عدل و انصاف کے تقاضے

پیر 22 دسمبر 2014

Badshah Khan

بادشاہ خان

سانحے پشاور کے بعد حکومت نے کئی فیصلے کئے جو ضروری تھے،آپریشن میں تیزی آچکی ہے،پھانسیوں پر عمل درآمد بھی شروع ہوچکا ہے،کئی مجرموں کوپھانسی پر لٹکا دیا گیا ہے، جو کہ ایک پرامن معاشرے کے لئے ضروری اقدام ہوتا ہے،جس پر پابندی کی کئی کالم نگاروں مخالفت کی تھی، مگر مغربی ممالک کے پریشر پر یہ سزا معطل رہی، ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں ساڑھے آٹھ ہزار قیدی پھانسیوں کے منتظر ہیں،مگر ایسی اطلاعات سامنے آرہی ہیں کہ شائد چند افراد کو لٹکانے کے بعد پھر یہ سزا معطل کردی جائے گئی،عدل کسی بھی معاشرے اور نظام میں بنیادی کردار کی حامل ہوتی ہے اوراسی حوالے حضرت علی کا مشہور قول ہے کہ ؛کفر کی حکومت تو برقرار رہے سکتی ہے مگر ظلم کی نہیں؛ یعنی ظلم کا خاتمہ عدل ہی سے ہوسکتا ہے،ایک کاظلم دوسرے کو زیادتی کا جواز فراہم نہیں کرتااس کی ایک بڑی مثال فتح مکہ کی تاریخ میں موجود ہے،اس لئے عدل وانصاف کے تقاضے پورے کرنا دنیا اور اسلام دونوں کا بنیادی حکم ہے،ریاست کے نظر میں سب برابر ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)


گذشتہ منگل کو پشاور میں سکول پر دہشت گردوں کے حملے کے نتیجے میں 132 بچوں سمیت 141 افراد کی شہادت کے واقعے کے بعد وزیراعظم ہاؤس کی جانب سے موصول ہونے والے تحریری بیان میں بتایا گیا تھا کہ وزیراعظم میاں نواز شریف نے دہشت گردی کے مقدمات میں ملوث مجرموں کی سزائے موت پر عائد پابندی ختم کرنے کی منظوری دی ہے ۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سربراہ زہرہ یوسف نے حکومت پاکستان کی جانب سے موت کی سزا سے اٹھائی جانے والی پابندی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پشاور کے واقعے کے بعد وزیراعظم نواز شریف کا ایک جذباتی ردعمل سامنے آیا ہے ۔

غیر ملکی نجی ریڈیو سے گفتگو کرتے ہوئے زہرہ یوسف کا کہنا تھا کہ میری نظر میں یہ ایک جذباتی ردعمل ہے ، وزیراعظم نے محسوس کیا ہو گا ایکشن لینے کے لیے ، دہشت گردی کے خلاف ملک اس وقت متحد ہے ، ایک واضح کرنے کی بات یہ بھی ہے کہ پاکستان میں سزائے موت پر رسمی نہیں بلکہ غیر رسمی طور پر پابندی عائد تھی۔
انسانی حقوق کے اداروں کی جانب سے سزائے موت اور خاص طور پر دہشت گردی کے اقدامات میں ملوث افراد کو سزا دیے جانے کی مخالفت کیوں کی جاتی ہے ؟ ایچ آر سی پی کی سربراہ اس کی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتی ہیں۔

پاکستان کے عدالتی نظام خصوصاً تفتیشی نظام بہت کمزور رہا ہے اور اس کی وجہ سے دہشت گردی کے مقدمات میں 60 فیصد ایسے مجرم ہیں جنھیں شواہد نہ ہونے کی بنا پر عدالتیں بری کر دیتی ہیں۔زہرہ یوسف کے بقول جب تحقیقات کمزور ہوتی ہیں تو اس میں بہت گنجائش ہوتی ہے کہ اس میں موت کی سزا کسی معصوم کو بھی ہو سکتی ہے اور پھانسی کی سزا دوبارہ بحال ہو رہی ہے تو کسی معصوم کو بھی موت کی سزا ہو سکتی ہے ۔


خود اس بات کا اعتراف وزیراعظم نواز شریف نے پشاور میں منعقد ہونے والی کل جماعتی کانفرنس سے خطاب میں کیا ؛کہ دہشت گردی کے مقدمات کا فیصلہ کرنے والی عدالتیں بھی عدم تحفظ کا شکار ہیں، اور مقدمات سالہاسال تک چلتے رہتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ پولیس کی تفتیش کی کمزوریاں الگ ہیں۔
اسی طرح چند افراد یا ایک گروہ کی بربریت و سفاکیت کے ردعمل میں پوری قوم،قبیلے کو یا مذہبی مسلک کو نشانہ بنانا ،ان کے عام افراد کے لئے مصائب میں اضافہ کرنا درست نہیں ہے،جذبات کے اس ماحول میں ریاست کا فرض بنتا ہے کہ وہ ہر قدم احتیاط سے اٹھائے اور عدل وانصاف کے تقاضے پوری کرے۔

اس نازک گھڑی میں سانحہ پشاور کے بدترین قومی واقعے سے ہر آنکھ اشک بار ہے،قومی سوگ کا منظر ہے ،پورے ملک میں احتجاج اور مظاہرے ہورہے ہیں،لوگ ،سول سوسائٹی اپنے جذبات کا اظہار کرہی ہے،جو اچھا ہے،جاری رہنا چاہیے،اس سے قومی یکجہتی کی فضا بن گئی ہے،فیڈریل یونین آف جرنلسٹس کے صدر ادریس بختیار نے کراچی پریس کلب میں تعزیتی ریفرنس سے اپنے خطاب میں رو پڑے مگر اپنے خطاب میں ایک بہت اہم جملہ کہہ گئے انھوں نے کہا کہ اس قومی اتحاد کی فضا کو قائم رکھا جائے اور حکومت جذبات پر قابو رکھتے ہوئے احتیاط سے آپریشن کرے اور بے گناہ افراد کو نا ماراجائے اور نہ ہی بے گناہ افراد کو مصائب میں مبتلا کیا جائے۔


اس کی ایک وجہ شائد انھوں نے بھی ہماری طرح میں محسوس کی ہو ،اس وقت ایک طبقہ حسب روایت اپنے آقاوں کے مفادات کی تکمیل کے لئے محب وطن مذہبی حلقوں کے خلاف بہت زیادہ پروپیگنڈہ شروع کرچکا ہے تاکہ ملک کو سیکولر کرنے کی راہ میں کوئی روکاٹ باقی نہ رہے،کل تک یہی طبقہ شیخ رشید کے تقریر ،مارو،مرجاؤ،جلاؤ کو تشدد پر اکسانے کو غلط کہنے والے آج کہہ رہے ہیں مار دو،ختم کردو، چوکوں پر لٹکا دو مجرم اور غیر مجرم میں فرق نہ کرو ان کے حامیوں کوبھی مار دو،یعنی چند افراد کی بربریت و سفاکی کی آڑ میں دیندار طبقے کو کچل دو۔


ان چند افراد کو نہ ہی ملک سے محبت ہے؟ نہ ہی پشاور کے سانحے سے متاثرین سے ہمدردی،یہ طبقہ شروع دن سے اپنے مغربی آقاؤں کے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے سرگرم ہے۔
پشاور کے واقعے کی سب سے زیادہ مذمت علماء دیوبند نے کی اور کررہے ہیں،دیگر بھی کرہے ہیں،داعش کے پروپیگنڈے کے حوالے سے پورا کالم لکھ چکا ہوں کہ پاکستان میں داعش موجود نہیں بلکہ بنانے کے لئے کے عوامل ، راہیں اور سازشیں کی جاری ہیں،
رہی بات پھانسیوں کی تو اس میں بھی یکساں طریقہ کار اپنانا ہوگا ورنہ اس سے بھی ایک غلط فہمی کا پیغام جائے گا ،اس طرح کے مقدمات سینکڑوں ہیں، سینکڑوں پر اگر عمل درآمد ہوجائے تو دوسرں کے لیے یہ عبرت بن جائے گا۔

ملک میں جاری دہشت گردی کے کئی عوامل ہیں
کراچی میں جاری دہشت گردی کے پس منظر میں کون ہے،بلوچستان میں کون ملوث ہے سب کے لئے یکساں فیصلے ملک میں امن قائم کرنے کی جانب پہلا قدم بن سکتی ہے اور یہی عدل و انصاف کا تقاضہ ہے ،اللہ پاکستان کی حفاظت کرے اور سانحہ پشاور کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :