انٹرنیٹ لشکری

ہفتہ 7 فروری 2015

Shahid Sidhu

شاہد سدھو

ان دنوں سوشل میڈیا پر ہمہ وقت جاری رہنے والی ” با شعور اور پڑھے لکھے “ پاکستانیوں کی یلغار نے نیا رُخ اختیار کیا ہُوا ہے۔ ان’ ’ با شعور اور پڑھے لکھے “ پاکستانیوں کی پوری کوشش ہے کہ پاکستان کو اس کے رہے سہے دوستوں سے بھی محروم کر دیا جائے۔ یلغار کا تازہ ہدف سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک ہیں ۔ نا صرف سعودی عرب کے نظام اور طرز حکومت کو نشانہ بنایا جارہا ہے بلکہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے تانے بانے بھی سعودی عرب سے جوڑنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

اِن پاکستانی انٹرنیٹ لشکریوں کا زور اس بات پر ہے کہ دیوبندی مسلک کے مدرسوں کو ملنے والی سعودی امداد سے ملک میں دہشت گردی پنپتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک طرف تو سعودی نظام کو کبھی وہابی نظام کا طعنہ دیا جاتا ہے اور کبھی ان کو حنبلی فقہ یا اہل حدیث یا غیر مقلد مکتب فکر کا حامل قر ار دیا جاتا ہے اور دوسری طرف یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ یہ وہابی پاکستان کے فقہ حنفیہ کے پیروکار وں کوامداد دیتے ہیں، سبحان اللہ۔

(جاری ہے)

گویا فقہ حنفیہ کے دیو بندیوں کو اس لئے امداد دی جاتی ہے تاکہ وہ دوسرے فرقوں کے خلاف دہشت گردی کریں۔ پاکستانیوں پر واضح ہو کہ بر صغیر سے باہر فقہ حنفیہ کے پیروکار مصری، اردنی، لبنانی، عراقی، شامی یا ترک مسلمانوں کے لئے یہ آج بھی کافی بڑی خبر ہے کہ پاکستان میں ان کے ہم مسلک حنفی بھائیوں کے لئے امام ابو حنیفہ رحمت اللہ علیہ کی تدوین کی ہوئی فقہ کی جو تشریح ان کے عظیم شاگردوں امام ابو یوسف اور امام محمد الشیبانی نے کی کافی نہ تھی، لِہٰذا ہندوستان کے صوبہ اتر پر دیش کے دو پسماندہ قصبوں دیوبند اور بریلی میں امام اعظم کی فقہ کی مزید تشریح کی گئی اور نتیجے کے طور پر بر صغیر کے حنفی مسلمان دو فرقوں میں تقسیم ہوگئے۔

اور امام ابو حنیفہ کی فقہ پر عمل کرنے والے مسلمانوں کے علماء اپنے ہی ہم مسلک بھائیوں کو کافر قرار دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ کچھ عرصہ پہلے تک سوشل میڈیا پر دیوبندی مسلک کی طرف سے بریلوی مسلک کے عقائد کی تضحیک کی جاتی تھی اور بریلوی مسلک کی طرف سے دیوبندی مسلک کے عقائد پر تنقید کی جاتی تھی مگر اب اس مہم میں دوست ممالک کو بھی گھسیٹ لیا گیا ہے، سعودی عرب اس کا سب سے بڑا نشانہ ہے۔

سعودی عرب پر تنقید کرنے والے اس کے احسان بھی یاد کر لیا کریں۔ ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کا ساتھ دینے والا سعودی عرب وہ ملک ہے جو ہر عالمی فورم میں پاکستان کی آواز میں اپنی آواز ملاتا ہے۔ پاکستان پر عالمی پابندیاں لگی ہوں یا اس کو قدرتی آفات کا سامنا ہو سعودی عرب نے دل کھول کر پاکستان کی مدد کی ہے۔ ڈیڑھ سو ارب روپے کی حالیہ امداد تو ابھی چند ماہ پہلے کی بات ہے۔

تقریباً پندرہ لاکھ پاکستانی سعودی عرب میں بر سر روزگار ہیں جن کی وجہ سے ان کے پندرہ لاکھ پاکستانی گھرانوں میں خوشحالی ہے۔ خبطِ عظمت کے مارے عظیم پاکستانیوں کا اس پر یہ فرمانا ہوتا ہے کہ سعودی عرب کی ساری رونقیں پاکستانیوں کی وجہ سے ہیں اور پاکستان ہی کی وجہ سے سعودی عرب کا وجود قائم ہے اور اسکا دفاع مضبوط ہے۔ جب کہ مملکت سعودی عرب میں موجود پاکستانی یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ کس طرح بھارتی، بنگلہ دیشی، سوڈانی، مصری، فلپائنی ، نیپالی، سری لنکن، اردنی، شامی، ویت نامی اور چائنیز کارکن ان کی جگہ لینے کے لئے بیتاب ہیں۔

محنت کی عالمی منڈیوں میں سستی لیبر کی کوئی کمی نہیں ہے۔ اور جہاں تک دفاع کی بات ہے تو سعودی قیادت بخوبی سمجھتی ہے کہ عطار کے لونڈوں سے دوا لینے کے بجائے براہِ راست عطار سے رابطہ ہی بہتر ہوتا ہے۔ اگردفاع میں آپ کا کوئی کردارہے بھی تو کیا فی سبیل اللہ ہے؟ یہاں تو ہمارے ایسے ایسے ” دانشور “ سپہ سالار گذرے ہیں جو وقت پڑنے پر پاکستان کے دیرینہ دوست کی مدد کے بجائے مخبوط الحواس صدام حسین کی مشکوک شخصیت میں صلاح الدین ایوبی ڈھونڈ رہے تھے۔

وہ تو بھلا ہو وزیر اعظم کا کہ انہوں نے سپہ سالار کی کھلی مخالفت کے باوجود سعودی عرب کا ساتھ دینے کے لئے پاکستانی فوج بھیجنے کا حکم دیا۔ مقام شکر ہے کہ ایسے ” دانشور “ سپہ سالار مارشل لاء لگانے کی حسرت دل میں لئے ہوئے ہی اپنے ذاتی دولت کدے میں منتقل ہوگئے ورنہ انکی دانشوری نجانے کیا دن دکھاتی۔ہمارے سوشل میڈیا کے جنگجو شاید یہ جانتے ہوں کہ سعودی عرب پاکستانی کارکنوں کی بھرتی کرتے ہوئے بھی یہ شرط نہیں لگاتا کہ صرف دیوبندی اور اہلِ حدیث کارکن ہی بھرتی کئے جائیں گے۔

سعودی عرب جب سیلاب زدگان یا زلزلہ زدگان کے لئے امداد بھیجتا ہے تو بھی ایسی کوئی شرط عائد نہیں کرتا کہ امداد صرف دیوبندی یا اہلِ حدیث مصیبت زدگان کو ہی دی جائے۔ سعودی عرب جب بھی پاکستان کو مفت پیٹرول دیتا ہے تو کبھی یہ نہیں کہتا کہ پاکستانی پمپوں سے سستا (سبسیڈایزڈ ) پٹرول صرف دیوبندی یا اہلِ حدیثوں کی گاڑیوں میں ڈلنا چاہئے۔ تفرقہ پھیلانے اور مسلمانوں کو انکے عقائد کی بنیاد پر کافر قرار دینے سے ہم آپس میں ہی لڑ لڑ کر اپنی دنیا اور آخرت برباد کر رہے ہیں۔

سنیوں کے چاروں بڑے گروہ حنفی،حنبلی، مالکی اور شافعی ہوں یا غیر مقلد اہلِ حدیث ہوں یا اہلِ تشیع ہوں ، ہیں تو یہ سب اللہ اور اسکے آخری نبیﷺ پر دِل و جان قربان کرنے والے۔ پھر اسلام کے فلاح و بھلائی کے عظیم پیغام کو چھوڑ کر فروعی معاملات میں آپس میں جنگ و جدل کیوں؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :