کرکٹ جوا اور پاکستانی ٹیم

ہفتہ 28 فروری 2015

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

دنیا بھر کی نظریں اس وقت عالمی کرکٹ کپ پر لگی ہوئی ہیں، کہاجاتاہے کہ فٹ بال کے عالمی مقابلوں کے بعد کرکٹ ورلڈ کپ دنیا بھرمیں دوسرا بڑا ایونٹ ہے جسے ذوق شوق سے دیکھاجاتا ہے۔اس عالمی مقابلہ کیلئے دنیا بھر کے کرکٹ کھیلنے والے ممالک کی تیاریاں تو الگ شائقین کااشتیاق اپنی جگہ دیکھنے لائق ہوتاہے ،پسندیدہ کھیلوں کی فہرست میں دوسرادرجہ پانیوالے اس کھیل کے حسن کو چارچاندلگانے کیلئے آئی سی سی جہاں سرگرم عمل ہے وہاں نئی طرح کی تبدیلیوں اور اسے ”تیز ترین کھیل“ قرار دینے کی کوششوں کی وجہ سے اس کا اصل حسن بھی متاثر ہوا ہے۔

ماضی میں ٹیسٹ کو کرکٹ کا اصل کہاجاتا تھا پھر ون ڈے میچز متعارف ہوئے تاہم بعد میں رہی سہی کسر ٹونٹی ٹورنامنٹوں نے پوری کردی۔

(جاری ہے)

ان تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ کرکٹ کو جس فعل سے زیادہ نقصان پہنچا وہ جوا تھا۔ فٹ بال ،ہاکی یادوسرے کھیلوں کی نسبت کرکٹ میں جوئے کی وبا بہت زیادہ عام ہوچکی ، اب مافیا کے علاوہ کھلاڑی بھی اس میں ملوث پائے جاتے ہیں۔

بلکہ اب تو کہاجارہا ہے کہ آئی سی سی کے تحت نیوزی لینڈ آسٹریلیا میں کھیلے جانیوالے اس گیارہویں عالمی کپ کے تمام میچز فکس ہیں گو کہ بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ یہ میچز فکس نہیں ہیں تاہم آئی سی سی کی طرف سے کوئی وضاحت نہیں کی گئی۔ یہ الزام یوں لگا کہ اس وقت دنیا بھر میں کھیلے جانیوالے ٹورنامنٹوں یاسیریز کے دوران متحرک ہونیوالے جوا مافیا میں سب سے زیادہ کردار بھارتی سٹہ بازوں کاہوتا ہے ۔

یہ جوا باز انفرادی طورپر کھلاڑیوں سے رابطہ کرکے پرکشش پیشکشوں کے ذریعے اپنی طرف مائل کرتے ہیں تو بعض اوقات ساری کی ساری ٹیم ہی ”میچ فکسنگ “ میں مبتلاہوجاتی ہے۔ اس حوالے سے پاکستان ماضی میں الزامات کی زد میں رہا اور چند سال قبل ہی پاکستان کے تین کھلاڑیوں کو تاحیات پابندی کاسامنا کرناپڑا ۔ محمدعامر جیسے نوجوان پر نوبال کرانے کے حوالے سے ”سپاٹ فکسنگ“ کا الزام بھی لگا۔


خیر جوا اور کرکٹ اب لازم وملزم دکھائی دیتے ہیں خاص طورپر ”بگ تھری“ کے بعد بھارتی اجارہ داری کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، انڈین پریمئرلیگ کی آڑمیں پہلے دنیا کے معروف کھلاڑیوں کو اپنی طرف مائل اورقائل کرنے کیلئے ان کی بولیاں لگائی گئیں اس دوران جوا مافیا متحرک ہوگیا۔ بلکہ یوں کہاجائے تو بے جا نہ ہوگا کہ دنیا بھر کے مافیا سے منسلک لوگوں نے بھارت کا رخ کرلیا اورپھر معروف کھلاڑیوں سے رابطہ کرکے انہیں میچ فکسنگ پر مجبورکیاگیا بلکہ بعض حوالوں سے پتہ چلتاہے کہ آئی پی ایل کے سربراہ للیت مودی بھی بذات خوداس میں ملوث تھے ایک بات زبان زدعام ہے کہ جہاں کہیں بھی کرکٹ جاتی ہے وہاں ساتھ ساتھ جوا بھی سفر کرتادکھائی دیتاہے۔


صاحبو!اب تو کسی بھی ملک کی انہونی شکست پر فوراً سے پہلے ہی میچ فکسنگ کے الزامات لگنا شروع ہوجاتے ہیں حالانکہ کرکٹ کو ”بائی چانس “ کہاگیا لیکن بعض معاملات میں یہ چانس کھلاڑیوں کے اپنے ہاتھ میں ہوتاہے۔ کرکٹ کو پوری ٹیم کا اجتماعی کھیل بھی کہاجاتاہے اس حوالے سے اگر دو تین کھلاڑیوں کی کارکردگی میں تسلسل نہ رہا ہو تو پھر ”شکوک وشبہات “ جنم لینے لگتے ہیں۔


عالمی کرکٹ میلہ میں پاکستان کی دو ابتدائی شکستوں کو بھی اسی تناظر میں دیکھاجارہا ہے کہاگیا کہ یہ دونوں میچز فکس تھے بعض لوگوں نے کئی دوسری طرح کے نکات بھی سامنے لاناشروع کردئیے ۔میچ فکسنگ کے الزامات کو ہوا یوں ملی کہ پی سی بی کے چیف سلیکٹر معین خان ایک کسینو میں پائے گئے ۔ جہاں دنیا بھر کے فکسر موجودتھے۔ اب پتہ نہیں وہ جوا کھیلنے گئے یادیکھنے؟ یارا ن وطن نے تو کہنا شروع کردیا کہ ”معین خان کی وجہ سے دو میچ فکس ہوئے“ اس بات سے قطع نظر کہ کیا واقعی معین خان جوا کھیلنے یا ”بکنگ “ کیلئے گئے تاہم ان کی کسینو میں موجودگی معنی خیز ضرور ہے ۔

دوسری بات یہ کہ پاکستانی ٹیم کی ابتدائی دومیچز میں چال ڈھال بھی الگ کہانی سناتی دکھائی دیتی ہے۔ ٹیم اس وقت واضح طورپر گروپوں میں منقسم نظرآتی ہے ، شاید یہ اثرات چیف سلیکٹر معین خان اور وقار یونس کی دیرینہ عداوت کاثمر بھی ہوں کیونکہ ماضی میں ”ڈبلیوز“ دوستی کے بعد ایک دوسرے کی مخالفت پر اتر ے تو اس وقت بھی پاکستان کرکٹ ٹیم واضح طورپر وقار اوروسیم گروپوں میں تقسیم نظرآئی۔

موجودہ چیف سلیکٹر معین خان اس وقت وسیم اکرم کے گروپ میں شامل تھے۔ آج معین خان چیف سلیکٹر ہیں اوروقار یونس اس وقت بطور چیف کوچ ٹیم کے ساتھ موجود ہیں۔ چونکہ آسٹریلیا اورنیوزی لینڈ کرکٹرز، ماہرین کرکٹ،جوا مافیا اورکرکٹ شائقین کی توجہ کامرکز ہیں تو ایسے میں کئی سابقہ کھلاڑی اپنے ممالک کی ٹیموں کی حوصلہ افزائی، خصوصی ہدایات کیلئے بھی موجود ہیں۔

ایسے بڑے ناموں میں وسیم اکرم بھی شامل ہیں جنہیں ”کنگ آف سوئنگ“ کے نام سے جاناماناجاتاہے ۔ وہ بھی آسٹریلیا میں موجود ہیں ۔ یہ بات بھی ریکارڈ پرموجود ہے کہ جونہی وہ کسی گراؤنڈ کارخ کرتے ہیں تو کئی بدیسی ٹیمیں ان سے ”باؤلنگ ٹپس“ لینے کو بے تاب نظرآتی ہیں ان کاایک بیان پچھلے دنوں اخبارات میں شائع ہوا کہ وہ پاکستانی ٹیم کو ”ٹپس “دیناچاہتے ہیں مگر ”کچھ لوگوں “ کے چہروں پر میری موجودگی کی وجہ سے لکیریں پڑجاتی ہیں۔

گویا ان کااشارہ چیف کوچ کی طرف بھی ہے۔ اب چیف کوچ اورچیف سلیکٹرکے اثرات ٹیم پر واضح دکھائی دیتے ہیں یہ اثرات اختلافات کی واضح عکاسی کرتے نظرآتے ہیں۔گویا پاکستانی ٹیم پر جوا ریوں کی ”مہربانیوں“ کے علاوہ کچھ اپنوں کی نوازشات بھی اثرانداز ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ یہ بات تو طے ہے کہ پاکستان کیلئے تیسرا میچ ”ڈوآرڈائی“ جیسی اہمیت کاحامل ہے جبکہ باقی ماندہ چاروں میچوں میں کامیابی ہی پاکستان کو آئندہ راؤنڈ میں لے جائیگی بصورت دیگرٹیم کی وطن واپسی یقینی ہوگی۔

یہاں کرکٹ بورڈ کے کارپردان کیلئے ایک مشورہ ہے کہ وہ ٹیم کی سلیکشن کرتے وقت کپتان کو اعتماد میں لیں اورکسی بھی ایونٹ میں بھیجنے کیلئے ٹیم کے ساتھ ”لاؤلشکر“ کو ہمراہ روانہ نہ کریں کیونکہ یہ قومی خزانے کے ضیاع کے مترادف ہے دوسری بات یہ کہ چیف سلیکٹر یا سلیکشن کمیٹی کاکام صرف ٹیم منتخب کرنا ہے اب چودہ یاپندرہ کھلاڑیوں میں سے گیارہ کھلاڑیوں کا انتخاب کپتان پر چھوڑدیناچاہئے تاکہ وہ اپنی مرضی کی ٹیم کے ساتھ میدان میں اترسکیں۔

چیف سلیکٹر اور چار پانچ قسم کے کوچوں کی موجودگی بھی ٹیم کیلئے بھاری ہے ، لہٰذا ماضی کے بہترین کھلاڑیوں /کوچز کو ہی منتخب کیاجائے جس کی ایک مثال جاوید میانداد، انتخاب عالم جیسے شہرہ آفاق کھلاڑی ہیں۔ نیز کوچ اورکپتان کے کمبی نیشن کی بھی کوشش کی جائے کیونکہ دونوں کے درمیان عدم اعتماد کی فضا بھی نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :