میاں صاحب ڈٹ خدا کیلئے ڈٹ جائیں

پیر 22 دسمبر 2014

Qasim Ali

قاسم علی

ارض وطن پر نہ ختم ہونے والی قیامتوں کا سلسلہ جاری ہے اس سلسلے کی تازہ ترین اور سیاہ ترین واردات 16دسمبر کو ایک ایسے وقت میں ہوئی جب قوم 43برس قبل کے سقوطِ ڈھاکہ پر نوحہ کناں تھی ۔اس انسانیت سوز واقعے کے بعد بھی اگرچہ حکومت کی جانب سے سوگ کا اعلان کیا گیا ،دہشتگردوں کے خلاف گھیرا تنگ کرنے اور بے رحمی سے ان کو چن چن کر مارنے کے بیانات بھی فوجی و سیاسی قیادت کی جانب سے منظر عام پر آئے ،عمران خان کی جانب سے دھرنے کے خاتمے کے اعلان کو بھی یوں بنا کرسامنے لایا گیا جیسے یہی ملک کی سب سے بڑی خبر ہوحالاں کہ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر عمران خان اب بھی اگر دھرنے کے خاتمے کا فیصلہ نہ کرتے تو یہ ان کی سیاسی موت ہوتی لیکن بہرحال یہ ان کی جانب سے ایک اچھا فیصلہ ہے جس کو بہرحال سراہا جانا چاہئے ۔

(جاری ہے)

اسلامی ممالک کی نمائندہ تنظیم او آئی سی نے بھی پشاور حادثے پر اجلاس بلانے کا اعلان کیا ہے مگر اس خونی اور دلسوز واردات کے بعد جس فیصلے نے حقیقی طور پر عوام کو کسی حد تک امید دی ہے کہ اس پر عملدرآمد سے دہشتگردی پر بہت حد تک قابو پایا جاسکتا ہے وہ ہے حکومت کی جانب سے سزائے موت کے خاتمے کا فیصلہ۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ میاں نوازشریف کی جانب سے ایٹمی دھماکوں کے بعد سب سے بڑا اور اہم فیصلہ ہے جو انہوں نے نہائت ہی بروقت کیا ہے اور اگر نوازحکومت اسلام بیزارفلاسفروں، نام نہاد این جی اوزاور یورپی یونین وغیرہ کے دباوٴ میں آئے بغیر جیلوں میں بند ان ساڑھے آٹھ ہزار پھانسی کی سزاپانے والوں کو بیچ چوراہے لٹکادیتی ہے تویہ قوم پر ان کا ایک بہت بڑا احسان ہوگا کیوں کہ جرائم کا خاتمہ اورامن کا قیام صرف اور صرف اسلامی سزاوٴں کے رائج ہونے میں ہی مضمر ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ جن ممالک میں ان سزاوٴں پر سختی سے عمدرآمد کیا جاتاہے ان ممالک میں دہشتگردی کے واقعات نہ ہونے کے برابر ہیں سعودی عرب اور ایران اس کی بہترین مثال ہیں اس کے علاوہ سنگاپور میں امن و سکون کی وجہ وہاں پر سزائے موت کا رائج ہونا ہے ۔

یہ اطلاعات بھی زیرِ گردش ہیں کہ حکومت سزائے موت کو اسلامی طریقہ کے مطابق لاگو کرنے یعنی سرقلم کرنے اور اس وڈیو کو میڈیا پر لانے کا بھی سوچ رہی ہے جو کہ ایک قابل تحسین اقدام ہوگا ۔اگرچہ حکومت کے اس فیصلہ کے بعد پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کیلئے مغربی و یورپی ایجنڈے پر گامزن انسانی حقوق کی بعض نام نہاد این جی اوز نے حسبِ روائت ایک بار پھر چیخ و پکار شروع کردی ہے مگر سیاسی وفوجی قیادت بھی اس حقیقت سے پوری طرح واقف ہے کہ اگر اس قدر بڑے سانحے کے بعد اور ایک ایسے وقت میں جب پوری قوم حکومت کے اس جرأتمندانہ فیصلے کی حمائت کررہی ہے اگر اب ان مٹھی بھر شرپسند عناصر اور کسی بیرونی مداخلت پر
اس فیصلے کو عملی طور پر لاگو کرنے میں پس و پیش سے کام لیاگیا یا پھر سے پھانسیوں کو روکا گیا تو پھر عوام کو یہ سمجھنے میں ذرا بھی تردد نہیں ہوگا کہ حکومت خود ان دہشتگردوں سے خوفزدہ ہے یا پھر ان کی پشت پناہی کررہی ہے کہ مقتول کے مقابلے میں قاتل سے رعائت بھی ظلم اور ظالم کی حمائت کے مترادف ہوتا ہے۔

گزشتہ تیرہ برسوں میں ہم نے اپنے بچوں اور بڑوں کے جتنے لاشے دیکھے ہیں اور آج ہمیں پشاور کا عظیم اورالمناک حادثہ دیکھنے کو ملا ہے ان میں بڑا ہاتھ پھانسی کی سزاپر عملدرآمد کا نہ ہونا تو ہے ہی ساتھ ہی اس قیامت خیزی کا ایک بڑا سبب سابق صدر پرویزمشرف کی جانب محض اپنے اقتدار کو غیرملکی ایما پر طول دینے کیلئے ان کی فرمائش پوری کرتے ہوئے بلیک واٹر جیسی بدنام زمانہ ایجنسی کے غنڈوں کو بغیر ویزہ پاکستان میں داخلے کی جازت دینا بھی تھی جس کے بعد پاکستان کے تمام دشمنوں نے پاکستان کے خلاف پاکستان میں ہی اپنے نیٹ ورک بنائے اور یہاں بیٹھ کر ہی دہشتگردی کی گھناوٴنی وارداتوں کا آغاز کیااورآج ہمیں یہ دن دیکھناپڑا ۔

رہی سہی کسر اکبربگٹی کے قتل اور جامعہ حفصہ کی معصوم بچیوں کے خلاف آپریشن سائیلینس نے پوری کردی ان دو بلنڈرز نے پورے ملک میں آگ لگادی مگر ان نام نہاد این جی اوز اور انسانی حقوق کے چیمپیئن ہونے کے دعویداروں کو یہ سب کچھ نظرنہیں آیا آج ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اگر ان لوگوں کے نزدیک واقعی انسانی جانوں کی کوئی قدروقیمت ہے تو پھر یہ حکومت کی جانب سے پھانسی کی سزائیں بحال کئے جانے پر نہ اسے خراجِ تحسین پیش کرتیں بلکہ قاتل پرویزمشرف کو بھی کٹہرے میں لانے کیلئے احتجاج کیاجاتا مگر ان کی منافقت کا یہ عالم ہے کہ یہ لوگ مولانا عبدالعزیز کے ایک بیان کو بلاوجہ جوابناکر ناسلامی سزاوٴں کوتو ہدف تنقید بنائے ہوئے ہیں مگر پرویزمشرف کے مظالم پر ان کی زبانیں گنگ ہیں جس کی اسلام دشمن پالیسیوں اور مغرب کی کاسہ لیسیوں کی سزا پوری قوم بھگت رہی ہے۔

حالاں کہ مولانا عبدالعزیزیز نے صرف یہ کہاہے کہ وہ اس واقعے کو انتہائی المناک سمجھتے ہیں مگر اس واقعے کی مذمت کرنے والوں کو جامعہ حفصہ آپریشن کی بھی تو مذمت کرنی چاہئے۔جو کہ درست اور متوازن بات ہے لیکن اگر ایسا کیاجاتا تو مسئلہ ہی ختم ہوجاتا مگر اس طرح ان مغرب کی ایجنٹ ای جی اوزاپنا حق نمک کس طرح اداکرپاتیں جن کو صرف بنایاہی اسی لئے گیا ہے پاکستان میں عدم استحکام، فرقہ واریت اور تشدد کو فروغ دیا جائے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پھانسی کی سزا کو کسی صورت لاگو نہ ہونے دیاجائے تاکہ یہ دہشتگرد بلاکسی خوف وخطر کے پاکستان میں تباہی و بربادی پھیلانے کے منصوبے پر گامزن رہیں ۔

ایک لسانی جماعت کے سربراہ نے تو جامعہ حفصہ کو آگ لگانے کابیان دے کراخیر ہی کردی اس طرح کے بیانات کا مقصد پورے ملک میں آگ لگانے اور ملک میں دہشتگردی کے ناسور کے خاتمے کیلئے ہموار ہوجانے والی فضا کو سبوتاژکرنا اور پھانسی کورکوانا ہے۔بہرحال جو بھی ہوپاکستان کے پاس اس وقت دہشتگردی اور ایک عشرے سے جاری بدترین بدامنی کی صورتحال سے نکلنے کا بہترین موقع ہے کہ حکومت جیلوں میں قید سزائے موت کے قیدیوں کو فوری طور پر پھانسیاں لگانے کا عمل شروع کردے اور اس کو بغیر کسی دباوٴ کے اس وقت جاری رکھے جب تک ایک بھی ایسا قیدی جیلوں میں باقی ہے انشاللہ پاکستان امن کا گہوارہ بن جائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :