یوم پاکستان

بدھ 25 مارچ 2015

Abdul Raheem Anjaan

عبدالرحیم انجان

یوم پاکستان ہمارا قومی تہوار ہے۔جسے جتنی خوشی سے منایا جائے ، وہ کم ہے، لیکن یوم پاکستان کے تفصیلی ذکر سے پہلے ایک خوشی اپنے اُن پاکستانی بہن بھائیوں سے شیئر کرنا چاہتا ہوں۔جن کی پارٹی پاکستان اور پاکستان کے غریب لوگ ہیں ۔۲۳۔مارچ ۱۹۴۰ ء ء ہی کی طرح، آج ۲۳ مارچ ۲۰۱۵ ء ء کے دن بھی ایک سچائی کو فتح نصیب ہوئی ہے،چند سطور اُس کے لئے کہ سچائی کی اُس جیت نے جھوٹ اور طاقت کے غلط استعمال کا مُنہ کالا کر دیا ہے۔

میرا اشارہ مبشر لقمان کے پروگرام ” کھرا سچ“ کی بحالی کی طرف ہے۔جسے محض حکمرانوں کے خلاف سچ بولنے کے جرم میں ایک نادار شاہی حکم کے تحت بند کر دیا گیا تھا ۔ مجھے پاکستان میں پاکستانیوں پر اس نادر شاہی حکم کا ردِ عمل کیا ہوا تھا ؟ کے بارے میں کچھ ٹھیک سے معلوم نہیں ہے،لیکن بیرون ملک پاکستانیوں کی اکثریت نے ”کھرا سچ “ کے بند ہونے پر گہرے رنج و ملال کا اظہار کیا تھا،ہم دوستوں کا ایک گروپ ہے، ہم لوگ پنجگانہ نماز کی طرح بڑی با قاعدگی کے ساتھ پاکستان کے تما م ٹالک شو دیکھتے ہیں۔

(جاری ہے)

ہمارے سبھی لیڈران باتیں تو خوب کر لیتے ہیں اور پاکستان کے سیدھے سادے عوام کے سامنے باتیں کرتے ہوئے اکثراپنے اعمال کی سیاہی کو بھول جاتے ہیں۔ جیسا کہ شاید دو تین دن پہلے،میاں نواز شریف صاحب سیالکوٹ کے کسی علاقے میں بڑی معصوم سی صورت بنائے کہہ رہے تھے۔”مجھے جھوٹ بولنے کی تو عادت نہیں ہے۔“ اس کے ساتھ ہی موصوف نے کچھ تابڑ توڑ غلط بیانیاں کرتے ہوئے لوڈ شیڈنگ کا ذکر کیا۔

پھر اپنے پچھلے دور میں ملک میں تعمیر و ترقی کا ذکر کرتے ہوئے عوام سے سوال کیا۔”آ خر ان فوجی آمروں نے قوم کو کیا دیا ہے ؟“ اچھی بات یہ ہے کہ ہم دوستوں کا گروپ جس گھر میں بیٹھتا ہے۔وہ ایک چھڑے دوست کا گھر ہے جہاں ہمیں اپنے پنجابی پن کا مظاہرہ کرنے یعنی اپنے دل کے پھَپھولے پھوڑنے کی مکمل آزدی ہوتی ہے۔ایک صاحب نے اپنے دل کا ایک پھَپھولا پھوڑتے ہوئے کہا۔

”میاں صاحب ! فوجی آمروں نے قوم کو آپ کی ذات شریف اور الطاف حسین دیا ہے۔ “ بہر کیف ذکر تھا۔ ”کھر اسچ “ پر بندش کا۔جس کے بعد ہمیں ایسے لگا جیسے کوئی بہت بڑی گائڈنگ لائٹ بجھا دی گئی ہو۔ الحمد اللہ ! کہ وہ گا ئڈنگ لائٹ واپس روشن ہو گئی ہے۔کسی بھی ظالم حکمراں کے سامنے سچ بولنا بہت بڑا جہاد ہے۔ہماری دُ بولنے کی ہمت سے سرفراز کرتے رہیں اور اسے اپنی پناہ میں رکھیں۔

آمین۔
یوم ِ پاکستان ہمارا قومی تہوار ہے۔جس دن جتنی خوشی منائی جائے ، جتنے بھی شادیانے بجائے جائیں وہ کم ہیں۔آج سات سال کے بعد یوم پاکستان کی ایمان افروز پریڈ دیکھتے ہوئے ، ہوا کی تحریک سے پھولوں کی پتیوں پر لرزنے اور بے گھر ہونے والے شبنم کے قطروں کی طرح، فخر و انّبِساط اور ملّی جذبات نے آنکھ سے کتنے ہی آنسووٴں کو بے گھر کر دیا ہے ۔


ماشا اللہ ! ”جے ۔ایف“ تھنڈر طیاروں کی گھن گرج ، لڑاکا طیاروں کی سلامی ، اور شاید پہلی بار نیوکلیئر میزائل سسٹم کی نمائش نے دل و دماغ پر قومی پرائڈ کا اک عجب سا نشہ طاری کر دیا۔یہ وہی نشہ تھا جو ہماری ساری قوم پر ۶۵ ۱۹ ء ء کی جنگ میں طاری ہو گیا تھا۔ ہمیں اپنے فوجی جوانوں اور اُن کی قوت ایمان پر اتنا بھروسا تھا کہ دشمن کا ڈر یا خوف کسی کو چھو کر بھی نہیں گزرا تھا۔

بلکہ اہلیان لاہور کا نڈر ہونا ہمارے ہوا باز شاہینوں کے لئے مسئلہ بن گیا تھا۔جب بلیک آوٹ کے سائرن بجتے تو لوگ پناہ گاہوں میں چھپنے کے بجائے اپنے گھروں کی چھتوں پر پہنچ جاتے اور ہمارے شاہین دم دبا کر بھاگتے ہوئے دشمن کے طیار و ں پر نشانے ہی باندھتے رہ جاتے ، اہلیان لاہور میں سے کسی کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے ، کے خوف سے ، دشمن کے طیاروں پر فائر نہ کر پاتے۔

ایک دن نیپا کے آفس میں نیپا کے ڈائریکٹر ایم۔ اے۔کے بیگ کے پاس بیٹھا تھا کہ ُانہیں اُن کے کسی دوست نے فون کیا کہ الفلاح بلڈنگ پر دشمن کے کسی طیار ے نے حملہ کر دیا ہے۔ میں ایسٹرن فیڈرل انشورنس کمپنی میں اپنے بڑے بھائی عبدالقیوم فارانی کے ساتھ انشورنس ایجنٹ کی حیثیت سے کام کرتا تھا۔ اور ای۔ایف۔یو کا آفس الفلاح بلڈنگ ہی میں تھا۔میں نے فوراً بھائی فارانی ( مرحوم ) کو فون کیا۔

انہوں نے بتایا کہ دو طیارے یہاں سے گزرے ہیں، گمان یہی ہے کہ ایک انڈین طیارہ تھا، جس کے پیچھے ہمارا طیارہ لگا ہوا تھا،اُن دونوں کی دھمک سے کچھ کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے ہیں۔ الغرض آج اپنے قابل فخر اور چاق و چو بند جوانوں کی پریڈ دیکھ کر وہی ستمبر ۶۵ والا اپنی قومی طاقت کا نشہ طاری ہو گیا، جو ، چین کی مدد سے تیار کئے گئے ( بڑھاپے نے جہاں اور کئی شعبوں کو متاثر کیا ہے، مثلاً جہاں بیٹھ جاوٴں ، بقول غالب# کے دیوار کی طرح اٹھتا ہوں، یاداشت کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔

چند لمحے پہلے سنے ہوئے طیارے کا نام بھول گیا ہوں۔شاید جے،ایف تھنڈر تھا ) طیارے کے بارے میں جب یہ بتایا گیا کہ یہ طیارہ ہم نے خود چین کی مدد سے بنایا ہے ، تو یہ سن کر اپنی طاقت کا نشہ خوشی و مسرت کے آنسو بن کر آنکھوں میں چھلکنے لگا۔ دوست وہ جو مچھلی پکڑنے کا سامان دے،جو دوست فاقے ٹالنے کے لئے مچھلی دے ، وہ دوست نہیں ، دوستی کے نام پر تہمت ہے۔

مجھے جے۔ایف۔تھنڈر کی موجودگی پر خوشی اس لئے ہوئی کہ وہ ہم نے اپنے ایک دوست کی مدد سے خود بنایا ہے۔ دل سے بے اختیار دُعا نکلی کہ اللہ ہماری عزت کے رکھوالوں اور اُن کی طاقت کو تا قیامت سلا مت رکھے۔آمین۔
پریڈ کی پُر وقار اور انتہائی منظم تقریب کے دوران ایک مقام پر پس پردہ ایک ترانہ بھی پڑھا گیا جس کے چند اشعار ہی یاد رہ سکے ہیں۔
تیرے کھیتوں کا سونا سلامت رہے
تیرے شہروں کا سکھ تا قیامت رہے
تا قیامت رہے یہ بہارِ چمن
اے میرے وطن اے میرے وطن
تیرے بیٹے تیری آبرو کے لئے
یوں جلائیں گے اپنے لہو کے دیّے
مجھے اس ترانے کے سارے شعر یاد نہیں رہے۔

لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ ایک ایٹمی طاقت کے حامل ملک کے بیٹوں کو کسی بیرونی دشمن کے لئے اپنے لہو کے دیّے جلانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔انشا اللہ ! البتہ ملک کو اس کے پاوٴں پر کھڑا کرنے کے لئے اندرونی دشمنوں کا صفایا ضروری ہے ، جو ہماری اپنی صفوں میں چھپے ہوئے ہیں۔ اگر دہشت گردی ہماری معیشت کو تباہ کر رہی ہے تو لوٹ کھسوٹ دہشت گردی سے بھی زیادہ ہماری معیشت کو تباہ کر رہی ہے اور ان دونوں محاذوں پر ایک سنگدلانہ جہاد اور ایسے انصاف کی ضرورت ہے۔

۔جو نظر بھی آئے۔
ذوالفقار علی بھٹو کو ایک ایسے قتل کے مقدمے میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا۔جس میں جسٹس (ر) حلیم کے بقول کوئی گواہی نہیں تھی۔ ہم نے یہاں نکسن کے دور میں امریکی اٹارنی جنرل مسٹر ریمزے کلارک کو بلایا تھا۔جنہوں نے سپریم کورٹ میں بھٹو کے خلاف مقدمے کے ایک چشم دید گواہ کی حیثیت سے کہا تھا۔
” بھٹو کا کیس اگر کسی امریکن عدالت میں چلایا جاتاتو پہلی ہی پیشی پر انہیں با عزت بری کر دیا جاتا۔

بھٹو (شہید) کیس کے پینل کے ایک جج جناب دراب پٹیل نے بھی یہی کہا تھا کہ بھٹو کا مقدمہ عدلیہ کے دامن پر ایک بد نما داغ ہے۔
اب ماڈل ٹاوٴن میں کم و بیش چودہ انسانوں کے قتل اور ۸۰ کے قریب لوگوں کے زخمی ہونے کا مقدمہ عدلیہ کے دامن پر بد نما داغ بن کر ساری قوم کے لئے شرم و ندامت کا باعث بنا ہوا ہے۔میں سرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ انصاف وہ جو نظر آئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :