بجلی،‌ پٹرول کا بحران ، ذمہ داران کا تعین ضروری

جمعہ 30 جنوری 2015

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

اتوار کی رات کو بجلی کے بریک ڈان سے پورا پاکستان تاریکی میں ڈوب گیا۔ پہلی بار ایسا ہوا کہ ایک ہزار ایک سو گرڈ سٹیشن ٹرپ کر گئے۔ وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف نے اسے شرپسندوں کی سازش قرار دیا انہوں نے نئی منطق بیان کی کہ ہم انیس ہزار کلومیٹرلائنوں کی حفاظت نہیں کرسکتے گویا وہ وزیراعظم کے عوام سے کئے گئے وعدہ اوراحکامات کہ ”ٹرانسمیشن لائنوں کی حفاظت کی جائے“ کو غلط قرار دینے پرتلے ہوئے ہیں دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو گذشتہ ایک ڈیڑھ سال کے عرصہ میں تیسری بار بریک ڈاؤن دیکھنے میں آیا ۔

اسے بدانتظامی کی ایک مثال سمجھاجائیگا کہ وہ حاکمین وطن جو محض چھ ماہ میں اورپھر ایک سال میں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے دعویدارتھے، لوڈشیڈنگ تو ختم نہ ہوسکی مگر وہ حساس نوعیت کی ٹرانسمیشن لائن کی حفاظت نہیں کرسکتے۔

(جاری ہے)

وفاقی وزیر خواجہ آصف ایک دو سال میں لوڈشیڈنگ پر قابو پانے کی بات کرتے تھے اب حکومت کو دو سال ہونے کو ہیں تو مزید تین سال کا لارا لگا رہے ہیں۔

۔ وزیراعظم نواز شریف نے اجلاس کے دوران لائنوں کی حفاظت کی بات کی اس وقت تو خواجہ صاحب خاموش رہے اب انکاری ہیں کہ ہم لائنوں کی حفاظت نہیں کرسکتے گویا انہوں نے اپنی نااہلی تسلیم کرلی ہے۔ دنیا میں اس سے کہیں زیادہ طویل ٹرانسمیشن لائنیں ہیں جن کی حفاظت ہوتی۔ 19 ہزار کلو میٹر طویل لائنوں کی آخر کس نے حفاظت کرنی اور ذمہ داری لینی ہے؟ وزارتیں کیا صرف مراعات کیلئے ہیں؟ کچھ کام کرنا پڑیگا اور ذمہ داری بھی لینی پڑیگی 19ہزار کلو میٹر طویل لائنوں کو لاوارث اور نااہل وزیروں کے رحم و کرم تو نہیں چھوڑا جا سکتا۔


اب یہ دیکھناہوگاکہ بجلی بحران کے حوالے سے پیپلزپارٹی کو ہدف تنقید بنانیوالی مسلم لیگ نے کم وبیش دوسال کے عرصہ میں اس حوالے سے کیاکارہائے نمایاں انجام دئیے ؟ یقینا اس حوالے سے قوم جاننے کو بے تاب ہے، کبھی نندی پور منصوبہ کی بات کی جاتی ہے تو کبھی رینٹل پاور (کرائے کے بجلی گھروں) کی بات کی جاتی ہے۔ اگر پڑھنے والوں کویاد ہو کہ گذشتہ دور حکومت میں مسلم لیگ ن کی بدولت ہی رینٹل پاور منصوبہ سپریم کورٹ کی ہوا کھاتارہا اورپھر ایک سابق وزیر اعظم ”راجہ رینٹل “ کے نام سے مشہور بھی ہوئے۔

ان مہنگے بجلی گھروں کی بابت آسمان سرپرا ٹھانے والے مسلم لیگی قائدین آج تھک ہارکراسی راہ پر چلنے کو پرتول رہے ہیں۔
یاد ہے کہ جب چھوٹے میاں جی چین کے دورے سے واپسی پر قوم کونوید سنارہے تھے کہ انہوں نے چینی حکام سے پاکستان کے پاور سٹیشنوں کو سولر ٹیکنالوجی پرمنتقل کرنے کی بات کی ہے ،قوم کی آنکھوں میں امید کی روشنی چمک اٹھی تھی مگر اس دوسالہ دور میں کم ازکم وہ اثرات سامنے نہیں آسکے۔

یہ بات بھی تسلیم شدہ ہے کہ ہمارے ہاں بجلی کی ترسیل اور تقسیم کانظام سرے سے درست ہی نہیں ہے، ہم دنیا بھر میں مہنگے طریقوں سے بجلی کرنیوالے ممالک میں شامل ہیں۔ تھرمل طریقہ کار سے بجلی پیداکرنے کا طریقہ دنیا میں مفقود ہوتاجارہاہے اور دنیا ہائیڈرو منصوبہ جات سے بھی نکلنے کی کوشش کررہی ہے کہ پانی مسلسل کمی کاشکار ہے اب سورج کی روشنی اور ہوا سے بجلی پیداکرنے کے منصوبوں پر کام جاری ہے۔

اس حوالے سے ارض وطن خوش نصیب ہی تصور کی جاسکتی ہے کہ یہاں دونوں چیزیں وافر مقدار میں موجو د ہیں لیکن پلاننگ نہ ہونے کی وجہ سے ہم نہ تو دھوپ اور ہوا سے فائدہ اٹھانے میں کامیاب رہے ہیں اورنہ ہی کوئی دوسرا نظام رائج کرنے میں کامیاب ہوسکے ۔ دور جانے کی ضرورت نہیں بلکہ یہ دیکھئے کہ ہرآنیوالی حکومت نے لائن لاسز پورے کرنے کیلئے بوجھ ہمیشہ ان صارفین پر ڈالا ہے جو ایمانداری سے بل اداکرتے ہیں اب لائن لاسز کی تشریح کی جائے تو یوں کہاجاسکتا ہے کہ ”واپڈا افسران، اہلکاروں کی مرضی سے چوری ہونیوالی بجلی“ یعنی فائدہ میں کوئی بھی رہے مگرنقصان بہرحال صارفین کو ہی بھگتناپڑرہا ہے۔


آگے چلئے دوسرے بحران کا ذکرکئے دیتے ہیں یعنی پٹرول کی قلت کی ہوا اب گو کہ تھم چکی ہے مگراس دوران کئی طرح کے ڈرامے سامنے آئے، متعلقہ وزرا بلکہ وزرا کی فوج ظفرموج اس بحران سے دامن چھڑاتی دکھائی دی ان کے مطابق اس بحران کا اصل ذمہ دار میڈیا ہے جو پٹرول کی معمولی قلت کو بحران کانام دے رہا ہے۔ ابتدا میں بحران تسلیم نہ کرنیوالے وفاقی وزیر شاہد خاقان عباسی ڈھٹائی سے کہہ رہے ہیں کہ وہ اس بحران کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں اگر وزیراعظم نے کہا تو استعفیٰ دیدونگا ۔

گویا اب بیل منڈھے چڑھنے کیلئے بھی وزیراعظم کاکندھا استعمال کیاجائیگا۔ دوسرے ممالک کی مثال یوں بھی دینا فضول ہے کہ پاکستان دنیا بھر میں وزراء کی اسی ڈھٹائی کی وجہ سے ہی مشہور ہے ، بھارت جسے ہم ازلی دشمن سمجھتے ہیں وہاں کسی بھی بحرانی کیفیت پرمتعلقہ وزیرفوراً سے پہلے ہی استعفیٰ دیدیتے ہیں جبکہ دنیا کے دیگرممالک کی مثال ہی الگ ہے۔

مگرہمارے ہاں جب تک زبردستی کسی کو عہدے سے نہ ہٹایاجائے اس وقت تک وہ عہدہ چھوڑنے کو راضی ہی نہیں ہوتا۔ بہرحال اب جبکہ بحران ٹل چکا ہے مگر وزرا کی کارکردگی ظاہرکرتی ہے کہ وہ ایسے کسی بھی بحران سے نمٹنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔
صاحبو! قوم نے ایک ماہ میں دو بحرانوں کاسامنا کیا ،” قوم نہیں بھیڑ“ کا واویلا کرنیوالوں نے دیکھا حکمرانوں کی بدولت پنپنے والے بحرانوں سے قوم کس طرح نبرد آزما رہی کوئی احتجاج، کوئی فساد،دنگا سامنے نہیں آیا،اس سے زیادہ بیچارگی کی کیا مثال پیش کی جاسکتی ہے۔

بجلی، پٹرول بحران کے بعد ضرورت تو بڑھ جاتی ہے کہ دونوں وزارتوں کے ذمہ داران کاتعین کرنے کے بعد جزا سزا کے ضمن میں عملی اقدامات اٹھائے جائیں۔ اب یہ کہاجاسکتا ہے کہ شریف برادران نے ہمیشہ میرٹ میرٹ کی بات کی ہے ،اب ضرورت اس امرکی ہے اسی ”گردان “ کاعملی مظاہرہ بھی سامنے آنا چاہئے۔ بلکہ وزیراعظم خود اعلان کریں کہ انہوں نے ذمہ داروں کا تعین کرتے ہوئے متعلقہ وزرا کو گھر بھیج دیا ہے نیز آئندہ کسی بھی بحرانی کیفیت سے بچنے کیلئے بروقت انتظام ضروری ہے۔

رہی بات ٹرانسمیشن لائنوں کی حفاظت کی تو اس ضمن میں عرض کرنا ضروری ہے کہ یہ کام ”نااہلوں“ کے سپردکرنے سے کہیں بہترہے کہ پورا محکمہ ہی فوج کے حوالے کردیاجائے ۔ یقینا پھر اعتراضات سامنے آئیں گے کہ فوجی عدالتوں کی طرح واپڈا میں فوج کی موجودگی آئین کی خلاف ورزی ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :