رقص ابلیس

جمعرات 22 جنوری 2015

Mian Muhammad Nadeem

میاں محمد ندیم

وہ ایک منظرہی تو تھا جس کو دیکھتے سارے گزرگئے مگر میں وہیں رہ گیا ‘کئی راتوں کے لیے ‘افلاس ایک ایسا مرض ہے چمٹ جائے تو چھوڑتا ہی نہیں ‘گورکی دیواروں تک پیچھا کرتا ہے ‘افلاس انسان کوکفرتک لے جاتا ہے ‘سسکتی زندگی کے نوحے کیا ہوتے ہیں کسی مفلس کے آنگن میں جاکے دیکھ ‘ہردن جی کے مرنا ہو تو غربت کے دلدل میں اترکے دیکھ‘وہ ایک منظرہی تھا جس نے جھنجھوڑکررکھ دیا ‘روح بیقرارہے ‘کیا ہم واقعی ہی اسی دین کے ماننے والے ہیں مساوات جس کی تعلیمات کا جزلازم ہے‘تو پھر یہ تفریق کیوں؟کئی امراء سے سنا کہ تفریق ہم نے نہیں خدا نے پیدا کی ہے ‘جھوٹے مکارہیں ‘تفریق تم نے پیدا کی ‘اس نے تو مساوات کا درس دیا وہ منظراس شہر کی ایک ایسی بستی کا تھا جس کے باسی ایک ہزاروں روپے کافی پینے پر لٹادیتے ہیں ‘پیرانہ سالی میں وہ اجلے سفید لباس میں وہ بزرگ کوڑے کے اک ڈھیرسے اپنا ”رزق تلاش “کررہا تھا ‘کئی راتیں بیت گئیں وہ منظرسونے نہیں دیتا ‘بے حسی سی بے حسی اور حاکم وقت ہیں کہ انہیں اپنے دھندوں سے فرصت نہیں ‘کل تک جسے خدمت کہتے تھے اب وہ کاروبار ٹہرا کہ چہرے بے نقاب ہوچکے ‘دلکش نقابوں کے پیچھے چھپے مکروہ اور بدصورت چہرے‘لاکھوں نہیں کروڑوں بے کسی اور لاچاری کی زندگی بسرکرنے پر مجبورہیں ‘کوئی بندوق پکڑکر بدلہ لینے پر اترآتا ہے تو کوئی اپنے ہی ہاتھوں اپنے جگرگوشوں کو زہردے کر موت کو گلے لگا لیتا ہے ‘میرے دیس کے شاہی مفتیان کرام کوئی ایسا فتوی دے دو کہ خودسوزی حلال ہوجائے کہ اب زندگی کا بوجھ سہا نہیں جاتاان لاچاروں سے ‘اے منصفوں تم ہی کوئی حکم جاری کرو‘اے اہل دانش کوئی تدبیرکرو‘اے خانقاہوں میں بیٹھے چارہ گروتم ہی کوئی چارہ کرو ‘کوئی تو آوازاٹھاؤ کہ مردوں کے دیس میں کوئی زندہ بچا بھی ہے کہ نہیں ‘میرے شہرمیں اب نوحہ گر بھی نہ رہے کہ احساس دلاتے‘اب کوئی ساغر‘کوئی جالب کوئی منیربھی تو نہیں رہا‘اسے مفلسی کے دردکا احساس ہوہی نہیں سکتا جو آگ کے دریا سے گزرا نہ ہو جس کی روح تک نہ جھلسی ہو ‘بڑے ہوٹلوں میں بیٹھ کر غربت کی بات کرتے ہیں منافق اور پھر کروڑوں کی گاڑیوں میں بیٹھ کر اربوں کے بنگلوں میں چلے جاتے ہیں ‘مفلسی کا شکار بچوں کے حق کی بات کرنے والوں کے کتوں کی خوراک تک درآمدہوتی ہے ‘بچوں کی مشقت پر چیخ وپکار کرنے والی بیگمات کے گھروں میں غلاموں سے بدترزندگی گزارتے ہیں نوعمرملازم بچے‘دکھاوے کے لیے مسجدیں بنوانے ‘سا ل کے سال عمرے اور حج کرنے والے سیٹھ اپنے ورکروں کو ان کا حق دینے میں جس بے ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ شرمناک ہے لاکھوں رروپے روزکماکے دینے والے ورکرکو مہینے دس ہزاردیکر بھی احسان کیا جاتا ہے‘ان کو لوگوں کا ڈرنہ ہو تو یہ خود کو ”خدا“تک بنالیں مگر بے بس ہیں ‘فرعون خدائی کا دعویدار ہوا تو ابلیس پہنچ گیا کہ خدا بننے کے لیے نبی کا ہونا بھی لازم ہے تو فرعون کو پریشانی لاحق ہوئی ابلیس بولا پریشان کیوں ہوتے ہو تم خدا ہوئے تو میں تیرا نبی ‘باغ میں سیرکرتے ابلیس نے ایک انار توڑکر فرعون کو پیش کیا اور کہا کہ واپس درخت پر لگا تو فرعون لگا برا بھلا کہنے ابلیس کو کہ کیسے ممکن ہے انار کو درخت پر واپس لگادیا جائے ‘ابلیس نے ہاتھ بڑھایا اور انار کو اس کی جگہ واپس لگادیا اور بولا اتنی طاقت رکھنے کے باجود آج تک خدائی کا دعوی کرنے کی جرات نہیں ہوئی ‘آج کا ”سیٹھ“تو ابلیس سے بھی بدترہے کہ اسے حیاء ہے رب سے مگر اسے تو حیا بھی نہیں ‘موسی علیہ اسلام کو طور پر حکم ہوا کہ جا جو روندے درگاہ ہوا اس سے مل جب موسی علیہ اسلام پہنچے تو لگا چہرہ پیٹنے کہ میں معلون اور مقبول آپ کا یہاں کیا کام تو موسی علیہ سلام نے فرمایا زیادہ مکر وفریب نہ کر جس نے تجھے روندے درگاہ کیا اسی کے حکم پہ آیا ہوں حکم سرکاری ہے تو ابلیس نے آنے کا مقصدمعلوم کیا موسی علیہ سلام نے کہا تم نے فرشتوں کو تعلیم کیا معلم رہے ملائکہ کے ‘علم وفضل میں بلند مرتبہ رہے سو تعلیم ہونے آیا ہوں ‘ابلیس پلٹا اور گویا ہوا موسی” میں“ نہ کہنا کہیں تمہاری”میں“تمہیں میری طرح نہ کردے اب جاؤ یہی تمہاری تعلیم ہے ‘یہاں ہرکوئی میں میں کرتا پھرتا ہے ‘اکڑتا ایسے ہے کہ زمین کو ہی پھاڑڈالے گا ‘غرور‘تکبر کا یہ عالم کہ کسی مفلس کو انسان سمجھنے کو تیار نہیں مگر بھول میں ہے کہ جب فناء کے بے رحم ہاتھ دبوچتے ہیں تو پرتکبر سرخاک میں ملادیئے جاتے ہیں کوئی نام لینے والا نہیں بچتا جب حی القیوم کی ذات جلال میں آتی ہے تو ریت کی ذروں کی طرح سب کو اڑا لے جاتی ہے کس کی مجال ہے جو اس کے معاملے میں پربھی مارسکے‘وہ ازل سے ہے وہ ابدتک ہے‘میرے مفلس رفیق افلاس سے نہ گھبرا اور آزمائش کو مصیبت کہہ کرخود کو مشکل میں نہ ڈال کہ آزمائش ہمیشہ اپنوں کی کی جاتی ہے اس جہان فانی کے افلاس کو خاطرمیں نہ لا ابدی حیات کے اس سرور کے تصورسے مسرورہو جس کو فنا نہیں ‘ان کا انجام آیا ہی چاہتا ہے جو خطاوار ہیں جنہوں نے مخلوق کو غلام بنایا کہ عمرفاروق جن کے نام سے قیصروکسری کی سلطنتیں کانپتی تھی نے ارشاد فرمایا”کہ تم نے ان کو کب سے غلام بنالیا جب کہ ان ماؤں نے انہیں آزادجنا “نوح انسانی نوحہ گر ہے ‘خدا کی اس زمین پر رقص ابلیس جاری ہے پوری دنیا کی صرف ساڑھے پانچ فیصددولت دنیا کے نوے فیصد کے قریب انسان نما مخلوق کے پاس ہے جبکہ ایک فیصد کی اقلیت پوری نسل انسان کو معاشی طور پر غلام بنائے ہوئے ہے یہ اعدادوشمار میرے نہیں بلکہ مغربی اداروں کے ہیں آکسفیم نامی ادارے نے خبردار کیا کہ آنے والے سال میں دنیا کی نناوے فیصد دولت ایک فیصد اقلیت کے پاس چلی جائے گی ادارے کی تحقیق کے مطابق دوہزارنو سے ان امراء کی دولت میں فی کس اوسط اضافہ ستائیس لاکھ ڈالر سالانہ ہے‘ دنیا کے معاشی نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ یہ تمام انسانیت کے مفادات کے لیے کام کر سکے اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو دنیا کو ایک بڑی خونریزی کے لیے تیار رہنا چاہیے کہ جب غربت اور افلاس کا شکار یہ فاقہ کش اس شخص کو بھی قابل گردن زنی ٹہرائیں گے جس کا لباس صاف ہوگا‘کیا تمہیں یاد نہیں فرانس کے فاقہ مست کہ گردن مارنے سے پہلے ہاتھ دیکھے جاتے تھے اور نرم ہاتھ ہی ثبوت کے لیے کافی تھا‘سالوں سے جگانے کی کوشش کررہے ہیں سمجھانے کی بے سود کوششیں کہ یہ ایک فیصد اقلیت ایک خاندان کی مانند ہے جس کا کوئی دین‘مذہب‘رنگ‘نسل ‘زبان یا وطن نہیں یہ ایک خاندان ہے ابلیس کے ان چیلوں کا دین پیسہ ‘جس کا ایمان پیسہ ہے‘بے پناہ دولت غربت سے خاتمے کی کوششوں کو نقصان پہنچاتی ہے‘دنیا کی آبادی کے محض ایک فیصد نے گزشتہ بیس سال کے دوران اپنی آمدن میں ساٹھ فیصد تک اضافہ کیا‘ دنیا کے سو امیر ترین افراد گزشتہ سال دو سو چالیس ارب ڈالر کی خالص آمدن سے لطف اندوز ہوئے جبکہ دنیا میں انتہائی غریب افراد نے ایک اعشاریہ دو پانچ ڈالر روزانہ میں گزر بسر کیا’ اب ہم زیادہ دیر تک یہ دکھاوا نہیں کر سکتے کہ چند ایک کے لیے دولت پیدا کرنے سے لامحالہ بہت ساروں کو فائدہ پہنچتا ہے ، بہت زیادہ اس کا الٹ ہونا سچ ہے‘سرفہرست ایک فیصد کے ہاتھ میں وسائل جمع ہونے سے معاشی سرگرمیوں کو نقصان پہنچتا ہے اور ہر کسی کی زندگی مشکل ہو جاتی ہے اور اس میں معاشی سیڑھی کے آخری پائیدان پر کھڑے افراد سب سے زیادہ مشکل سے دوچار ہوتے ہیں‘ کئی دہائیوں سے بڑھتی ہوئی غیر مساوری تقسیم کو واپس کرنے کے لیے ایک عالمی سمجھوتہ کیا جانا لازم ہوگیا ہے اگر ہم بڑی تباہی سے بچنا چاہتے ہیں تو‘ دنیا میں ٹیکس کی محفوظ پناہ گاہوں کو ختم کیا جائے، اس کے علاوہ ٹیکس عائد کرنے کے رجعت پسندانہ رویے کو ختم کیا جائے‘اب بھی وقت ہے‘نظام میں اصلاحات کی جائیں تاکہ یہ صرف عالمی اشرافیہ کے لیے نہیں بلکہ تمام انسانیت کے مفادات کے لیے کام کرے اور اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو یاد رکھنا چاہیے کہ بارود کے فیتے کو آگ لگ چکی ہے ‘انسانیت دشمن سرمایہ درانہ نظام کے خاشیہ برداروں کی سازشوں کے برعکس اب انسان نفرتیں ختم کرکے ایک دوسرے کے قریب آنا چاہتے ہیں ‘جنگیں‘مذہب وملت کے نام پر نفرتیں اور تقسیم یہ اسی ایک فیصد اقلیت کی کارستانیاں ہیں کہ نوح انسانی ان میں الجھی رہے اور ہم اسی طرح لوٹتے رہیں‘عالمی لٹیروں کے نعرے الگ الگ ہوسکتے ہیں مگر مقصد ایک ہے ‘پوری دنیا میں کٹھ پتلی حکمران لائے جاتے ہیں تاکہ وہ ان معاشی درندوں کے مفادات کا تحفظ کریں اور اب یہ بے رحمی چھوٹے سرمایہ کاروں اور ”سیٹھ مافیا“میں بھی سرایت کرچکی ‘مگر ایک نظام اس خالق کائنات کا بھی ہے جو کہ اک لمحے میں عرش کو فرش تک لانے کی قدرت رکھتا ہے ‘یاد رکھو کہ کوڑا برسنے کے قریب ہے ‘جلد وہ وقت آیا ہی چاہتا ہے جب تمہاری گردن بھی شاہ لوئیس کی طرح کسی کلہاڑے کے نیچے ہوگی اور پھرتمہارا سر ان فاقہ مستوں کے قدموں میں ہوگا ‘تمہاری ساری تدبیریں تم پر ہی الٹا دی جائیں گی ‘پھر تم موت کی بھیک مانگو گے مگر تمہیں موت بھی نہیں ملے گی ‘دین فروش ‘ملت کے سوداگروں کو سرمایہ درانہ نظام کی مخافظ یہ جمہوریت بھی پناہ نہ دے سکے گی کہ اس ”جمہوریت “کے نام پر جو انسانیت سوز جرائم تم نے کیئے ہیں تمہیں ان کا حساب دینا ہے اور وہ یوم حساب آیا ہی چاہتا ہے جب تمہاری نسلوں میں سے بھی کسی کو بخشا نہیں جائے گا کہ سانپ کے بچے بھی سانپ کی ہی فطرت رکھتے ہیں اور رقص ابلیس اب ختم ہونے کو ہے‘دنیا کے فاقہ کشوں کی آنکھوں میں انتقام کے انگار دیکھے ہیں مگر تم انہیں دیکھ سکتے ہو نہ محسوس کرسکتے ہو ‘دنیا کے معاشی عفریت اپنی دولت کو بچانے کے لیے پوری نوح انسانی کو تیسری عالمی جنگ کی جانب سے دکھیل رہے ہیں ‘میدان کارزارتو دہائیوں پہلے سجا لیا گیا اب تابوت میں آخری کیل لگنے جارہا ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :