یہ امریکہ ہے

جمعرات 18 دسمبر 2014

Zabeeh Ullah Balghan

ذبیح اللہ بلگن

امریکہ سے خبر آئی ہے کہ امریکی شہر ہوسٹن میں دو نوجوانوں نے ایک 15سالہ لڑکی کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے کے بعد اس کی آنکھیں نکال دیں ۔ خبر میں مزید مذکور ہے کہ 17سالہ نوجوان ہوزے ریس نے اپنے ہم عمر ساتھی کے ساتھ مل کر کوریان سیر وانس نامی لڑکی کے فلیٹ پر جا کر اس کے ساتھ جنسی زیادتی کی اور پھر کند اوزاروں کے ساتھ اس کی دونوں آنکھیں نکال دیں ۔

محترم قارئین اگر یہ واقعہ پاکستان میں وقوع پذیر ہوا ہوتا تو یقینی طور پر اس پر بہت لے دے ہوتی اور پاکستان کے قومی تشخص کو مسخ کر کے پیش کیا جاتا مگر کیا کیجئے کہ یہ واقعہ اس سماج میں پیش آیا ہے جہاں انسانی حقوق کے بین الاقوامی ادارے دنیا بھر کو انسانی حقوق کی بقا اور تحفظ کا درس دیتے ہیں ۔
امریکہ ہی میں موجود اقوام متحدہ کی بلند و بالا عمارت سے جب یہ اعلان ہوتا ہے کہ افغانستان اور پاکستان میں خواتین اور بچوں کا استحصال ہو رہا ہے اور دونوں ممالک خواتین اور بچوں کے تحفظ کو یقین بنائیں ، تو شائد اقوام متحدہ چراغ تلے اندھیرے کے مصداق امریکہ میں ہونے والے استحصال کو نظر انداز ر کر دیتا ہے ۔

(جاری ہے)

امریکی سماج کی حقیقی صورت یہ ہے کہ وہاں ہر شعبہ ہائے زندگی میں بچوں اور عورتوں کا استحصال بدستورجاری ہے ۔امریکہ میں فوج کے ادارے کو معتبر اور قابل اعتبار ادارہ تصور کیا جاتا ہے جبکہ حقیقت حال یہ ہے کہ اس ادارے کے متعلق رواں ماہ دسمبر کے ابتدائی ہفتے میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 2014 میں امریکی فوج میں جنسی زیادتی کے 5ہزار 983واقعات رپورٹ کئے گئے، جن میں دو تہائی متاثرین کا کہنا ہے کہ شکایات پر انہیں انتقامی کاروائی کا سامنا کرنا پڑاہے ۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مجموعی طور پر ایسے واقعات میں کمی ہوئی ہے،تاہم شکایات کیلئے سامنے آنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 19ہزار افراد نے بتایا کہ انہیں نہ چاہتے ہوئے جنسی رابطوں پر مجبور کیا گیا، ان افراد میں 10ہزار5سو مرد اور 8ہزار 5سو خواتین شامل تھیں۔رپورٹ کے اس حصے کو بغور پڑھنے کی ضرورت ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ مجموعی طور ایسے واقعات میں کمی واقع ہوئی ہے یعنی واقعات میں کمی کے بعد یہ تعداد 6ہزار کے قریب ہے جبکہ رپورٹ اس امر کو واضح کرتی ہے کہ اس سے قبل ایسے واقعات کی تعداد اس سے کہیں زیادہ تھی۔

فوج کے بعد چرچ کی صورتحال کا جائزہ لیں تو ہمیں دکھائی دیتاہے کہ پچھلی کئی دہائیوں سے دنیا کے متعدد ممالک میں عیسائی پادریوں کی معصوم بچوں سے جنسی زیادتیوں کے واقعات عالمی میڈیا میں سامنے آتے رہے ہیں اور خصوصا پچھلے کچھ سالوں میں یہ معاملہ بہت شدت اختیار کرچکا ہے ۔ہمیں یاد رہنا چاہئے کہ عیسائیت کے عالمی رہنما اس معاملہ پر معافی بھی مانگ چکے ہیں اور متعدد پادریوں کے خلاف قانونی کارروائی بھی کی جاری ہے۔

ایک ایسی ہی قانونی کارروائی کے دوران سابقہ سینئر عیسائی مذہبی رہنما اور ایک اہم پادری آرچ بشپ رابرٹ کارلسن نے ان جرائم میں ملوث پادریوں کی سوچ کو اس وقت افشاکردیا جب اس نے تفتیش کاروں کو یہ بتایا کہ اس کے خیال میں تو معصوم بچوں کے ساتھ کسی پادری کا جنسی زیادتی کرنا کوئی جرم نہیں ہے۔ اس اہم پادری کی اس سوچ کا انکشاف قانونی فرم جیف اینڈرسن اینڈ ایسوسی ایٹس نے اپنی جاری کردہ دستاویزات میں کیا ہے۔

انہتر سالہ اس پادری سے جب تفتیش کاروں نے بار بار سوال کئے تو اس نے جواب دیا کہ اب وہ سمجھتا ہے کہ یہ جرم ہے لیکن جب وہ یہ شیطانی کام کررہا تھا اس وقت اسے یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ یہ کوئی جرم ہے۔مذکور ہ پادری کی سوچ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اورکتنے ہزاروں اور ایسے پادری ہیں جو بچوں کو جنسی ہوس کا نشانہ بنانا جائز سمجھتے ہیں ۔
چرچ کی حالات زار کے بعد اب زرا امریکہ کے تعلیمی اداروں میں انسانی حقوق کی پامالی کی ایک جھلک ملاحظہ فرمائیں امریکی حکومت رواں سال مئی میں یہ اعتراف کر چکی ہے اسکول اور کالجوں میں جنسی زیادتی کے بڑھتے واقعات روکنے میں اسے ناکامی کا سامنا ہے ۔

دس سال کے دوران طلبا سے زیادتی کے واقعات میں 51فیصد اضافہ سامنے آچکا ہے۔ دنیا بھرمیں دہشت گردی کے خاتمے کا بیڑا اٹھائی امریکی حکومت کا حال یہ ہے کہ خود اپنے اسکولوں میں جنسی ذیادتی کے واقعات روکنے میں یکسر ناکام ہوگئی ہے۔ مئی 2014میں کئے گئے ایک سروے کے مطابق امریکی اسکول اور کالجوں میں جنسی جرائم کی تعداد میں کئی گناہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔

سروے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سال 2011 میں جنسی زبردستی کے 3ہزار3سو 30کیسز رجسٹرڈہوئے۔ رپورٹ کے مطابق 2012 میں ہزار طلبا میں سے کم از کم 52 طلبا کوجنسی ذیادتی کا نشانہ بنایا گیا، تعجب کی بات یہ ہے کہ دیہی علاقوں کے بجائے شہری علاقوں میں یہ جرائم تیزی سے پھیل رہے ہیں اور ان واقعات میں لڑکیوں کے بجائے لڑکے زیادہ متاثر ہورہے ہیں۔ سروے کے مطابق جنسی جرائم کے علاوہ طلبا میں خودکشی کے رجحانات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

دوسری جانب سال 2011میں امریکی اسکولوں میں پیش آنے والے مختلف واقعات میں 11طلبا اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔امریکہ کے بعد اسرائیلی معاشرے کی ایک معمولی سی جھلک قارئین کے سامنے پیش کرتا ہوں جس میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک چالیس سالہ اسرائیلی خاتون کو 100 سے زائد بچوں کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے پر گرفتار کرلیا جاتا ہے۔اس خاتون پر الزام تھا کہ اس نے 100 سے زائد بچوں کو مختلف اوقات میں جنسی حوس کا نشانہ بنایا۔

نشانہ بننے والے بچوں کی عمریں 12 اور 14 سال کے درمیان تھیں۔ یہ معاملہ اس وقت نمایاں ہوا جب شکار بننے والے بچوں نے اپنے والدین کو اس بارے میں بتایا اور کچھ واقعات کی ویڈیو بھی انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کی گئی۔
علامہ اقبال نے جب فرمایا تھا کہ” تمہاری تہذیب آپ اپنے خنجر سے خود کشی کرے گی “تو یہ بجا طورمغربی سماج کے مستقبل کی نقشہ گری تھی ۔ مذکورہ بالا واقعات سے امریکی معاشرے کی اخلاقی پستی اور گراوٹ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور میرے جیسے صحافی کارکن یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ جناب امریکہ! آپ دنیا کی فکر چھوڑئیے اور اپنے گھر کو سنبھالیے ، امریکی عوام کی بے راہ روی کا سدباب کیجئے ، انہیں انسانی حقوق کی پاسداری کا درس سنائیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :