”ارتھی کب اٹھے گی“

بدھ 25 مارچ 2015

Azhar Thiraj

اظہر تھراج

”ارتھی کب اٹھے گی“چونکیے مت،مجھے بھی چار لفظوں کا یہ جملہ ننھی زبان میں سن کر جھٹکا لگا تھا،میت کی ”ارتھی“کہاں اٹھی؟ایسے لگ رہا تھا کہ ہماری غیرت،حمیت،ثقافت کا جنازہ ہی نکل گیا۔ایسا تو ہونا ہی تھا!
جب ہمارے ”لاڈلے“ گھر،گھر میں گھسی ہندی ثقافت کو ٹی وی چینلز پر دیکھیں گے،جب ہندو ناریوں اور سورموں کو پھیرے لیتے پائیں گے تو نکاح کا خیال کہاں آئے گا،بچے تو بچے رہے بڑوں میں بھی غیروں کا رنگ چڑھتا جا رہا ہے،ان کا فیشن،ان کی باتیں،انہی کا رسم و رواج۔

اب تو کچھ ”بگڑے“ بھائی منہ بولی بہنوں سے راکھی بندھوانے میں بھی شرم محسوس نہیں کرتے۔بالوں کی ایسی تراش خراش کرواتے ہیں کہ آپ بندے اور بکرے میں فرق ہی بھول جائیں۔
جو بڑا ذرا سمجھانے کی بات کرے تو اسے جاہل یا پرانے خیالات کا کہ کر چپ کرادیا جاتا ہے”وڈا آیا مولوی! ہم سب جانتے ہیں“
ہمارے اپنے میڈیا میں ایسے ایسے مناظر دکھائے جاتے ہیں کہ الحفیظ الامان۔

(جاری ہے)

وہی ہندی اداکار،انہی کے اشتہار۔بے حیائی کا سامان گھر گھر میں موجود ہو تو کسی غیر کو گناہگار قرار نہیں دیا جا سکتا۔
میڈیا پر ایسے ایسے سمارٹ چہرے لائے جا رہے ہیں، جو بظاہر دینی و دنیاوی معلومات سے بھی آگہی رکھتے ہیں، خوبرو اور جواں سال بھی ہیں، جدید طرزِ زندگی کی تمام سہولتیں اور آسائشوں کے خوگر بھی ہیں، ان کا کسی انتہا پسند یا دہشت گرد تنظیم سے بھی کوئی تعلق نہیں، عوامی سطح پر ان کی پذیرائی بھی ہے مگر جب وہ گفتگو کرتے یا کرواتے ہیں تو لگتا ہے گویا آگ لگانے کی کوشش کر رہے ہوں۔


ریٹنگ کے منحوس چکر نے ہم کو سب کچھ بھلا دیا ہے۔ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے چکر میں ہم اخلاقیات کے دائرہ سے بھی باہر ہوگئے ہیں۔بھائی! دین کے نام پر گلہ کاٹنے والے دہشتگرد ہیں تو یہ جو ہماری ثقافت پر حملہ آور ہیں یہ بھی تو دہشتگرد ہیں،بندوق اٹھانے والے سخت گیر دہشتگرد ہیں تو یہ زبان سے بم چلانے والے والے کیا ہیں؟
اس وقت تو ضرورت تھی کہ انتہا پسند نظریے کے خلاف اعتدال پسندی اور رواداری کو فروغ دینے والی اسلامی روایات کو زیادہ نشریاتی سپیس ملتی۔

مگر ہو یہ رہا ہے کہ اس خلا کو اعتدال پسندی کی پوشاک پہنے انتہا پسند تندہی سے پر کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور انھیں چیلنج کرنا تو کجا ان کی سرزنش کرنے والا بھی کوئی نہیں۔ نہ ان کے اپنے اداروں میں اور نہ ہی ضابطہ اخلاق نافذ کرنے کے دعویدار۔ جس سے بھی پوچھو یہی کہتا ہے، او چھڈو جی ان زہریلوں کے منہ کیا لگنا آپ اپنے کام سے کام رکھیں۔
کام سے کام کے چکر میں ہم ہائبرڈ قوم بن گئے،قلم کی جگہ بندوق نے لے لی،شلوار قمیض کی جگہ ساڑھی آگئی،رشتوں میں نفرت،لہجوں میں کرختگی گھس آئی،مذہب کے نام پر قبروں کی پوجا،مرض کے علاج کیلئے تعویز گنڈوں کا سہارا،نیچے جین،اوپر کرتا اور سر پر سکارف۔

آدھا تیتر آدھا بٹیر۔بات فیشن تک رہتی تو ہضم کرلیتے،بات تو بہت آگے نکل چکی ہے،زمانہ قدیم میں انسان ننگا رہتا تھا،آہستہ آہستہ سمجھ گیا اور جسم کو ڈھانپنا شروع کردیا۔پھر بہترین لباس ملبوس کیے تو اور مہذہب ہوگیا اگر پھر زمانہ قدیم کی برہنگی اختیار کرلیں تو یہ ترقی تو نہ ہوئی نا۔تنزلی ہوئی،ایسی تنزلی جس میں رسوائی ہی رسوائی ہے۔نام نہاد ماڈرن بڑھتے ہوئے جرائم پر تنقید کرتے کرتے مولوی اور مذہب کو گھسیٹ لاتے ہیں کبھی اپنے گریبان میں جھانکیں کہ ان کا سبب کیا ہے۔ٹافی ننگی ہو تو مکھیاں تو چاٹیں گی،تم اپنی نسل کو اپنی اقدار سے دور لے جاؤ گے تو ارتھیاں تو اٹھیں گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :