جذباتی گھٹن

جمعہ 27 مارچ 2015

Manzoor Qadir Kalru

منظور قادر کالرو

پرانے لوگوں کا خیال ہے کہ کھلاؤ سونے کا نوالہ مگر دیکھو شیر کی آنکھ سے۔وہ اس نظرئیے کی وجہ سے گھر میں بھی حاکم بنے رہتے ہیں۔ایک دہشت سی پھیلائے رکھتے ہیں۔اپنی اولاد سے زیادہ بات چیت نہیں کرتے اور نہ اُن کو زیادہ بات کرنے دیتے ہیں۔اُن کا موقف اُن کی رائے سننا تو درکار انہیں دھتکارے رکھتے ہیں۔محبت دینا تو دور کی بات وہ سمجھتے ہیں کہ نرمی سے بولنے سے بھی بچے خراب ہو جاتے ہیں۔

ایسے والدین بچے میں ڈر اور خوف کو ضروری سمجھتے ہیں ۔
ڈکٹیٹر والدین یہ نہیں جانتے کہ جھجھک اور خوف جس کو بچے کی پرورش کے لئے وہ ضروری سمجھ رہے ہوتے ہیں وہی بچے کا قاتل ہوتا ہے۔مسلسل اس احساس سے بچے کی شخصیت کی تخریب اور شکست و ریخت شروع ہو جاتی ہے۔وہ جذباتی گھٹن میں مبتلارہتا ہے اور اس وجہ سے ہر وقت اُس پر گھبراہٹ طاری رہتی ہے۔

(جاری ہے)

بچے کویوں محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی حادثہ ہونے والا ہو۔اُس میں زندگی کے چیلنجوں سے مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں رہتی۔بچے میں نہ اعتماد رہتا ہے اورنہ ہی ر قوتِ فیصلہ رہتی ہے۔
بچہ جذباتی گھٹن دور کرنے کے لئے یاتو فلمیں دیکھتا ہے یا پھر لذت پرستی کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔وہ لذت پرستی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ وہ عیاشیاں کرنے لگ جاتا ہے ۔ وہ ان دوستوں میں اُٹھتا بیٹھتا ہے جو اُس سے رقم خرچ کروانے کی خاطر اُس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

خوشامدی اور مطلب پرست اُسے آنکھوں پر بٹھاتے ہیں کہ تُو تو بڑے کھلے دل کا شاہ خرچ ہے۔ جب گھر والوں کو پتہ چلتا ہے تووہ اُس کا جیب خرچ بند کر دیتے ہیں لیکن تب تک وہ بہت دور نکل چکا ہوتا ہے۔ وہ چوریاں کرنے لگ جاتا ہے ۔
گھریلو گھٹن کی وجہ سے بچوں میں خود فریبی پیداہوجاتی ہے۔خود فریبی کی وجہ سے نوجوان اپنے آپ کو وہ کچھ سمجھنے لگ جاتے ہیں جو کچھ وہ نہیں ہوتے۔

وہ حقائق سے منہ پھیر کر خیالی دنیا میں بسنے لگتے ہیں۔ ان کی ذہنی نشو و نما رک جاتی ۔ ایسے بچوں کا انداز اور سوچیں مصنوعی ہو جاتی ہیں۔وہ ہر وقت گھبرائے گھبرائے سے رہتے ہیں اور غصے سے بھرے رہتے ہیں۔
جن بچوں کو بچپن میں ڈانٹ ڈپٹ کی جاتی رہتی ہے اور کُھل کر بات نہیں کرنے دی جاتی وہ بڑا ہونے پر فرار کے راستے ڈھونڈنے لگ جاتے ہیں۔ذمہ داریوں کو قبول نہیں کرتے۔

کوئی بڑا کام سر انجام نہیں دے سکتے۔انہیں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اُن کے ہاتھ پاؤں رسیوں سے باندھ دئیے گئے ہوں۔اُن میں گرہیں کھولنا تو درکنا، رسیاں توڑنا تو درکنا، اُن میں گرہوں کو کھولنے کی سوچ ہی ختم ہوجاتی ہے۔اُن میں آگے بڑھنے کچھ کر دکھانے کی امنگ ہی ختم ہو جاتی ہے۔مسلسل شکست خوردہ سوچیں سوچتے رہنے کی وجہ سے یہ بچے سوچنے لگتے ہیں کہ مجھ میں کچھ کر دکھانے کی اہلیت ہی نہیں ۔


بچپن کی لعن طعن کی وجہ سے بچے کی روح بنجر ہو جاتی ہے۔ اُسے یہ یقین ہو جاتا ہے کہ وہ کسی محبت کے قابل نہیں۔محبت فیول ہوتا ہے اور اس فیول کی بدولت زندگی کی گاڑی چلتی ہے۔جوان ہونے پر اُسے ملنا ملانا ہوتا ہے ، اُسے لین دین کرنا ہوتا ہے۔ایسا صرف زرخیز دماغ ہی کر سکتا ہے۔اپنی ذات پر یہ اعتماد کہ میں یقینا محبت کے قابل ہو ں ہی اُسے تعلقات رکھنے کے لئے مجبور کرتا ہے۔

اس احساس کی عدم موجودگی سے وہ معاشرے سے کٹ کر رہنے لگتا ہے۔
مسترد کر دئیے جانے کا خوب یا ناپسندیدہ قرار دئیے جانے کا خوف تنقید یا لعن طعن سے پیدا ہوتا ہے۔۔قبول کئے جانے کے یقین یا مسترد کئے جانے کے یقین کی بنیادیں بچپن میں پڑتی ہیں ۔جب والدین بچوں سے منفی قسم کی توقعات وابستہ کرتے ہیں تو ان میں مسترد کئے جانے کا خوف پیدا کرتے ہیں۔

والدین جب بچے کو اُلو گدھا نالائق جیسے الفاظ سے نوازے ہیں تو اُس میں یقین پیدا ہوتا جاتا ہے کہ وہ ناپسندیدہ ہے۔ایک ماہرِ نفسیات نے ایک جیل میں قیدیوں کے انٹر ویو کئے تو ان میں سے نوے فیصد قیدیوں کا کہناتھا کہ بچپن میں ہی ہمارے والدین کہتے رہتے تھے کہ تم ایک دن ضرور جیل میں جاؤ گے۔جن بچوں کے والدین اُن سے مثبت توقعات رکھتے ہیں اور اُن کے لئے عمدہ الفاظ بھی بولتے ہیں کہ میں آپ سے محبت کرتا ہوں، آپ بہت اچھے بچے ہیں، آپ زندگی میں بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کریں گے تو اُن کے بچے بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کرتے ہیں ۔


اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے میں جوان ہونے پر یہ احساس رہے کہ میں کامیابیاں حاصل کرنے کی اہلیت رکھتا ہوں، میں کچھ نیا کر دکھانے کی اہلیت رکھتا ہوں، میں شفقت و محبت دینا اور لینا جانتا ہوں۔ میں عزت کے قابل ہوں اور میں عزت دینے کے فن سے بھی واقف ہوں۔ میرے اندر خداداد قوتیں اور صلاحیتیں موجود ہیں، میں زندہ دل ہوں تو اپنے بیٹے سے محبت کیجئے اور یہ محبت خاموش محبت نہ ہو بلکہ اس کے لئے الفاظ استعمال کیجئے۔ اپنے بیٹے کو احساس دلائیے کہ آپ اس سے محبت کرتے ہیں، اس کی رائے لیجئے اور اس رائے کو اہمیت دیجئے۔اس کی عزت کیجئے اور وہ عزت اتنی مقدار میں ہو جتنی آپ اپنے علاقے کے ایم این اے کی کرتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :