منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

پیر 26 جنوری 2015

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

یہ بات ثابت شدہ ہے کہ جب نظریات نہ رہیں تو پھر واقعات اور شخصی کرداروں کو بڑھا چڑھا کرپیش کیاجاتا ہے۔پیپلزپارٹی کے نظریاتی بحران کوآج کل نیم حکیموں کے تجربات سے دور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پنجاب اور جنوبی پنجاب میں پاکستان پیپلز پارٹی کو انتخابات میں شکست کو محض تنظیمی کمزوری قرار دیا جانا ،یک رخی اور مکینکل سوچ کا نتیجہ ہے۔

ایسا ممکن نہیں ہے کہ آپ مسلسل لوگوں کو دھوکہ دیتے رہیں اور وہ ہمیشہ ہی دھوکوں کا شکار ہوتے رہیں،کبھی نہ کبھی عام لوگ بھی اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ پچھلے دو عام انتخابات میں تو پاکستان پیپلز پارٹی نے پنجاب میں عملاََ الیکشن لڑا ہی نہیں۔چند حلقوں کے علاوہ کہیں سنجیدہ اور انتخاب جیتنے والی مہم ہی نہیں چلائی گئی ،سارا الزام طالبان اور دھشت گردوں پر ڈال کر ”مفاہمت “ کی پالیسی کی آبیاری کی گئی ،جس کے نتیجے میں مسلم لیگ نوازگروپ کو جیتنے کے لئے سازگار میدان مہیا ہوگیا۔

(جاری ہے)

مگر 2013ء کے انتخابات میں جہاں ریاستی سطح پر پیپلز پارٹی کے خلاف کسی بھی پارٹی سے زیادہ دھاندلی کی گئی‘ وہیں 2008-13کی بدترین حکومت،لوٹ مار،مہنگائی،بجلی،گیس کے بحران،بدانتظامی اور عوام دشمنی پر مبنی سامراجی پالیسیوں پر عوامی ردعمل بھی اپنی پوری شدت سے موجود تھا،شائد اسی ردعمل کے خطرے کے باعث پیپلزپارٹی پر قابض قیادت نے انتخابی مہم میں نہ جانے میں عافیت محسوس کی۔

سندھ کے بیشتر حصوں میں وڈیرہ شاہی کے من مرضی اور عمومی طور پر ”کراچی ٹائپ“
انتخابات ہوتے ہیں۔ اس لئے وہاں جام صادق علی، ارباب عبدالرحیم اور غوث شاہ بھی اقتدار پر قابض ہوتے رہے ہیں۔اسی کے ساتھ مقتدر قوتوں نے پی پی پی کو سندھ میں حکومت بنانے کا موقع دیکر مکمل طور پر حزب اختلاف کی سیاست کی طرف دھکیلنے سے شعوری طور پر گریز کیا ،تاکہ اقتدار کے مزے اور فوائد سے پارٹی قیادت پرمفاہمت اور مصالحت کا دباؤ برقرار رہے ۔

قبل ازیں بھی پنجاب میں منظور وٹو اور جنوبی پنجاب میں پہلے مخدوم شہاب الدین کی صدارت کے فیصلے کو پارٹی کی تعمیر نو،ابھار اور کمزور پہلووں کو طاقت ور کرنے کا ذریعہ بیان کیا جاتا رہا ہے۔اگرچہ تنہاتنظیمی بنیادوں پر کبھی بھی کوئی پارٹی مضبوط نہیں ہوسکتی تھی مگر ان فیصلوں سے پارٹی کی طبقاتی ہیئت کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی۔منظور وٹو کی طرح شہاب الدین بھی” سلیپنگ صدارت “سے محظوظ ہوتے رہے ،حتی کہ ایفی ڈرین کیس نے ان کی شخصیت اور عہدے پر تازیانے برسانے شروع کردیے ۔

مگر کرپشن چارجز ”مفاہمت زدہ“ پیپلز پارٹی کے لئے اتنا بڑا مسئلہ کھبی بھی نہیں رہے۔اگر بدعنوانی کے الزمات کی وجہ سے عہدوں سے فراغت کی پالیسی بنائی جائے تو پھر بیشتر پارٹی عہدے خالی ہوجائیں ۔یہاں پر مخدوم احمد محمود کا جنوبی پنجاب کا صدر بنایا جانا ایک طرف پارٹی میں گیلانی۔زرداری گروہ کی پارٹی میں ”پاورگیم“ میں پیش رفت ہے تو دوسری طرف زندگی بھر پیپلز پارٹی پر تبرے برسانے،دھمکیاں دینے اور پیپلز پارٹی کو صفحہ ہستی سے مٹادینے کی آرزو رکھنے والے احمد محمود اور انکی مسلم لیگی سیاسی میراث کی اخلاقی شکست کا کھلا ثبوت ہے۔

جنوبی پنجاب کے صدر کے طور پر نامزد ہونے کے بعد مخدوم احمد محمود نے اپنے روائتی انداز میں بڑے بڑے دعوے کرنا شروع کردئے ہیں جو ان کی شخصیت کا لازمی حصہ ہے۔اپنے گردوپیش کے وڈیروں کی نسبت مخدوم احمد محمود محنتی سیاست دان ہیں جن کو ضلع رحیم یارخاں کی حد تک بلدیاتی سیاست کے داؤ پیچ میں عبور حاصل ہے۔ماضی میں ان کی سیاست ایک کل وقتی سیاسی راہنما کے طور پر معروف تھی۔

مگر یہاں معاملہ ان کے داؤ پیچ اور بلدیاتی سیاست سے بلند ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی کے بحران کا تعلق اقتدار سے محرومی یا فیض یابی،انتخابات جیتنے یا ہارنے کے معاملات سے بھی بالا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے مجموعی بحران کا تعلق، پارٹی کے تاسیسی پروگرام،انقلابی نقطہ نظر اور ترقی پسندانہ خیالات سے انحراف ہے۔ لہذا اس بحران کو کسی جعلی جوش وجذبے،بیان بازی یا پھر تنظیمی سطح پر حل کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ترین ہے۔

اپنی نامزدگی کے فوراََ بعد احمد محمود کا یہ بیان کہ جنوبی پنجاب کی ہر گلی اور محلے سے نعرہ بھٹو کی صدا گونجے گی‘ اس وقت تک بے معنے اور تعبیر سے عاری جملہ ہے‘جب تک بھٹو کے وہ نظریات جنہوں نے ”ڈیڈی ایوب خان “کے لاڈلے اور کنونشن مسلم لیگ کے سیکریٹری جنرل ذیڈ اے بھٹو کو بدل کر ایک عوامی اور انقلابی بھٹو بنا دیا تھا،کو بحال نہ کیا جائے۔

ان نظریات کو ‘جن کی تشکیل اور تشریح پاکستان پیپلز پارٹی کی تاسیسی دستاویزات کے ذریعے ہوئی ،بعد ازاں اسی فلسفے کو ”بھٹوازم“کہا گیا۔پاکستان پیپلز پارٹی بنانے کے مقاصد اور پاکستان کے بارے میں پارٹی کے واضع اور غیر مبہم نظریات ہی وہ جادو تھا جس نے پاکستان پیپلز پارٹی کو یکایک مقبول اور عوامی پارٹی میں بدل دیا تھا۔بکنے والے نجی میڈیا ہاؤسز اورچوبیس گھنٹے چلنے والے الیکٹرانک میڈیا کے بغیر 1967-68میں یہ نظریات عام آدمی تک اس وجہ سے پہنچے اور مقبول ہوئے کیوں کہ اس پروگرام میں عام
آدمی،مزدور،کسان اور اکثریتی محنت کش طبقے کی زندگی بدل دینے والا پیغام تھا۔

سرمایہ داری،جاگیر داری کا خاتمہ اور تمام ذرائع پیداوار کو اشتراکی ملکیت میں لئے جانے کا وعدہ محنت کش طبقے کے دل تک رسائی حاصل کرگیا۔جب امیر اور غریب کے فرق کو ختم کرنے کی بات کی گئی،مخادیم،روسا،امراء،پیروں،گدی نشینوں،جاگیرداروں ،سرداروں کی سماجی اور طبقاتی حیثیت کو ختم کرنے اور دھتکارے ہوئے عام آدمی کو ایک حقیقی انسانی عظمت اور تشخص دینے کا دعوی اور وعدہ کیا گیا تو پھر حکمران طبقے سے صدیوں سے تنگ چلا آنے والا محنت کش طبقہ کیسے سیاست سے غیر جانبدار اور لاتعلق رہ سکتا تھا۔

یہی جادو تھا جو سرچڑھ کربولا اور پھر اسکی بازگشت اگلی دھائیوں پر محیط ہوگئی۔مگر ان وعدوں اور دعووں کی تکمیل میں تاخیر اور بعد ازاں ان سے انحراف اور لاتعلقی کے مظاہر ہی وہ حقیقی اسباب ہیں جن سے پیپلز پارٹی کے بحران کا جن نکلا اور دن بدن بڑھتا اور پھلتا پھولتا جارہا ہے۔ یہ جن اب کسی جاگیر دار،وڈیرے،پیر یا مخدوم کی کرامت سے واپس بوتل میں نہیں جائے گا۔

اس بحران کو قابو کرنے کا نسخہ وہی بنیادی دستاویزات میں درج پروگرام ہے ،اس کے علاوہ تمام حربے اور سطحی طریقے بری طرح ناکامیوں اور شکستوں سے ہمکنارہوں گے۔ ماضی قریب میں سید احمد محمودکوہونے والی پے درپے سیاسی شکستوں کے بعد پیپلز پارٹی کا سہارا ،ان کی اپنی ذات کے لئے خوش نمااور امید افضا بات ہے،انہوں نے اپنی نامزدگی سے پہلے اپنے بیٹے مرتضی محمود کو ڈویژن بہاول پور کا کوارڈینیٹر مقرر کرایا ہے اور اگلے مرحلوں میں وہ” ڈی فنگشنل مسلم لیگ“ کے سابق عہدے داروں اور اپنے ذاتی ملازمین ٹائپ ساتھیوں کو پارٹی کے کلیدی عہدوں پر لے آئیں گے،یہ ساری وہی ٹیم ہے جو ماضی میں پیپلز پارٹی مخالفت میں مغلظات اور غیر اخلاقی حربوں کا سہارا لیا کرتی تھی۔

مگر پیپلز پارٹی کی کشتی میں غداریوں،نظریاتی انحراف اور محنت کش طبقے سے بے وفائی نے جو چھید ڈالا ہے اس سے کشتی کا ڈوبنا ناگزیر ہے ،وہ سوار بھی ڈوب جائے گا جو بھنور سے نکل کر کشتی میں بیٹھ کر خوش ہورہا ہے۔بچت کا راستہ پھر کوئی آسان نہیں ہے۔ اب پیپلزپارٹی کی عمر47سال ہوچکی ہے،چاردھائیوں سے جن نعروں اور وعدوں سے کام چلایا گیا اب وہ ساکھ کھوبیٹھے ہیں۔

پھر ایک عام آدمی جس نے ساری زندگی وڈیروں،مخادیم اور ذرائع پیداوار پر قابض گروہ کے طبقاتی ظلم اور جبر کے خلاف جدوجہد کی ہو ،وہ یہ کیسے تسلیم کرے گا کہ وہی استحصالی اور اسکے طبقے کا دشمن اسکا راہبر وراہنما ہے!! سید احمد محمود سمیت محنت کش طبقے کے مخالف جاگیرداروں،سرمایہ داروں اور استحصالی طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کو پارٹی کے کلیدی عہدوں پر فائض کرنا پارٹی کے مخلص،نظریاتی اور قربانیاں دینے والے کارکنوں کی برسرعام تذلیل اور تحقیر ہے۔

جنوبی پنجاب میں ہزاروں کارکن ایسے ہیں جن کی وابستگیاں پارٹی بننے کے پہلے دن سے آج تک کسی شک وشبہ سے بالا ہیں۔باکردار اورباصلاحیت افراد کی کسی طور پر کمی نہیں ہے۔جنوبی پنجاب کی صدارت کے لئے احمد محمود کسی طور موزوں نہیں تھے،وہ نہ صرف پارٹی کے شدید دشمن رہے ہیں بلکہ وہ اس مذاج ،مٹھاس اور خلوص وقربانی سے معمور جذبوں سے ہی ناآشنا ہیں جو پیپلز پارٹی کے کارکن اور حامی کا طرہ امتیاز ہے۔

اس قسم کی نامزدگی کوڑوں،پھانسیوں،قیدوں اور سزاؤں کے باوجود وفا کا پرچم بلند رکھنے والی پیپلز پارٹی اور جیالوں کے کی زبردست توہین ہے۔اگرچہ ہر دلہے کے گلے میں ہار پہنانے والے پیپلز پارٹی میں بھی فرنٹ سیٹ پر بیٹھے ہیں۔یہ موقع پرستوں کا گروہ ہر آنے والے کا سواگت اور جانے والے کے شکوے کرنے میں کبھی نچلا نہیں بیٹھتا۔مگریہ سیاسی مراثی پیپلز پارٹی کے عام ورکر،حامی اور ووٹر کے نمائندہ نہیں ہیں۔

ان کا مسئلہ ان کی نوکری کا برقرار رہنا ہے۔یہ نعرے باز اور زمین و آسمان کے قلابے ملانے والے ،دھرتی اور اس پر بسنے والے کروڑوں مظلوموں اور بے بسوں کے دشمن اور زمین کا بوجھ ہیں۔پیپلزپارٹی غریبوں،مزدوروں اور کسانوں کی میراث ہے۔دشمن طبقے کا قبضہ ،اک بغاوت اور غصے کو جنم دیگا۔یہ بغاوت اگر چل نکلی تو پھر پیپلز پارٹی اور پاکستان ،دونوں کے مقدر کا فیصلہ ہوجائے گا۔ورنہ موجود سب کچھ خاک میں مل کر قصہ پارینہ بن جائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :