سسکتے لفظ

جمعرات 18 دسمبر 2014

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

پشاور آرمی سکول کاواقعہ سانحہ ہے یا المیہ‘ کس کی بے حسی کا سبب یہ واقعہ یہ سانحہ 140سے زائد بچوں بڑوں کو موت کے منہ میں لے گیا‘ 132معصوم بچوں کی نعشیں دیکھنے کے بعد اور اس سے متعلق سننے کے بعدقلم پر گرفت قابو میں نہیں آرہی‘ لکھنے کو دل بہت کرتا ہے لیکن یہ نمناک‘ غمناک واقعہ کچھ لکھنے نہیں دے رہا‘تصور میں دیکھتے ہیں تو یہ 132 معصوم بچے سوال کرتے ہیں کہ مساجد‘ مدارس ‘ امام بارگاہوں میں دھماکے کرنیوالو !یقینا ہم جیسے معصوم پھولوں کو جنت میں پہنچاکر تمہاری روح کو تسکین مل گئی ہوگی؟ عالم برزخ سے ان معصوموں کے سستے چیختے سوالات کانوں میں گونجتے ہیں تو دل بے چین ہوجاتا ہے‘ آنکھیں الگ اوردل الگ ‘آنسو روتے ہیں‘ سمجھ میں نہیں آتا کہ کس کانوحہ لکھیں اور کس کو مطعون ٹھہرائیں کہ وہ 132 معصوم روحیں ہرپاکستانی کو اپنے جگر کاٹکڑا لگتی ہیں تبھی تو آج پورا ملک ہی نہیں پوری دنیا افسوس میں ڈوبی ہے‘ سوال تو کیاجاسکتا ہے کہ وہ درندے آج تو خوش ہونگے جب انہوں نے پوری انسانیت کو سسکتے تڑپتے ‘ روتے چیختے دیکھاہوگا۔

(جاری ہے)

چنگیزیوں کاوطیرہ رہاہے کہ انہیں چہروں پر کھلکھلاتی مسکراہٹ ‘چہرے کی معصومیت سے زیادہ چیخوں سے پیار ہوتاہے ‘ سو آج ان کے دل کے ارمان پورے ہورہے ہونگے۔بہت کوشش کی کہ سسکتے لففظوں کوترتیب کے ساتھ کالم کی شکل دی جائے مگر بہت چاہنے کے باوجود ایسا نہ ہوسکا ۔چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں کی شکل میں ان سسکتے لفظوں کو مرتب کیا ہے ۔ ‘ان لفظوں میں سوال بھی چھپے ہیں‘ جو اپنے جواب کے منتظر ہیں اس قوم سے ‘حکمرانوں سے؟؟؟
###
سانحہ پشاور کے بعد کم ازکم ہماراایمان کامل ہوگیا ہے یہ لوگ مسلمان تو کجا انسان کہلوانے کے بھی لائق نہیں ۔

یہ درندے ہیں درندے
اب وقت آ گیا ہے کہ ضیا الحق کے دور میں کھلنے والی جہادی فیکٹریوں کے دروازے ہمیشہ کیلئے بند کردئیے جائیں۔ نیز اب یہ جنگ ہمارے گھروں تک آن پہنچی ہے جب ہمارے بچے اس کی نذرہوچکے ہیں تو ہمیں اسے اپنی جنگ مانتے ہوئے بحیثیت پاکستانی ہر اس یزید کا مقابلہ کرنا ہے جو طالبان یا طالبائزیشن کاحامی ہے یا انہیں اچھا سمجھتا ہے ۔

۔۔۔۔ ۔۔ظالم کے ظلم پر مسکراکر داد دینے والا بھی ظالم ہی ہوتا ہے۔۔۔۔۔سو اب مظلوموں کو جاگناہوگا اپنی آنیوالی نسلوں کیلئے
####
کل جب ایک باپ روتے ہوئے کہہ رہاتھا کہ میری بیس سال کی محنت ظالموں نے بیس منٹ میں ہی خاک میں ملادی ۔کل جب اس سانحہ کے بعد ایک نجی ٹی وی پر بچے بار بار ہاتھ جوڑ کر کہہ رہے تھے کہ اب بس کردو ․․․․اب بس کردو․․․․․اب بس کردو ۔

۔۔ ۔۔۔۔تو کئی کلیجے پھٹ گئے ہونگے، آنکھیں نمناک ہوگئی ہونگی۔ہم نے صاحب اولاد خواتین وحضرات کو خون کے آنسو روتے دیکھا ہے․․․․․․کیا وہ سفاک ایسے جذبات سے عاری ہیں
․․․․․․․اگر ایسا ہی توپھر ایسے درندوں کو شہروں میں رہنے کا حق نہیں انہیں سرعام گولی ماردینی چاہئے یا پھر انہیں ان لاکھوں متاثرین کے سپرد کردیاجائے جن کے معصوم بچوں ،بزرگوں ،عورتوں کو ظالموں نے چاٹ لیا ہے
####
عرش تو ہل ہی رہاہوگا جب معصوم معصوم چیخیں آسمانوں کو چیرتی ہوئی خالق کل تک پہنچی ہونگی۔

۔۔۔۔عرش تو ہل ہی رہاہوگا جب ایک دونہیں سو سے زائد بچوں کو شہید کردیاگیا ان کی آہوں سسکیوں سے فرشتے بھی رو رہے ہونگے․․․․․․․․․اے انسان تیرا دل کیوں پتھر ہے تو نے کس طرح سے ان معصوم سینوں میں گولیاں پیوست کی ہونگی۔۔۔۔۔۔۔
####
ہم نے واقعہ کرب وبلا نہیں دیکھا بس اس کی اذیت محسوس کی ہے لیکن کل کاواقعہ تو اسی اذیت سے دوچار نظرآتا ہے۔

ایک بات دونوں میں مشترک ہے کہ دونوں واقعات کی غیر مسلم بھی مذمت کرتے رہے لیکن خود کو اسلام کی صف میں زبردستی گھسیٹے رکھنے والے دونوں واقعات پر شاداں تھے کہ ان کا بدلہ پورا ہوگیا
####
کیا لکھو گے۔کیا کہو گے۔ کس بات سے شروع کرو گے۔ کس بات پر ختم کرو گے؟؟؟
سردیوں کی ٹھنڈی صبح میں کسی نے ضد بھی تو کی ہو گی۔ ماں! میں نے آج سکول نہیں جانا۔

میرا دل ڈر رہا ہے۔ کسی نے کہا ہو گا ماں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ آج دن بہت بڑا ہو جائے گا۔ دھڑکن سی رُکتی محسوس ہو رہی ہے۔ کسی نے کہا ہو گا ابو میں نے سارا کام کیا ہے آج مجھے چاکلیٹ لے کر دینی ہے۔ کسی نے پوچھا ہو گا۔ بہن! تم مجھے ڈانٹ رہی ہو اگر میں شام کو واپس نہ آیا تو۔ اور بہن کا جواب ضرور ہو گا کہ بُری بات نہیں کہتے ہوتے جاؤ سکول۔ پھر کیا ناشتہ طلب کیا ہوگا۔

۔۔آہ۔۔۔آخری ناشتہ۔ آخری لقمہ۔کیسے حلق سے اترا ہو گا۔ کانپتے ہوئے سرد ہاتھوں میں نوالہ۔ آنکھوں میں واپسی کی امید۔ ٹھٹھرتی ہوئی فرمائش۔ لبوں پر سکتہ۔دیر ہو رہی ہے جلدی کھا لو۔دیر ہو رہی ہے جلدی نکلو۔دیر ہو رہی ہے ابو باہر کھڑے ہیں۔ہاں اب دیر ہی ہو گئی۔کون لوٹنے میں دیر کر رہا ہے۔ بچہ گھر کیوں نہیں آیا پتا کرو؟ کہیں دوستوں کے ساتھ کھیلنے نہ چلا گیا ہو؟ کہیں وہ انتظار نہ کر رہا ہو جلدی جاؤ؟ میرے بیٹے نے تو صبح ناشتہ بھی نہیں کیا۔

الٰہی شام ہو گئی ہے بچے کی حفاظت فرمانا۔ کتنا دردناک دن تھا۔ کتنا سفاک دن تھا۔ ہائے ہائے افسوس۔ میرے بچے نے پانی مانگا ہو گا۔ میرے بچے نے مجھے پُکارا ہو گا۔ اس کمینے کے ہاتھ پاؤں جوڑے ہوں گے۔ میری گھر میں ماں منتظر۔ میرے گھر میں بہن اکیلی۔ میں نے کسی کو ساتھ لے کر جانا ہے۔ مجھے تم چھوڑ دو۔ معاف کر دو۔کوئی غلطی ہو گئی ہے تو بخش دو۔

رحم کرو۔سکتے میں کتنی مائیں‘بہنیں گری ہوں گی۔ جب سکول کی خبر سُنی ہو گی۔ کتنے باپ غش کھا کر گر پڑے ہونگے۔کتنے دروازے کھلے چھوڑ کر سڑکوں پر دوڑے ہونگے۔ لاشہ دیکھا ہو گا تو کیا بیتی ہو گی۔ بے دردو۔ ظالمو۔تمہارے ہاتھ نہیں کانپے میرے بچے کا سینہ چھلنی کرتے ؟؟؟ یہ پڑا ہے لاشہ اور مارو۔ شہید کرو۔لہو نکال دو سارا۔شہید ہے۔زندہ ہے۔ مجھے فخر ہے۔ میں نہیں روتی۔میں نہیں روتا۔مجھے کوئی سوگ نہیں۔مجھے کوئی دکھ نہیں رنج نہیں۔شہید ہو گیا۔ اللہ نے رُتبہ دیا۔ شان دی۔سوگ کیسا۔کیا لکھیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :