سعودی عرب کے نئے حکمرا ن شاہ سلمان بن عبدالعزیز

جمعہ 30 جنوری 2015

Khurrum Iqbal Awan

خرم اقبال اعوان

سعودی عرب کے نئے حکمران شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے بادشاہت کے فرائض سنبھال لئے ہیں اور شاہی محل میں ان کی بیعت بھی کر لی گئی ہے۔ نئے آنے والے بادشاہ کے دنیا کے ساتھ تعلقات کیسے ہونگے اورخاص طور پر پاکستان پر اس کے کیا اثرات ہونگے؟ان باتوں پر جانے سے پہلے کچھ تذکرہ اس خاندان کا کریں گے جس نے آج کے جدید سعودیہ کو تعمیر کیا۔ سعودی عرب کے بانی عبدالعزیز بن سعود ہیں جنہوں نے 1932 ء میں آج کے سعودی عرب کی بنیاد رکھی اور خود کو بادشاہ قرار دیا۔

عبدالعزیز بن سعود کی 22 بیگمات تھیں ان میں 17 بیویوں کے ہاں 45 بیٹے پیدا ہوئے اور آج آل سعود میں شہزادوں کی تعداد 7000 سے بھی زائد ہوچکی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آل سعود نے ہی تیل سے مالا مال اس خلیجی ریاسرت کو سعودی عرب کا نام دیا ۔

(جاری ہے)

وفات پا جانے والے شاہ عبداللہ کا تعلق بھی السعود خاندان سے تھا ۔ السعود خاندان کا شجرہ اٹھارویں صدی میں جزیرہ نما عرب کے ایک مقامی شیخ سعود بن محمد سے ملتا ہے ۔

سعودی عرب دنیا کا واحد ملک ہے جس کا نام دو صدیوں پہلے پیدا ہونے والے مقامی حکمران کے نام پر رکھا گیا۔ شیخ سعود کے بیٹے محمد نے 1744 ء میں شعلہ بیاں مذہبی عالم محمد بن عبدالوہاب سے اتحاد کر لیا ۔ عبدالوہاب نے خالص اسلام کی واپسی کا نعرہ لگایااور تب ہی یہاں سے وہابی نظریات کا آغاز ہوا یا یوں کہ لیں کہ وہابی نظریات کے پرچار کا آغاز ہوا۔

1818 ء میں ترک عثمانیہ افواج نے سعود خاندان کو شکست دی لیکن صرف چھ سال بعد ہی سعود خاندان نے پھر سے ریاض پر قبضہ کر لیا۔1902 ء میں عبدالعزیزبن سعودنے اپنے حریف راشدی قبیلے کو ریاض سے بے دخل کر دیا اور اپنے آپ کو (یعنی سعود خاندان) کو مزید مستحکم کر لیا ۔ عبدالعزیز نے بہت سے قبیلوں سے لڑائی جاری رکھی اور انہیں شکست دیتے ہوئے بہت سے علاقے نہ صرف اپنے قبضے میں لے لئے بلکہ ان کو متحد بھی کیا اور1913 ء میں خلیجی ساحل کا بھی کنٹرول حاصل کر لیا ۔

1918 ء میں سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف لڑنے والے حسین بن علی آخری شریفِ مکہ قرار پائے ۔ شریفِ مکہ کا منصب فاطمینِ مصر کے دور میں قائم کیا گیا تھا اور شریفِ مکہ کا منصب رکھنے والی شخصیت کی بنیاد ی ذمہ داری مکہ مدینہ میں عازمین حج و عمرہ کا انتظام و انصرام تھا۔ حسین بن علی کے شریفِ مکہ بننے کے بعد 1924 ء میں عبدالعزیز بن سعود نے اپنے حملے تیز کر دئیے اور 1925 ء میں حسین بن علی کو بھی ا قتدار سے بے دخل کر دیا اس کے بعداپنے ا قتدار میں طاقت کے اضافے کی خاطر عبدالعزیز بن سعود نے بہت سے قبائلی سرداروں کی بیٹیوں سے شادیاں کیں ۔

آج اس شاہی خاندان کے مجموعی افراد کی تعداد تقریباً پچیس ہزار ہے جبکہ اہم عہدوں اور اثرو رسوخ رکھنے والے شہزادوں کی تعداد تقریباً دو سو کے لگ بھگ ہے۔ اس قدامت پسند وہابی ریاست میں تیل کی پیداوار کا آغاز 1938 ء میں ہوا جس کے بعد سعودی عرب کا شمار دنیا کے امیر ترین ملکوں میں ہونے لگا۔
9نومبر 1953 ء میں سعودی ریاست کے بانی عبدالعزیز کا انتقال ہوا اور اس کے بعد سعود کو ان کا جانشین مقرر کیا گیا۔

نومبر 1964 ء کو شاہ سعود کو کرپشن اور نا اہلی کے الزامات کے تحت معزول کر دیا گیا اور ان کے سوتیلے بھائی شاہ فیصل نے اقتدار سنبھالا شاہ سعود کی وفات 1969 ء کو جلاوطنی میں ہوئی ۔ جدید سعودی عرب کے معمار کا خطاب حاصل کرنے والے شاہ فیصل کو مارچ 1975 ء میں ان کے ایک بھتیجے نے قتل کر دیا جس کے بارے میں یہ کہا گیا کہ اس کا ذہنی توازن درست نہیں ۔

اسلام آباد میں واقع فیصل مسجد اور پنجاب کے شہر فیصل آباد کا نام سعودی شاہ فیصل کے نام پر رکھا گیا ۔ اس کے بعد سعودی عرب کی حکمرانی سعودی شاہ فیصل کے سوتیلے بھائی شاہ خالد کے ہاتھ میں آگئی اور وہ1982 ء اپنی وفات تک حکمران رہے۔ اس کے بعد شاہ فہد حکمران رہے اور انہوں نے اپنی زندگی میں اپنے سے دو سال چھوٹے شاہ عبداللہ کو ولی عہد مقرر کر دیا تھا۔

مگر قسمت کو شاید شاہ عبداللہ کو کندن بنانا مقصود تھا کیونکہ 1995 ء کو شاہ فہد کو فالج کا اٹیک ہوا جس کے بعد عملی طور پر حکومت کا انتظام شاہ عبداللہ ہی انجام دیتے رہے ۔2005 ء میں شاہ فہد خالق حقیقی سے جا ملے اور شاہ عبداللہ براہ راست ایک وسیع تر حکومتی تجربہ کے ساتھ سعودی عرب کے نئے بادشاہ بن گئے ۔ وسیع تر تجربہ اس لئے کہا گیا کہ اپنے سیاسی کیر ئیر کا آغاز یعنی 1962 ء میں شاہ فیصل نے ان کو نیشنل گارڈز کا کمانڈر بنایا ۔

پھر 1975 ء میں شاہ خالد نے ان کو نائب وزیراعظم دوم مقرر کیا۔ 1982ء میں جب شاہ فہد نے ان کو نائب وزیراعظم اول بنایا تو اس کے ساتھ ساتھ وہ حرمین الشریفین کے نائب نگران بھی بنا دیے گئے ۔ شاہ عبداللہ ایک روشن دماغ اور امن کے داعی انسان تھے انہوں نے سعودی عرب کو معاشی اور تعلیمی دونوں حوالوں سے ترقی دینے کے سفر کا آغاز کیا ۔ شاہ عبداللہ نہ صرف عالمی سفارت کاری کے محاذ پر سرگرم تھے بلکہ انہوں نے جس طرح عالمی فورم پر عرب و اسلامی ریاستوں کا دفاع کیا یہ صرف انہی کا خاصہ تھی اور انہیں خصوصیات نے ان کو عالم اسلام کے لیڈروں میں سب سے ممتاز بنا دیا اور عرب ریاستوں کے تمام لوگ بھی ان کو اپنا لیڈر ماننے لگ گئے۔

اسی لئے وہ دنیا کے مذاہب کے درمیان مکالمہ کی روایت کو فروغ دینے میں کامیاب ہوئے ساتھ ہی ساتھ دارفر " سوڈان" اور "چاڈ " کے مابین مصالحت کروانے کا سہرا بھی شاہ عبداللہ کے سر پر ہے اسی طرح انہی کاوشوں سے سپین میں ورلڈ کانفرنس آن ڈائیلاگ اور پھر اقوام متحدہ کے زیر اثر کانفرنس آن ڈائیلاگ کا انعقاد ہوا۔ شاہ عبداللہ نے دہشت گردی کے حوالے سے بھی ہمیشہ واضح موقف رکھا کہ معصوم زندگیوں کا ضیاع کرنا درست نہیں اس لیئے وہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے عالمی تعاون پر زور دیاکرتے تھے۔

شاہ عبداللہ کی وفات نہ صرف اسلامی دنیا کے لئے دکھ کا ایک دھچکا ہے بلکہ تمام دنیا بھی ایک عظیم رہنما سے محروم ہو گئی ان کے دور میں پاکستان اور سعودی عرب ایک دوسرے کے مزید قریب آگئے بلکہ یہ لازوال دوستی آسمانوں کو چھونے لگی ۔ شاہ عبداللہ کی وفات سے جو خلا عرب اور غیر عرب دنیا میں پیدا ہوا ہے وہ شاید کبھی پورا نہ ہوسکے ۔ شاہ عبداللہ نے اپنی زندگی میں شہزادہ نائف بن عبدالعزیز کو ولی عہد مقرر کیا تھا مگر ان کی وفات کے بعد انہوں نے اپنے سوتیلے بھائی شاہ سلمان بن عبدالعزیز کو ولی عہد مقرر کر دیا ۔

اگرچہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز کو 1963ء سے 2011ء تک ریاض کی گورنری کا پھر 2011ء میں وزارت دفاع کا ایک طویل تجربہ ہے اور ان کے تعلقات اُبامہ اورڈیوڈ کیمران کے ساتھ بہت قریبی ہیں بلکہ ان کی مثبت خصوصیات میں خاندان کے داخلی امور پر ِان کا اثرو رسوخ ہے مزید ان کی شخصیت کا مدبر اور دانشمندانہ پن ان کا بہت کلیدی وصف ہے۔ مگر ان کے سامنے اس وقت چند چیلنجز ہین جس میں سر فہرست سعودی عرب کی معیشت کو سنبھالنا ہے ۔

تیل کا بہت بڑا پیداواری مرکز ہونے کے ناطے عالمی سطح پر تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کا ہر جانب بلکہ ہر ملک کیمعیشت پر اثرات مرتب ہوئے ہیں ان ثرات سے سعودی عرب بھی باہر نہیں رہ سکا ۔ سعودی عرب کی معیشت کو عالمی طاقتوں کے ساتھ مل کر سنبھالنا اس وقت کا بڑا چیلنج ہے۔کیونکہ ایک جانب جنوب میں یمن خلفشار کا شکار ہے، تو شمال میں داعش کااژدھا عراق اور شام میں منہ کھلے کھڑا ہے۔


دوسرا اہم چیلنج شاہ سلمان بن عبدالعزیزکے لئے ایران سے ان کے تعلقات ہیں کیونکہ شاہ سلما ن ایران کی طرف سخت رویہ رکھتے ہیں اِ س کے ساتھ ساتھ اِس وقت سعودی عرب ایران کے ساتھ سرد جنگ میں جکڑا ہوا ہے۔اِس کی وجہ ایران کا امریکہ کی جانب بڑھتا ہوا سفارتی جھکاؤاور ایران کی مشکلات سے اور عالمی دباؤ سے نکلنے کی سفارتی تدابیر ہیں،اور گریٹر ایران کا خواب ہے اِن کا جواب سفارت کاری سے ہی دینا ہوگا بلکہ علاقائی مسائل کو آپس میں بیٹھ کر بات چیت کے ذریعے حل کرنا ہوگا کہیں ایسا نہ ہو کہ تاریخ ایک مرتبہ پھر اپنے آپ کو دوہرائے اور تیسری قوت عرب وسائل کو مکمل طور پر عربوں کے تسلط سے لے اُڑے ۔

میں نے ابھی چند سطر پہلے لکھا کہ اُبامہ اور ڈیوڈ کیمران کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں مگر یہ بات بھی حقیقت ہے کہ بادشاہ کے عہدے پر آنے سے پہلے تک تو شاہ سلمان کا موقف امریکہ اور برطانیہ کی پالیسیوں کے شدید مخالف کے طور پر تھا، مگر اقتدار کی اپنی الگ زبان اور سوچ ہوتی ہے شاید یہ سوچ شاہ سلمان کو خارجہ پالیسی مرتب کرنے میں مدد دے۔کچھ حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ شاہ سلمان جب بطور وزیر دفاع کا کام کررہے تھے تو شاہ عبداللہ اور شاہ سلمان کے خیالات میں تضاد تھا۔

مگر اب ان کو بطور بادشاہ شاہ عبداللہ کے نقش قدم پر چلنا ہوگا تاکہ وہ سب کو ساتھ لے کر چل سکیں اور اسلامی ممالک کی بہتری کے لئے کچھ کر سکیں اور جزیرہ عرب کو اُس کا کھویا ہوا مقام دلا سکیں۔
تیسرا بڑا چیلنج جو اس وقت شاہ سلمان بن عبدالعزیز کو ہے وہ ملک کی حدود کے اندر شدت پسندی کو اُبھارے بغیر ، مذہبی اور تہذیبی بنیادوں کو اُکھاڑے بغیر ،ہلائے بغیر عوام کی ضروریات کو مدِ نظر رکھتے ہوے نئی حساس اصلاحات ہیں ، جن کی نظیر سعودی معاشرے میں تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔


پاکستان کے لئے بھی ایک چیلنج موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ ولی عہد شہزادہ مقرن بن عبدالعزیز کی شکل میں جنہوں نے شریف برادران کا جلا وطنی کا عہدنامہ لہرانے سے شہرت پائی تھی ۔ جب شریف برادران کسی بھی عہد نامہ سے انحراف کر رہے تھے کہ وہ اپنی مرضی سے معاہدہ دستخط کر کے سعودی عرب گئے تھے ۔ شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی بادشاہت میں اور فیصلوں میں زیادہ عمل دخل ولی عہد شہزادہ مقرن بن عبدالعزیز اور نئے بننے والے وزیر دفاع محمد بن سلمان کا ہو گا کیونکہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز علیل ہیں اور ذہنی انحطاط کے مرض میں مبتلا ہیں جسے ڈیمنیشیا کہتے ہیں ، اِس کے ساتھ ساتھ اِ یک ریڑھ کی ہڈی کا ایک آپریشن بھی ہو چکا ہے۔

اس لئے عرب ممالک کے اعتبار سے اور باقی عالمی طاقتوں اور دوست ممالک کے اعتبار سے یہ دو لوگ بہت اہم ہیں ایک شہزادہ مقرن اور شہزاد محمد بن سلمان۔
مگر ہم امید کرتے ہیں کہ سعودی عرب نہ صرف اپنی حیثیت برقرا رکھے گا بلکہ اس میں اضافہ بھی ہو گا ، اِس کے ساتھ ساتھ خارجہ پالیسی ، تیل کے حوالے سے پالیسی ، اندرونی ملکی و خاندانی حالات اور پاکستان کے ساتھ تعلقات ان سب پر اپنی پہلی تقریر کے علاوہ وقت اور حالات کے ساتھ ساتھِ ضرورت کے تحت نظرِ ثانی کی جائے گی۔ جس سے عالم اسلام عرب اور غیر عرب دونوں کو شاہ عبداللہ کی کمی محسوس نہ ہو۔ آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :