شاید کبھی نہیں !

پیر 26 جنوری 2015

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

12جنوری 2015کو ایک انگریزی روزنامے میں چھپنے والی تصویر کو میں کوشش کے باوجود نہیں بھلا سکا ۔ انسانی زندگی میں بعض حادثات و واقعات ایسے ہوتے ہیں کہ ہم کوشش کے باوجود انہیں بھلا نہیں سکتے ۔انسانی ذہن ایک حیران کن تخلیق ہے ،ہم روزانہ سینکڑوں ہزاروں تصویریں دیکھتے ہیں ، ہم روزانہ دو سو سے پانچ سو چہرے دیکھتے ہیں ،ہم روزانہ سینکڑوں باتیں کرتے اورہزاروں الفاظ سنتے ہیں ،ہماری آنکھیں روزانہ سینکڑوں نئے مناظر دیکھتی ہیں اور ہم روزانہ چالیس پچاس نئے افراد سے ملتے ہیں لیکن ہم اور ہمارا ذہن رات سونے سے پہلے یہ سب کچھ مٹا دیتا ہے، ہم جب سونے کے لیئے بستر پر لیٹتے ہیں تو ہمارا ذہن بلڈوزر بن کر ہماری دن بھر کی ساری باتیں ،یادیں ،مناظر اور الفاظ کو ڈیلیٹ کر دیتا ہے اور ہم جب صبح اٹھتے ہیں تو ہمارا ذہن باالکل خالی اور صاف شفاف ہوتا ہے ۔

(جاری ہے)

ایسا کیوں ہے ؟یہ اس لیئے ہے کہ اگر انسانی ذہن ان تمام چیزوں ، الفاظ، مناظر اور تصاویر کو محفوظ کرنا شروع کر دے تو ہماری زندگی درہم برہم ہوجائے ،ہم خلط مبحث کا شکار ہو جائیں ،ہماری معلومات اور ہمارے الفاظ آپس میں گڈ مڈ ہو جائیں اور ہم چیزوں میں فرق کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو جائیں ، ہم نئے چہروں ، نئے مناظراور نئی تصاویر میں فرق کی صلاحیت کو کھو دیں اور ہماری زندگی ایک نئے عذاب میں مبتلا ہو جائے ۔

ہمارا ذہن دس ہزار مناظر، الفاظ اور تصاویر میں سے بمشکل کسی ایک لفظ ،تصویریا منظر کو محفوظ رکھ پاتا ہے اور پھر وہ لفظ ،وہ منظر اور وہ تصویر ہمارے ذہن کا حصہ بن جاتا ہے ۔ آپ نے اپنی زندگی کی جتنی بہاریں دیکھی ہیں آپ اپنی اس زندگی پر نظر دوڑائیں اور دیکھیں کہ کتنے مناظر، کتنی تصاویر اور کتنے الفاظ ایسے ہیں جو آپ کو یاد ہیں یا جو آپ کے ذہن پر نقش بن کر ثبت ہو چکے ہیں ۔

شاید بہت کم ۔ 12جنوری 2015کوانگریزی روزنامے میں چھپنے والی تصویر بھی گہرا نقش بن کر میرے ذہن کے حافظے پر ثبت ہو چکی ہے اور شاید میں زندگی بھر اس تصویر کے نقش کو دھو نہیں پاوٴں گا۔ تصویر میں دکھایا گیا ہے کہ دنیا کے چالیس سے زائد حکمران گستاخ جریدے چارلی ایبڈو سے اظہار یکجہتی کے لیئے فرانس میں اکٹھے ہوئے اور سب نے مل کر فرانسیسی تاریخ کا سب سے بڑا ملین مارچ کیا ۔

آپ کے لیئے شاید یہ معمول کی بات ہو اور آپ مجھے جذباتیت کا طعنہ دے کر گزر جائیں لیکن کم از کم میں ابھی تک اس صدمے سے نہیں نکل پایا ہوں۔گزشتہ آٹھ سالوں سے بنی کریم ﷺکی حرمت و تقدیس پر حملے جاری ہیں ،آپ مجھے ایک بار ،جی ہاں صرف ایک بار دکھا دیں کہ ساٹھ اسلا می ممالک کے حکمرانوں میں سے آدھے بھی کبھی اس ناپاک جسارت کے خلاف احتجاج کے لیئے اکٹھے ہوئے ہوں ۔

میں عوام کی بات نہیں کر رہا ،میں ملک کے سربراہ کی بات کر رہا ہوں ،اگر ملک کا سربراہ ہی کسی کام کے لیئے سنجیدہ نہ ہو تو عوام جو بھی اقدام اٹھائیں اس کا نتیجہ صفر نکلے گا۔ گستاخانہ خاکوں کے خلاف آواز بلند کرنا،آزادی ء اظہار کی حدود متعین کرنا اور عالمی عدالت میں جا کر اس کا مقدمہ لڑنا کسی اللہ دتے،گا مے، نورے اور اللہ رکھے کا کام نہیں یہ ساٹھ اسلامی ممالک کے حکمرانوں کا کام ہے ۔

کوئی میرے آبا وٴ اجداد کو برا بھلا کہے ،میرے داد اپردادا کو گالی دے میں لاکھ چیخوں چلاوٴں،گریبان پھاڑوں اور دیواروں سے سر ٹکراوٴں کسی کو کوئی فرق نہیں پڑے گا جب تک میرے گھر کا سربراہ اور میرا والداس مقدمے کا فریق نہیں بنے گا، جب تک میرے گھر کا سربراہ آگے نہیں بڑھے گا تب تک میرا مسئلہ حل نہیں ہو گا۔
کیا نبی کی شان میں گستاخی کرنے والے جریدے کے حق میں اکٹھے ہونے والے عالمی راہنماوٴں کو دیکھ کران کی غیرت نہیں جاگتی ، کیا نبی کی شان میں گستاخی کرنے والوں کا اکٹھ جوڑ دیکھ کر ان کاضمیر نہیں جاگتا، اگر ان میں ذرا سی بھی غیرت اور حمیت ہوتی تو اگلے ہی دن مکہ یا مدینہ میں اکٹھے ہو کر نبی کی عزت و حرمت کی قسم کھاتے ،ترکی یا پاکستان میں اکٹھے ہو کر عالمی راہنماوٴں کا اجلاس بلاتے اور کہتے کہ یہاں سامنے بیٹھ کر بات کرو، تم ہمارے آقا کا مذاق اڑاوٴ اور پھر دنیا میں امن اور چین کی بات کرو کبھی نہیں ہو سکتا۔

اگر ان ساٹھ حکمرانوں میں کوئی ایک بھی لیڈر ہوتا تو ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا، اپنے مطالبات ان کے سامنے رکھتا اور ان کے مطالبات سنتا ، مگر سوال پھر وہی ہے کہ ایسا کرے کون ؟پاکستان ، ایران ، ترکی یا سعودی عرب۔چھوڑو کو ئی عقل کی بات کرو، پاکستانی حکمرانوں سے یہ توقع؟خوشی سے مر نہ جاتے ، ایران سے یہ امید ، ایران امریکہ کی اندرونی کہانی جاننے والے بات سمجھتے ہیں ،سعودی عرب ایسا کرے، تو پھر بادشاہت کو کون بچائے گا، ترکی ایسا کر دکھائے ، شاید کبھی نہیں کیوں کہ اسے یورپی یونین کی رکنیت چاہیئے۔

چلو بھر پانی میں ڈوب مرنا چاہیئے ان حکمرانوں کو ،نہ عزت نہ غیرت اور نہ اپنے نبی کی عزت و حرمت کا پاس۔ اپنی ان بادشاہتوں اور حکمرانیوں کو قبر میں ساتھ لے جانا ،یہ وہاں تمہیں بچا لیں گی ۔بات عوام کی نہیں ، عوام اپنی ذمہ داریوں سے بری ہیں ،مقدمہ جس سطح کا ہو مدعی اور فریق مقدمہ بھی اسے ہی بننا پڑتا ہے ،عوام کے احتجاج اور چیخ و پکا ر سے یہ مسئلہ حل ہونا ہوتا تو کب کا ہو چکا ہوتا ۔


میں نے کہیں یہ چینی کہاوت پڑھی تھی کہ ایک تصویر ایک ہزار الفاظ پر بھا ری ہوتی ہے لیکن میں اس سے اتفاق نہیں کر تا کیونکہ بعض تصاویر ایک ہزار الفاظ نہیں ایک ہزار کتابوں پر بھاری ہوتی ہیں ۔ ایسی ہی تصویر میں نے 12جنوری 2015کے اخبارات میں دیکھی تھی ، میں نے اس تصویر کو اپنے لیپ ٹاپ میں محفوظ کر لیا تھا اور میں روزانہ اس تصویر کو دیکھ کر آنسو بہاتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ کا ش ساٹھ اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو بھی اپنے نبی کی عزت و حرمت کا خیال آ جائے ، کاش وہ بھی کبھی اپنے آقا کی عزت و ناموس کے لیئے اکٹھے ہو جائیں ۔ کیا میں کبھی ایسی تصویر دیکھ پاوٴں گا ؟؟؟ شاید کبھی نہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :