میں نے مگر دیدہ حیراں نہیں دیکھا

اتوار 29 مارچ 2015

Sajid Khan

ساجد خان

جناب سرفراز شاہ کے ہاں تقریباََ ہر ہفتے ایک بیٹھک ہوتی ہے۔ اٹھ دس لوگ شاہ صاحب کے مودات سنتے ہیں۔ بات سے بات نکلتی ہے کچھ سابق فوجی بھی شاہ صاحب کی محبت کے اسیر ہیں۔ اس دفعہ سینٹ کے حالیہ الیکشن کے نتائج ابتدائی گفتگو میں زیرِ بحث آئے۔ عمران خان نے بھی خاصی عقلمندی کا ثبوت دیا۔ مگر وزیراعظم نواز شریف یا ان کے مشیران مولانا فضل الرحمٰن کو اپنے ڈھب پر نہ لا سکے اور مولانا کو بھی آصف علی زرداری نے آچک لیا۔

میان نواز شریف کو اندازہ تھا کہ عمران خان پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا اور اپنے پرانے حلیفوں کے ساتھ چلنا بھی ضروری تھا۔
جب رضا ربانی کا ذکر آیا تو شاہ صاحب نے ایک نیا انکشاف کر دیا۔ کافی عرصہ پہلے کراچی میں جناب رضا ربانی کی ذوجہ محترمہ شاہ صاحب سے ملنے آئیں تھیں۔

(جاری ہے)

اس وقت انہوں نے اپنے شوہر کے لئے دعا کی درخواست کی تھی ۔ اگرچہ اس بات کو کافی عرصہ ہو چکاہے مگر شاہ صاحب کو وہ ملاقات یاد تھی۔

سب لوگ حیران تھے۔ اور شاہ صاحب سے پوچھنے لگے تو آپ کو رضا ربانی کا مستقبل کا پتا تھا ۔
سرفراز شاہ اس سوال پر مسکرائے اور پھر دھیمے انداز میں بولے۔ بھائی میں تو دعا کر سکتا ہوں اور دعا کر دیتا ہوں۔مولا کا کرم ہے وہ لاج رکھ لیتا ہے۔ میں نے ان کی بیگم سے کہا تھا زرا انتظار کرنا پڑے گا نتیجہ ضرورملے گا۔ مجھے خیال آیا رضا ربانی بے نظیر کی زندگی میں اصف علی زرداری کے بہت قریب تھے اور آصف علی زرداری نے سینیٹ کی ٹیکنوکرئٹ کی سیٹ کیلئے بے نظیر سے سفارش بھی کی تھی۔

مگر بعد میں کیا ہوا کہ رضا ربانی کے کاغذات مسترد ہوگے اور بے نظیر کے قریبی دوست سید اقبال حیدر سینیٹ کے ممبر منتخب ہو گئے۔ رضا ربانی ایک ہردل ترقی پسند شخص ہیں ٹریڈ یونیٹ ذہن کے مالک ہیں انہوں نے ایک اصول پرست شخص کی حیثیت میں نام کمایا مگر کس طرح وہ آصف علی زرداری کی الفت کا شکار ہو گئے وہ حیران کن نہیں۔ زرداری دوست نواز ہیں۔ او ان کو معلوم تھا کہ رضا ربانی کے سر جناب اعجاز بٹ سابق چیرمین پاکستان کرکٹ بورڈ پیپلز پارٹی کے بہت قریب تھے۔

جب سر جی بے نظیر بھٹو اور آصف کے مشاور نظر ہوں تو دامان جی کیلئے عزت اور وقار ضروری ہے سو آصف علی زرداری نے میاں صاحب کو بھی مجبور کر دیا کہ وہ رضا ربانی کیلئے ان کے ہمنوا بن جائیں۔ پھر جمہوریت کی بقا کے لئے اور حالات کے گرد اب سے بچنے کیلئے سینٹ کا چیرمین ایک جیالا اور برکی کا ہونا ضروری تھا لو گ ٹھیک ہی کہتے ہیں۔ آصف علی زرادی مرد شناس تو نہیں مگر بندہ شناس ضرور ہیں جو ان کی بندگی کر سکے۔


میں اپنے خیالات میں غم تھا۔ کہ بات بت پرستی کے حوالہ سے ہو رہی تھی۔ کچھ عرصہ پہلے افغانستان میں طالبان نے ایک ثقافتی درئے کے بتوں کو مسمار کر دیاتھا۔ اور اس کا کافی شور بھی مچا اسلم میں بت پرستی منع ہے۔ بت پرستی کا مطلب ہے کہ آپ کو رب پر یقین نہں اس ہی وجہ سے ان بتوں کو مسمار کیاگیا۔ میرا سوال تھا۔ جب وہ عبادت کے لئے نہیں تھے تو پھر ان کو کیوں مسمار کر دیاگیا۔

جناب شاہ صاحب کا کہنا تھا اسلامی نقطہ نظر سے تو بالکل مناسب ہے۔ میں نے سوال داغ دیا کہا اسلام کا کوئی ثقافتی ورثہ ہے۔ تمام لوگ میرے سوال پر حیران تھے۔ ڈاکٹر خالد نے کہا ہاں کیوں نہیں۔ اسلام کا ثقافتی ورثہ ہے ۔ روحانی سلسلے اس ہی ثقافتی ورثہ کے حوالہ سے ہیں روحانی سلسلے ثقافتی تو ہو سکتے ہیں۔ مگر ان کو ورثہ نہیں کہا جا سکتا ۔
بات پھر بتوں پر ہونے لگی ہمارے ہاں بھی کچھ بت نظر آتے ہیں۔

میں نے سوال کیا ۔ ہاں وہ مذہبی بت نہیں۔ بلکہ وہ ان لوگوں کی یاد کے حوالہ سے ہیں جنہوں نے کوئی خدمت سر انجام دی۔ پھر بھروانہ صاحب نے گنگارام کا حوالہ دیا۔ کہ اس نے لاہور میں ماڈل ٹاون کی آبادی کا نقشہ بنایا۔ گنگارام ہسپتال اس نے بنوایا۔ ایسے میں ان کی خدمات کا اعتراف ضروری ہے۔
میرا سوال تھا کہ بتوں کو توڑنے اور مسمار کرنے میں کیا فرق ہے۔

سب لوگ میرے سوال پر مسکرائے میں نے کہا’شاعر نے کیا خوب کہا تھا
اگرچہ بت ہیں ممامحبت کی استینوں میں
مگر مجھے ہے حکم ازان لا
اس کا تو یہ مطلب ہے کہ ہم سب کے بت علیحدہ علیحدہ ہیں۔ پھر بت اور مجسمہ میں کیا فرق ہے۔ شاہ صاحب بولے یہ تو ایک علمی بحث کا نقطہ ہے۔ میں نے پھر سوچا۔ یورپ میں بی بی مریم کا مجمسہ بہت مقبول ہے۔ وہ اس کو بت کی طرح کا درجہ نہیں دیتے۔

وہ اس کو پوجتے نہیں۔ مگر وہ اس کو برکت کا باعث خیال کرتے ہیں۔ کسی اسلامی پیغمبر نے کبھی پوجا پارٹ نہیں کی یہ وطیرہ تو ہندو دھرم کا ہے جہاں بتوں کا انت نہیں ان کے دیوتا کئی روپ رکھتے ہیں پھر ان کے سمندوں میں پتھر اور پتیل کے بتھوں کے آگے سجدہ بی کیا جاتا ہے ہمارے ہاں اس لئے بتوں کو توڑا جاتا کہ اگر وہ پر ماتما ہیں تو انتے بے بس اور لاچار کیوں ہیں اور ویسے بھی ی شرک ہے کہ کسی مسلمان اور اہل کتاب کے لئے جائز نہیں ہے۔


محترم ڈاکٹر خالد کا کہنا تھا کہ اسلام کا ثقافتی ورثہ روحاینت ہے ہمارے ہاں قبر پرستی کا ثقافتی ورثہ کیا جاسکتاہے۔ اسلام کا ثقافتی ورثہ انسانیت ، خلوص نیت، برداشت، اور بندگی میں ہے۔ اس کی علیحدہ کوئی شکل نہیں۔ ثقافت سے دین سے دین متاثر نہیں ہوتا۔ ثقافت کسی کو عبادت سے نہیں روکتی۔ ہاں اس معاملہ میں مسلمان کے ہاں اعتماد کی بڑی گنجائش ہے۔

مگر ہمارے ہاں مسلک اور فرقہ بندی نے تحقیق اور حکمت کی راہ بند کر رکھی ہے۔ دنیا بھر میں انسانوں کے لئے روپ اور بھروپ ہیں ۔روپ اور بھروپ کسی ثقافت، تاریخ، ورثہ ، روایت،کو نہیں مانتے۔ روپ اور بھروپ کی وجہ ہمارے اند ر کا حیوان ہوتا ہے۔ کہاجاتا ہے کہ ادبی کے اندر کوئے، مرغ، مور ، وغیرہ کی خصوصیات ہوتی ہیں۔ اس ہی کے کارن آدمی ہوتا کچھ ہے اور نظر کچھ آتا ہے۔

کوا ایک لالچی پرندہ ہے کسی اور جانور کو پرندے کو کھانے نہیں دیتا۔ پھر مرغ کو دیکھیں انتہائی شہوت پرست ایک مرغ کتنی مرغیوں پر حاوی رہتا ہے۔مور انتہائی خود پسند اور خود پرست، یہ سب کردار ہمارے معاشرے میں عام نظر آتے ہیں پھر دوسری طرف فقرا، صوفی، پیر، درویش، یہ سب لوگ معاشرے میں امن اور مشافتی کے عمل برادر ہوتے ہیں ان کے زیر سایہ لوگ رب کے راستے کو آسان کر لیتے ہیں مگر یہ ضروری ہے کہ آپ کو کوئی حق اور صحیح بنانے والا ضرور ہو۔

ہمارے معاشرے میں زیادہ لوگ گونگے اور بہرے ہیں۔ اسلئے حق اور سچ کا پرچار نظر نہیں آتا۔ پھر جمہورکا زمانہ ہے سو جو سچ پر ہو جمہوری دستور اس کو حق نہ مانے۔ ایسے میں کوئی صوفی یادرویش کیا کرے۔ ہمارے ہاں دعا اور خواہش میں زیادہ فرق نہیں ہم سب دعاوں کے طالب ہوتے ہیں جو ہماری خواہشات کے لئے ہوتی ہیں۔ دعا تو سلامتی کا دوسرا نام ہے۔ اب کہاں سلامتی کہاں برداشت ۔ میں ان سوچوں میں گم تا کہ شاہ صاحب کی آواز آئی۔ یہ ”لوح حقیر“ آپ کے لئے۔ میں ان کے احسان تلے آگیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :