چند سیکنڈ بعد…!!

جمعرات 5 فروری 2015

Ashfaq Rehmani

اشفاق رحمانی

سنہ دو ہزار تیرہ میں ریلیز ہونے والی عالمی شہرت یافتہ فلم”وائٹ ہاوٴس ڈان“ کے ایک سین میں امریکی صدر باراک اوبامہ کی بیگم ٹیلی فون پر امریکی صدر یعنی اپنے شوہر سے پوچھتی ہے کہ کیا وہ گھڑی آپکے پاس ہے جو میں نے آپکو دی تھی۔صدر صاحب فرماتے ہیں ”ہاں، وہ اس وقت میرے پاس ہی نہیں دل کے قریب اندرونی پاکٹ میں موجود ہے“۔کب خاتون اول انہیں یاد کراتی ہیں کہ یہ وہ کھڑی ہے جو پہلے امریکی صدر کی بیگم نے انہیں دیتے ہوئے کہاکہ ” یہ گھڑی آپکو یاد کراتی رہے گی کہ آپ کے پاس صدارتی کرسی پر بیٹھ کر کوئی اچھا کام کرنے کے لئے کتنا کم وقت ہے۔

“ فلمی دنیا کے اس سین سے اب آتے ہیں اصل دنیا اور پاکستانی سرزمین پر جہاں دو دن پہلے” سیاسی اور قبضہ مافیا“ کے ڈرانے دھمکانے سے ایک انتہائی مہذہب اور پڑھا لکھا گورنر کو پنجاب کی گورنری چھوڑی پڑی۔

(جاری ہے)

پاکستانی سرزمین کے ایک ترقی یافتہ حصہ پنجاب کا باسی ہونے کے ناطے ”سر زمین پنجاب“ کی آج کی آپ پیتی بھی ہوجائے لگتے ہاتھوں…!!
یقیناً ہر برسر اقتدار جماعت کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ اسکی حکومت نہ صرف اپنے اقتدار کی ٹرم پوری کرے بلکہ عوامی پذیرائی حاصل کرکے اگلے انتخابات میں بھی اپنی کامیابی کی منزل حاصل کرے جس کیلئے وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید داعی ہیں کہ 2018ء کے انتخابات میں بھی مسلم لیگ (ن) ہی برسراقتدار آئیگی۔

اس حوالے سے انہوں نے رواں برس شروع ہونیوالے بعض میگا پراجیکٹس کا بھی تذکرہ کیا ہے جن کے بل بوتے پر وہ مسلم لیگ (ن) کے اگلے اقتدار کی بھی نوید سنا رہے ہیں جبکہ زمینی حقائق اس سے قطعی مختلف نظر آتے ہیں۔ وزیر پانی و بجلی کے اپنے بقول ملک میں توانائی کا بحران حل ہونے میں مزید تین برس لگیں گے جبکہ حکومت سیاسی عدم استحکام سے نجات کیلئے تحریک انصاف کے ساتھ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل پر مذاکرات کو کامیابی سے ہمکنار کرانے میں بھی سنجیدہ نظر نہیں آتی۔

اس صورتحال میں اگلے انتخابات میں بھی کامیابی کے امکانات تو کجا‘ حکومت اپنے اقتدار کی موجودہ ٹرم بھی سکون و اطمینان کے ساتھ پوری کرلے تو بڑی بات ہو گی۔اس وقت بلاشبہ قوم اور عسکری ادارے دہشت گردی کے ناسور سے مستقل خلاصی کیلئے پرعزم ہیں جس میں سکیورٹی فورسز کی کامیابی یقینی نظر آرہی ہے مگر ملک میں سیاسی استحکام کی راہ ہموار کرنا اور اپنی گورننس بہتر بنانا تو سراسر حکومت کی اپنی ذمہ داری ہے۔

اگر حکومت اس معاملہ میں سنجیدہ نظر نہیں آتی تو محض دعوؤں کے بل بوتے پر اگلے انتخابات کیلئے بھی عوامی پذیرائی حاصل نہیں کی جا سکتی۔ اس کیلئے حکومت کو عملیت پسندی کی راہ اختیار کرنا ہو گی اور کچھ کرکے دکھانا ہو گا ورنہ سابق حکمران پیپلزپارٹی کے دعوے بھی گزشتہ انتخابات میں دھرے کے دھرے رہ گئے تھے۔قارئین محترم، کہا جاتا ہے کہ مہنگائی‘ بے روزگاری‘ امن و امان کی بدحالی اور بجلی‘ گیس کے بحران سمیت کم و بیش تمام مسائل موجودہ حکمرانوں کو ورثے میں ملے ہیں” یعنی کہ گزشتہ بیش سال سے یہی حکومتی نمائندے پنجاب پر برجمان ہیں کسی نہ کسی صورت میں“‘ اگرچہ میاں نوازشریف نے بالخصوص توانائی کے بحران سے نجات اور مہنگائی‘ بے روزگاری کے مسائل کے حل کیلئے عوام کے ساتھ بلند بانگ وعدے کئے تھے‘ جو انتخابات میں عوامی پذیرائی حاصل کرنے کیلئے انکی ضرورت بھی تھی مگر یہ مسائل اتنے پیچیدہ تھے کہ ان کا فوری حل عملاً ناممکن تھا چنانچہ وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد انہیں اصل حقائق کا ادراک ہوا تو انہوں نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے سے بھی پہلے نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں یوم تکبیر کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عوام کو باور کرادیا کہ ان سے دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کی ہرگز توقع نہ کی جائے جبکہ انہوں نے چین کی مدد سے ملک میں معاشی دھماکہ کرنے کا قوم سے وعدہ کیا۔

اس وعدے کے باعث بھی عوام میں توانائی کے بحران سے نجات اور بے روزگاری کے خاتمہ کیلئے نئی توقعات پیدا ہوئیں مگر دہشت گردوں کی پیدا کردہ بدامنی کے باعث مسلم لیگ (ن) کی حکومت معاشی انقلاب کیلئے بھی سرعت کے ساتھ اقدامات نہ اٹھا سکی اور دہشت گردی سے نجات کو ترجیح اول بنا کر حکومت نے طالبان گروپوں کے ساتھ مذاکرات کی راہ ہموار کرنا شروع کر دی جس کے باعث توانائی کے بحران اور دیگر عوامی مسائل سے نجات کے منصوبے پس پشت چلے گئے۔

نتیجتاً توانائی کا بحران مزید گھمبیر ہوا اور روزمرہ کے مسائل بشمول مہنگائی اور بے روزگاری کے مسائل بھی عوام کیلئے سوہان روح بننے لگے جس سے عوام میں اضطراب کی فضا پیدا ہونا فطری امر تھا جبکہ مذاکرات کی پالیسی سے وقت بھی ضائع ہوا اور دہشت گردوں کو نکیل ڈالنے میں بھی کسی قسم کی پیش رفت نہ ہو سکی چنانچہ خودکش حملوں اور دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی دوسری وارداتوں نے حکومتی گورننس پر بھی سوالیہ نشان اٹھا دیئے۔

جب دہشت گردوں نے سکیورٹی فورسز کے اداروں اور ارکان کو نشانہ بنانا شروع کیا اور وہ کراچی ایئرپورٹ پر حملہ آور ہوئے تو عسکری قیادتوں کے دباؤ پر حکومت کو مذاکرات کے دروازے بند کرکے شمالی وزیرستان میں اپریشن ضرب عضب کیلئے عسکری قیادتوں کے ساتھ یکجہت ہونا پڑا جبکہ اسی دوران عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کو توانائی کے بحران کی سنگینی اور روٹی روزگار کے مسائل سے عاجز آئے عوام کے اضطراب کو اپنے حق میں کیش کرانے کا موقع ملا جنہوں نے گزشتہ سال 14 اگست سے حکومت مخالف لانگ مارچ اور دھرنا سیاست کا آغاز کیا جس نے تقریباً ساڑھے تین ماہ تک ملکی معیشت کو مفلوج کئے رکھا جبکہ اس سے سیاسی عدم استحکام کی فضا بھی ہموار ہوئی۔

ہمارے ناقص خیال کے مطابق روزمرہ کے مسائل سے مضطرب ہونیوالے عوام کو مطمئن کرنے کے عملی اقدامات اٹھانا بھی ضروری ہیں جس میں حکومتی اخلاص کے باوجود پیش رفت کی رفتار انتہائی سست نظر آتی ہے جو عوام میں مزید اضطراب کا باعث بن رہی ہے جبکہ اس سے جمہوریت مخالف ایجنڈا رکھنے والے عناصر کو جمہوریت اور سیاست دانوں کی تضحیک کی فضا بنانے کا بھی موقع مل رہا ہے۔ قیمتی کھڑیوں نے ہی ہمیں بتایا کہ اچھائی کے لئے صرف چند سکینڈ ہوتے ہیں ورنہ اقتدار کو سو سو سال تک بھی انسان کی لونڈی بن کے رہا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :