حکمران اور ان کا نظام ہے جو نسل در نسل محنت کش عوام کو غربت، محرومی، بھوک، بیماری اور ناخواندگی کی اتھاہ گہرائیوں میں غرق کئے ہوئے ہیں۔

بنگلہ دیش کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں غربت کے باعث عصمت فروشی کا رجحان مسلسل بڑھ رہا ہے۔ پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے جسم بیچنے والی بنت حوا کا مجرم کون ہے؟ 1971ء کے قتل عام میں اصل خون اس انقلابی تحریک کا ہوا تھا جو بر صغیر کی سوشلسٹ فیڈریشن کی جانب بڑھ رہی تھی۔ اگر ایک انقلابی پارٹی اس تحریک کو سوشلسٹ انقلاب کی منزل سے ہمکنار کر دیتی تو آج یہاں کا جغرافیہ اور تاریخ مختلف ہوتے۔

برصغیر دنیا کی سب سے زیادہ غربت پالنے والے خطے کی بجائے انسانی تہذیب کی ترقی اور امن کا گہوارہ ہوتا۔ تاریخ سے اہم اسباق اخذ کرنا انقلابیوں کا ہمیشہ سے بنیادی فریضہ رہا ہے۔ سقوطِ ڈھاکہ کے واقعات اس ادھوری جدوجہد کو مکمل کرنے کا درس دیتے ہیں۔ ایک ایسی جدوجہد جس میں قومی آزادی کی تحریکوں کو طبقاتی کشمکش کے ساتھ جوڑتے ہوئے اس طبقاتی نظام کا مکمل خاتمہ کیا جائے۔ رنگ، نسل، زبان، مذہب اور دیگر تمام تعصبات سے بالا تر ہوکر امیر اور غریب کی اس حتمی لڑائی کی صف بندی کی جائے اور اپنے طبقاتی دشمنوں سے ماضی کے تمام جرائم کا انتقام لیتے ہوئے یہاں ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کرکے انسانیت کی حقیقی تاریخ کا آغاز کیا جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :