گرجا گھروں پر حملہ اور زندہ جلانے کا واقعہ قابل مذمت

جمعرات 19 مارچ 2015

Dr Awais Farooqi

ڈاکٹر اویس فاروقی

افسوس ناک امر تو یہ ہے کہ ملک میں گزشتہ کئی برسوں سے دہشت گردی کے عفریت پر ابھی تک قابو نہیں پایا جاسکا وزیر داخلہ فرماتے ہیں کہ ہم نے دہشت گردوں پر زمین تنگ کر دی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی فرماتے ہیں کہ لاہور میں گرجا گھروں پر حملے غیرانسانی فعل اور دہشت گردی کی بدترین کارروائی ہے۔ ایک ہی سانس میں متضاد بیانات سے قوم کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں اور اگلی سانس میں فرماتے ہیں کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے حکومت کی موثر پالیسی کے باعث ملک میں امن و امان کی مجموعی صورتحال ”بہتر“ ہوگئی ہے۔

ممکن ہے یہ سچ ہو مگر حقیقت وزیر داخلہ کے بیان کے بر عکس دکھائی دیتی ہے کیونکہ وقفے وقفے سے دہشت گرد اپنی سفاکی کا مظاہرہ کسی نہ کسی شہر میں کرتے دکھائی دیتے ہیں کچھ ہی دن پہلے ہائی سیکورٹی زون علاقے پولیس لائن کے باہر ہوئے حملے کے زخم ابھی مندمل بھی نہیں ہوئے تھے کہ لاہور کے ایک لاوارث سے علاقے یوحنا آباد میں مسیحوں کے دونوں فرقوں کے دو چرچز میں ہونے والے خود کش دھماکوں نے جہاں15 افراد کی ناحق جان لی اور سو کے قریب زخمی ہوئے وہیں حکومتی دعوں اور انتظامی مشینری کی ”اعلی کارکردگی“ کی کلی کھول کر رکھ دی ۔

(جاری ہے)

پاکستان میں مسلمان محفوظ ہیں نہ غیر مسلم ۔جبکہ ڈھٹائی دیکھیے ہر دھماکے کے بعد مذمتی بیانوں میں یہ ضرور کہا جاتا ہے کہ ایسا کام کوئی مسلمان یا پاکستانی نہیں کر سکتا جبکہ ہر دہشت گرد حملے کی ذمہ داری مسلمان اور پاکستانی ہی قبول کرتے پائے جاتے ہیں۔
انہی کا لموں میں اس بات کا اظہار کیا جاچکا ہے کہ جب تک کسی مرض کی درست تشخیص نہ کی جائے اس کا اعلاج ممکن نہیں ہوتا ہم اپنے ملک کو لگی بیماری کی درست تشخص کرنے سے قاصر ہیں اسی لئے اس کا علاج بھی نہیں کر پار ہے اور بیماری ہے کہ جان لینے پر تلی بیٹھی ہے۔

دہشت گردی کوئی آسمانوں سے وارد نہیں ہوئی ہمارئے ہی کئے کا بھگتان ہے ہم نے ماضی میں جو پالیسیاں بنائیں آج ان کا خمیازہ بھگت رہے ہیں ۔ مذہبی انتہا پسندی نے معاشرے میں پنجے گاڑ رکھے ہیں اس سے نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آتی اور قومی افق پر کوئی اسی وژنری قیادت بھی نظر نہیں آتی جو اس دیمک کے خاتمے کے لیے جرات مندانہ اقدمات کر سکے ۔
یوحنا آباد کا واقعہ ہمارے لئے بہت سارے سبق لئے ہوئے ہے اور ہمارے کان اور آنکھیں کھولنے کے لئے بھی کافی ہے کہ کس طرح اس واقعے کے فوری بعد ہجوم نے مشکوک جانتے ہوئے دو افراد پر بے پناہ تشدد کیا اور بعد ازاں انہیں زندہ جلا کر خود ہی منصف اور مدعی کا کردار ادا کیا ۔

کیا کسی مہذب معاشرے میں اس طرح کی کوئی مثال ملتی ہے؟ جبکہ پاکستان میں اس طرح کے واقعات اب معمول بنتے جارہے ہیں کیوں؟ ریاست اپنی رٹ کھو چکی ہے جبکہ ریاستی مشینری ناکارہ اور نااہل ہو چکی ہے، عدالتی طریقہ کار سے لوگ متنفر اور مایوس ہوچکے ہیں۔پاکستان میں مسیحی برادری پر توہین مذہب کے الزام میں حملوں کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں تاہم امریکہ میں نائن الیون کے دہشت گرد حملے کے بعد سے یہاں مسیحی برادری کے گرجا گھروں کو شدت پسندی کے واقعات میں نشانہ بنانے کا رجحان بھی شروع ہوا ہے 2001 سے لیکر اب تک مسیحی برادری پر ہونے والے حملے ،بم دھماکے، املاک کو جلایا جانا یا ان کے ساتھ زندہ جلائے جانے کے درجنوں واقعات ہو چکے ہیں مگر رد عمل میں کبھی ایسا دیکھنے میں نہیں آیا جس طرح لاہور میں یوحنا آباد واقعے کے بعد دیکھنے کو ملا جس نے پاکستان کو دنیا بھر میں بد نام کیا۔


ملک ہوں یا معاشرے قانون کی حکمرانی کے بغیر اپنی ساکھ کھو بیٹھتے ہیں اور حکومت کی اس کمزوری کو دیکھتے ہوئے گروہ جتھے مظبوط ہو کر ریاست کی رٹ کو چیلنج کرتے رہتے ہیں۔ سانحہ لاہور جس میں مشتعل ہجوم نے دو بے گناہ افراد پر شہریوں اور پولیس کے سامنے تشدد کیا اور جلا کر مار دیا اپنی سفاکی میں دہشت گردی کی واردات سے کم واقع نہیں ہے اس لئے جہاں اس واقعے میں ملوث افراد کی نشاندہی کر کے انہیں انصاف کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا جانا ضروری ہے تو دوسری جانب بم دھماکوں میں مارے جانے والے افراد کے ساتھ بھی انصاف کیا جانا بہت ضروری ہے ۔

جبکہ اس سے قبل بھی ہجوم کے ہاتھوں ہونے والے واقعات کے مجرموں کو قرار واقع سزا دے کر ریاست کی عملدار کو یقینی بنائے بغیر ہم مہذب معاشرے کے قالب میں نہیں ڈھل پائیں گے اور حکومت کو قانون کی حکمرانی قائم کرنے کے لئے ریاستی مشنیری کی انسانی بنیادوں پر تربیت کے ساتھ اس طرح کے واقعات سے نمٹنے کی صلاحیت میں اضافہ کرنے پر بھی توجہ دینی ہو گی اور اسکے ساتھ ہی عدالتی نظام کی مکمل اوور ہالنگ کا بھی وقت تقاضا کر رہا ہے۔

جبکہ انتہا پسندانہ رویوں میں اضافہ کرنے والے اسباب کے خاتمے کے لئے ملکی نصاب اور نفرت انگیز تقاریر اور لٹریچر کا خاتمہ بہت ضروری ہے، تحمل اور رواداری پر مبنی معاشرے کے قیام کے لئے جہاں حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے وہیں معاشرے کے اندر بھی تبدیلی کے لئے کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔
دوسری جانب مسیحی برادری کے ساتھ ہونے والے ہر دہشت گردی کے واقعے کے بعد پاکستان کی اکثریت ان کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتی پائی جاتی ہے بلکہ ان کے ساتھ شانے سے شانہ ملائے احتجاج بھی کرتی رہی ہے سانحہ یوحناآ باد کے بعد بھی اس واقعے کی مذمت بھی کی گئی اور مجرموں کو قرار واقع سزا دینے کی بات بھی سامنے آئی لیکن اس کے ساتھ ہی مشتعل ہجوم کے ہاتھوں دو افراد کے زندہ جلائے جانے کے واقعے نے مسیحی برادری کے کیس کو کمزور کیا ہے اور عوام کی ہمدردیوں کو بھی قد غن لگائی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ مسیحی براداری کے تمام بڑوں کو سر جوڑ کر بیٹھ کر اس واقعے کا تجزیہ کرنا چاہیے کہ یہ کیوں ہوا اور کرنے والے کون ہیں کیا ان کی صفوں میں سماج دشمن عناصر تو نہیں گھس آئے کیونکہ مظلوم کے ساتھ ساری دنیا ہوتی ہے جبکہ ظالم کا ہمائتی کوئی نہیں ہوتا ۔

علاوہ ازیں حکومت کو رٹ آف سٹیٹ کو قائم کرتے ہوئے ہر مظلوم کو انصاف میا کرنا چاہے اور اس طرح کے واقعات آئندہ نہ ہوں ان کی روک تھام کے لئے مربوط کوششیں کرنی چاہیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :