سندھ حکومت کی کارکردگی کا سال ،جماعتوں کا زبانی جمع خرچ

بدھ 31 دسمبر 2014

Badshah Khan

بادشاہ خان

یہ سال بھی سندھ کی دوبڑی حکمران جماعتوں کے سابقہ روایت کی طرح ایک دوسرے پر تنقید کرتے گذرا ، عوام پریشانی سے دوچار رہے سانحہ تھر جس میں سینکڑوں بچے حکومتی نااہلی کی وجہ سے قحط اور بھوک سے لقمہ اجل بنے،خبروں میں رہا، ٹارگٹ کلنگ ، بھتہ مافیا،بے روزگاری کراچی آپریشن سمیت کئی اہم مسائل واقعات جاری رہے ،سانحہ بلدیہ کے بعد سانحہ ٹمبر مارکیٹ کے تازہ واقعے نے حکومتی کاکردگی کی قلعی کھول دی ہے ، سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر الزامات لگانے میں مصروف ہیں، جب کہ کسی کو سندھ حکومت کے خلاف سازش کی بو محسوس ہورہی ہے تو کوئی آپریشن کا رونا رو رہا ہے ،جبکہ عوام سہولیات کی فراہمی کی نہ ہونے کی وجہ سے نت نئے مسائل سے دوچار ہے۔


دسمبر کا مہینہ ختم ہونے کو ہے نئے سال کی آمد کے موقع پر وفاقی حکومت کی طرح سندھ حکومت کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے ۔

(جاری ہے)

2014 کے آخری دنوں ٹمبر مارکیٹ میں ہونے والی آتشزدگی نے حکومتی اداروں کی کرکاردگی اور آپس میں رابطوں کے فقدان کی قلعی کھول دی،آگ کی شدت میں اضافے کی وجہ حکومتی اداروں کی نااہلی کی سامنے آئی ،ایک اندازے کے مطابق چار سو سے زائد دکانیں اور گودام جل کر خاکستر ہوگئے جبکہ گھر و فلیٹ الگ ہیں ،جبکہ مالی نقصان کا تخمینہ اندازہ چار سو کروڑ کے لگ بھگ سامنے آرہا ہے ،پرانا حاجی کیمپ کے ٹمبر مارکیٹ میں لگنے والی آگ کی شدت شروع میں کم تھی اور فائر بریگیڈ کو بر وقت اطلاع دی گئی ،اور آدھے کلومیٹر پر موجود فائر بریگیڈ کا عملہ بروقت نہ پہنچ سکے اور جو پہنچے تو پتہ چلا کہ نہ تو ان گاڑیوں میں پانی تھا اور نہ ہی ڈیزل موجود تھا اس کا اعتراف خود چیف فائر آفیسر کراچی نے کیا،چیف فائر آفسیر احتشام الدین کا کہنا ہے کہ یہ کہنا غلط ہے کہ فائر ٹئنڈر دیر سے پہنچے تھے ، فائر بریگیڈ کی گاڑیاں موقع پر موجود تھیں اور آگ بجھانے میں مصروف تھیں لیکن آگ اتنے بڑے پیمانے پر لگی کہ ہماری گاڑیاں نہ ہونے کے برابر محسوس ہو رہی تھیں۔


سومرو گلی میں لکڑی کے گودام میں گزشتہ رات 11 بجے کے قریب لگنے والی آگ نے دیکھتے ہی دیکھتے پوری ٹمبر مارکیٹ اور قریبی عمارتوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ فائربریگیڈ حکام نے گودام میں لگنے والی آگ کو تیسرے درجے کی قرار دیکرشہر بھر سے فائر ٹینڈرز کو طلب کئے اور پوری رات آگ بجھانے میں مصروف رہے ۔ دوسری جانب آگ سے متاثرہ افراد کا کہنا ہے کہ فائر ٹینڈر کی نا اہلی کی وجہ سے پیش آیا، اگر فائر ٹینڈرز بروقت کارروائی کرتے تو اتنا زیادہ تقصان نہ ہوتا، گھنٹوں سے لگی آگ کے باعث کروڑوں کی لکڑی اور دیگر سامان جل کر راکھ ہو گیا جب کہ آگ کی شدت نے قریبی عمارتوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔


اس واقعے پرحکومت سمیت تمام جماعتوں نے بیانات جاری کئے ،تحقیقات اور کمیٹیوں کے اعلانات سامنے آئے، ایم کیو ایم نے پریس کانفرنس کی ، ایم کیوایم رابطہ کمیٹی کے انچارج قمرمنصور نے کہا کہ حکومت سندھ نے سوائے زبانی دعوؤں کے کچھ نہیں کیا، کراچی جو ملک کا معاشی حب ہے اور سابق بلدیاتی حکومت میں اس کا بجٹ 48 ارب روپے تھا جو کم کرکے 6 ارب روپے کردیا گیا، کراچی سے تمام ادارے فائدہ اٹھارہے ہیں لیکن جب اسے ضرورت پڑتی ہے تو کوئی بھی اس کی مدد نہیں کرتا۔

، گزشتہ 4 سال میں ترقیاتی کاموں کی حالت ابتر اور فائربریگیڈ کی حالت خراب ہوئی، صوبائی بجٹ کی خطیر رقم عوام کی سہولیات پر خرچ کرنے کے بجائے وزرا، مشیروں اور حکومتی ارکان کی عیاشیوں پر خرچ کی جارہی ہے ، پیپلز پارٹی کی جانب سے صرف کراچی کے ان علاقوں کے عوام کے ساتھ ہی سوتیلا سلوک نہیں کیا جارہا ۔ اتنے بڑے واقعے پر حکومت کا کوئی نمائندہ سامنے نہیں آیا، حکومتی وزیر، مشیر اور افسران نیند کی گولیاں کھا کر سوتے رہے اور اب صوبائی حکومت نے ایک کمیٹی بنانے کا اعلان کیا ہے ، کمیٹیاں بننے کی روایت کو ختم کرنا ہوگا، ایم کیوایم ان کے نقصانات کے ازالے کے لئے ہر سطح پر آواز بلند کرے گی۔


جبکہ دوسری جانب پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور پارٹی کو یقین ہے کہ سابق فوجی صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کچھ عناصر کے ساتھ مل کر سندھ حکومت کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔بیان میں سیاسی جماعتوں سے بھی کہا گیا ہے کہ وہ چند عناصر کی جانب سے سندھ حکومت کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوششوں کا نوٹس لیں۔سندھ میں حکمراں جماعت پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے بیان میں مزید کہا کہ پیپلزپارٹی ایک متحد سیاسی قوت ہے اور جو ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے موجودہ صوبائی حکومت کو گرانا چاہتے ہیں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوں گے ۔

دودن پہلے بھی کو ملک کی سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کی برسی کے موقعے پر ایک تقریر میں سابق صدر آصف علی زردای نے کہاتھا کہ وہ اپنے خلاف ہونے والی سازشوں سے باخبر ہے ۔ میں سونگھ رہا ہوں کہ بِلّا اپنے گھر میں بیٹھا ہوا سازشیں کر رہا ہے ۔سابق صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کی جانب اشارہ کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین کا کہنا تھا کہ ایک طرف وہ ضمانت پر ہیں، دوسری جانب فوج ان کے ساتھ ہے اور تیسری جانب وہ سیاست بھی کر رہے ہیں۔


جبکہ عوامی نیشنل پارٹی ،مسلم لیگ (ف) پاکستان تحریک انصاف سمیت دیگر پارٹیاں بھی اس سال سندھ حکومت سے گلے شکوے کرتے نظر آئے جس کی وجہ عوام میں مایوسی بڑھتی جارہی ہے اور ایک بار پھر سندھ میں فوج کے ذریعے آپریشن کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے ،بھتے سے پریشان تاجر خلیجی ممالک سمیت افریقہ کا رخ کرہے ہیں ،کراچی جو کہ کاروباری حب ہے اب سیکورٹی سے محروم ہونے کی وجہ کئی مسائل سے دوچار ہے سوال یہ ہے کہ کیا 2015میں شہر کراچی میں تبدیلی کا سال ثابت ہوگا یا پھر دو دہائی سے جاری دہشت گردی جاری رہے گی کراچی کی عوام بیک وقت سندھ حکومت اور وفاق کو دیکھ رہی ہے،پرچی مافیا ،صحت ،تعلیم سمیت کئی شعبے تباہی کے دہانے پر ہیں ،کیا پیپلز پارٹی صرف وقت گذاری گئی یا پھر تبدیلی لائے گئی ؟فی الحال تو کمیٹیاں اور بیانات کا شور ہے،جس میں تاجر ،عوام کی آواز دب گئی ہے، عام آدمی صرف دیکھ رہا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :