عفریت

ہفتہ 20 دسمبر 2014

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

16دسمبرمنگل کے روز پشاور میں آرمی پبلک سکول پر مبینہ طور پر 7دھشت گردوں نے بربریت کی انتہا کردی۔145ہلاکتوں میں زیادہ ترپھول جیسے بچے تھے ،جن میں سے بیشتر کو منہ پر گولیاں ماری گئیں یا انکے گلے کاٹ دیے گئے۔ایک خاتون ٹیچر کو معصوم طلباء کے سامنے زندہ جلادیاگیا۔اس سفاکیت کی مماثلت عراق اور شام میں ”دولت اسلامی“ کے ہاتھوں ہونے والی بربریت سے کی جاتی ہے ۔

جہاں بچوں،عورتوں،نہتی آبادیوں اور ہتھیار پھینک کر اپنی شکست تسلیم کرلینے والے قیدی نوجوانوں کو گلے کاٹ کر قتل کیا جارہا ہے یا پھر سینکڑوں خواتین کو باندھ کر سفاکانہ فائرنگ سے ماردیا جاتا ہے۔
16دسمبر کے سانحہ پشاور والے دن ہی آرمی چیف کا افغانستان کا ہنگامی دورہ ثابت کرتا ہے کہ مذکورہ دھشت گردی کے پیچھے افغانستان میں چھپے ہوئے اسلامی شدت پسندوں کا ہاتھ ہے۔

(جاری ہے)

اگرچہ پاکستان میں طالبان کے ترجمان خالد خراسانی نے اس دلخراش واقعے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے مگر واہگہ بارڈر پر چم کشائی کی تقریب کے قریب بم دھماکے کی ذمہ داری طالبان سمیت تین شدت پسند اسلامی تنظیموں نے بیک وقت قبول کرکے ثابت کردیا تھا کہ حملہ آور اور ”بیان بازی “ کرنے والوں میں کوئی کوارڈینیشن موجود نہیں ہے۔آرمی چیف کا فوری طور پر دورہ افغانستان ثابت کرتا ہے کہ وہ ”اچھے طالبان“جن کو وزیرستان آپریشن سے قبل پورا موقع دے کر باحفاظت افغانستان جانے دیا گیا تھا،انہوں نے قبل ازیں ”پرچم کشائی “ کی تقریب اور اب 145معصوموں کو بربریت سے قتل کرکے ثابت کردیا ہے کہ وہ محض قتل وغارت گری کا آلہ ہیں اور وہ جس کے ہاتھ میں ہوں گے اسکے مفاد کے لئے استعمال ہونگے۔

امریکی مفادات کے لئے تیار شدہ ”مجاہدین“،جن کو ضیاء الحق،اختر عبدالرحمان،حمید گل وغیرہ نے تربیت اور سہولیات فراہم کی تھیں بالآخر ”کرایہ “ ختم ہونے پرامریکہ کے ہی خلاف ”القاعدہ “ کی شکل میں برسرپیکار ہوگئے۔اسی طرح امریکی آقاؤں کی ضرورت کے تحت،سی آئی اے ،پاکستانی فوج،بے نظیر بھٹو،جنرل بابر،مولانا فضل الرحمان کی کاوشوں سے ”طالبان “ کے عفریت کو خلق کیا گیا مگر محض دو تین سال میں ہی اس ”عفریت“ نے بیک فائیر مارنا شروع کردیا ۔

پھر انکے خلاف پہلے 1998میں اور پھر بھر پورانداز میں نائین الیون کے بعد کاروائی کی گئی۔اس دوران پاکستان نے پرانی پالیسی جاری رکھی اور طالبان کے مختلف افغانی دھڑوں کی معاونت جاری رکھی۔اس معاونت کا نتیجہ پاکستان کے اندر ”طالبانائیزیشن “کی شکل میں نکلا ۔جس کے لئے تمام کوائف موجود تھے۔وہ مدرسے جہاں سے تربیت دیکر افغانستان اور کشمیر میں مداخلت کی جاتی تھی،اب وہیں سے ”تیارشدہ“ طالبان سوات اور پختون خواہ کے مختلف حصوں میں برآمد کئے جانے لگے۔

ایک وقت تک پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے طاقتورحصوں نے سوات کے ملاں فضل اللہ کی تمام تنصیبات اور قبضوں کی اعانت کی او ر حتی کہ آپریشن سے قبل خود اسکو باحفاظت نکال کر افغانستان پہنچادیا گیا۔یہ وہی فضل اللہ ہے جس کو اب افغان حکام سے پاکستانی آرمی چیف مانگ رہے ہیں۔یہ مطالبہ تضادات کا ایک جہاں اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ایسے ہی تضادات ہمیں پشاور آرمی سکول میں بہیمانہ قتل ہونے پر نام نہاد عالمی برادری کے ردعمل میں نظر آتا ہے۔

امریکی سامراج اور اسکے حلیف ملکوں نے سکول جانے والے بچوں پر جس قسم کا شوروغوغا کیا ہے وہ انکی منافقت اور دھرے رویوں کا عکاس ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ قاتل انکے اپنے بچے ہیں ،جن کو پیدا بھی انہوں نے کیا اور پروان بھی انہوں نے چڑھایا ۔دوسری بات یہ ہے کہ ہیروشیما،ناگاساکی پر ایٹم بم برسانے والوں نے اس دن ”سکول جانے والے بچوں“ کو شہروں سے نہیں نکالا تھااور ان کو انہی دونوں شہروں میں زندہ جلادیاتھا۔

ویت نام میں لاکھوں بچوں کو امریکی سپاہیوں،ہوائی حملوں اور چھاپہ مار کاروائیوں میں قتل کیا گیا تھا۔ خود افغانستان میں امریکہ اور پاکستان سمیت اسکے حواری ممالک نے جو آگ اور خون کا کھیل 1978سے اب تک کھیلا ہے اس میں دسیوں لاکھ بچے ان کی وحشت کی نظر ہوچکے ہیں۔امریکہ نے پہلی عراق جنگ کے بعد ”ہوائی محاصرے“ سے ،ادویات اور خواراک کی بندش کے ذریعے دس لاکھ سے زائد بچوں کی ہلاکت کا سامان کیا تھا۔

اسی امریکہ اور اسکے ایک اور ایجنٹ ملک سعودی عرب کی ہر طرح کی امداد سے تیار ہونے والے النصر برگیڈ نے شام میں سینکڑوں معصوم اور شیر خوار بچوں کے گلے کاٹ کر ان کو ہلاک کیا۔بعد ازاں النصر برگیڈ ”دولت اسلامی“ میں بدل گئی اور اب تک ہزاروں معصوم لوگوں (جن میں بچے اکثریت سے ہیں) کے گلے کاٹ کر اور لائین میں کھڑے کرکے گولیوں سے بھون کر ہلاک کیا ہے۔

دنیابھر میں پھیلی ہوئی مذہبی دھشت گردی کے پیچھے امریکی پالیسیوں ، سی آئی اے اور انکے مقامی ایجنٹوں کا ہاتھ چھپائے نہیں چھپتا۔پاکستان میں ہونے والی اس بدترین دھشت گردی جس میں معصوم پھولوں کو کھلنے سے پہلے ہی مسل دیا گیا ہے ‘ کا پس منظر یہاں کے حکمرانوں کی سامراجی ایجنٹی کا نتیجہ ہے جن کے تحت انہوں نے امریکی مفادات کی تکمیل کرتے ہوئے اپنے ملک کو بارود کاڈھیر بنادیا۔

ایسے مدرسوں کی سرپرستی کی گئی جہاں دھشت گرد بنانے کی فیکٹریاں لگائی گئی ہیں۔ایسی فرقہ ورانہ تنظیمیں جن کو ضیاالحق نے بنایا اور انکی فنڈنگ کی تھی‘ اب غیرملکی ایجنسیوں کے ہاتھوں بک کر فرقہ ورانہ قتل وغارت گری اور دھشت گردی کا کھیل کھیل رہی ہیں۔آرمی پبلک سکول میں بہیمانہ دھشت گردی نے ثابت کردیا ہے کہ سامراج کی گماشتگی کرتے ہوئے غیر ذمہ دارانہ پالیسیاں بنانے کا انجام کتنا ہولناک ہوتا ہے۔

چند ماہ پہلے پاکستانی جیلوں سے ”اچھے طالبان“کی رہائی اور انکو افغان حکام کے حوالے کیا گیا۔اسی طرح بدنام زمانہ دھشت گردوں کو ہیرو بنا کر انکی تشہیر ،جلسے جلوس اور آزادانہ سرگرمیوں کا جاری رہنا ریاستی آشیر باد کو ظاہر کرتا ہے۔ مشہور مثال ہے کہ ”جو بیج کر گندم کی فصل نہیں حاصل نہیں کی جاسکتی“۔اب بھی جو تماشہ دیکھ رہے کہ آگ کسی اور کے گھر میں لگی ہوئی ہے ان کو یادرکھناچاہئے کہ اگر یہ آگ لگی رہی تو پھر کسی کا گھر،کسی کا بچہ ،کسی کا مستقبل ،کوئی سکول ،کوئی حفاظتی قطرے پلانے والا،کوئی ادارہ اور کوئی شخص محفوظ نہیں رہے گا۔

جہالت کے نظریات اور ماضی کی سوچوں کو دلیل سے نہ منواسکنے والوں کے ہاتھوں میں مہلک اسلحہ پکڑانے اور معاشی کمک فراہم کرنے والوں کے گھر اور بچے بھی محفوظ نہیں رہیں۔ پشاور حملہ شائد بہت طاقتور انتباہ ہے،اس سے اگر درست سبق نہ سیکھا گیا تو پھر سیکھنے کے لئے کچھ بھی نہیں بچے گا۔سرمایہ داری نظام ایک ایسے نظریہ کے تحت چلایا جارہا ہے جہاں مذہب اور فرقہ واریت سمیت ہر قسم کی بربریت کو عدم استحکام پیدا کرنے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔

امریکی سامراج کسی سویت یونین کی عدم موجودگی میں اپنے ایک ایسے مدمقابل کو پیدا کرنے اور پروان چڑھانے میں کسی حد تک کامیاب ہوگیا ہے ،جس کی دھشت کے” ہوے “کو استعمال میں لاتے ہوئے امریکی جارحیت کا جواز کہیں بھی پیدا کیا جاسکتا ہے۔سرمایہ داری کس قسم کے سماج کو پروان چڑھا سکتی ہے؟ پاکستان میں جاری دھشت گردی اور ایک زندہ سماج کو خون کے لوتھڑے میں تبدیل کرنے کی پالیسی اس کی واضع مثال ہے۔

بنیاد پرستی اور دھشت گردی کو کسی آپریشن یا ہوائی حملوں سے نہیں روکا جاسکتا۔جتنے حملے شمالی وزیرستان میں ہوئے ہیں اور جتنی کامیابیوں کی داستانیں سنائی گئی ہیں اسکے بعد پشاور کا حملہ سارے فسانوں کی نفی کرنے کے لئے کافی ہے۔دھشت گردی سرمایہ داری کا ایک اوزار ہے خواہ سامراجی طاقتیں خود کریں یا انکے پالتو عفریت کریں۔دھشت کے اوزار کو گوانتا ناموبے ،ابوغریب جیل،عراق کے شہروں اور قصبوں میں امریکی فوج کی بربریت اور اب عراق ،افغانستان اور پاکستان میں انکے چھوڑے ہوئے درندوں کی کاروائیوں سے دھشت پھیلانے کا عمل جاری ہے۔

یہ سرمایہ داری کا ایک حربہ ہے۔اطاعت کے راستے کھولنے کے لئے۔ایک طرف مذہبی دیوانگی کا ڈر پیدا کیا جاتا ہے دوسری طرف اس کاحل کے طور پر امریکی اطاعت کا فارمولہ پیش کیا جاتا ہے ۔حالانکہ مذہبی درندگی اور امریکی سامراج ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ان کی جعلی لڑائی‘ مفادات کے ایک ہونے کی وجہ سے ہمیشہ ”دشمنی “ کے بہروپ میں نہیں رہتی بلکہ جیسے گزشتہ سال شام میں القائدہ اورامریکی ایک ہی پیج پرتھے اور افغانستان میں مدمقابل،اسی طرح بساط پر مہروں کی جگہیں اور رشتے بدلتے رہتے ہیں مگر مقصدایک ہی رہتا ہے۔

سرمایہ داری کے عفریتوں کو سرمایہ داری کے رہتے ہوئے ختم کرنا ناممکن ہے۔ ملکیت کے رشتے اور منافع کا نظام انکو مرنے نہیں دیتا۔عدم استحکام کی ضرورت کس طرح قتل وغارت گری اور دھشت گردی کو ختم کرنے کی جراء ت کرسکتی ہے۔امن،استحکام،ترقی ،روزگار،علم اور صحت کی ضرورت جس طبقے کو ہے‘ اس کو ہی میدان میں آکر اپنے دشمن نظام اور اسکی تمام خرافات اور عفریتوں کو شکست دینا ہوگی ۔اشتراکیت ہی اس منافع بخش دھشت گردی کا راستہ روک سکتی ہے۔منافع اور شرح منافع کے نظام کو ختم کرکے ہی بے گانگی اور سفاکیت پیدا کرنے کے ذرائع کو مٹایا جاسکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :