سوال ؟ ایبٹ آباد سے ایک پیغام

منگل 31 مارچ 2015

Sabookh Syed

سبوخ سید

یہ میرے لیے ایک حیران کن مشاہدہ تھا جس نے مجھ سمیت پورے ماحول کو ایک خوشگوار حیرت میں بدل ڈالا ۔چناروں اور اسکولوں کے شہر ایبٹ آباد میں ادارہ تعلیم و تحقیق نے مختلف المسالک ومذاہب کے علماء کرام کے ساتھ دو روزہ ورکشاپ کا انعقاد کیا ۔ میری زندگی کی ہر خوبصورت یاد اس خوبصورت شہر کے ساتھ جڑی ہوئی ہے اور جب کوئی بری خبر اس شہر سے منسوب ہوتی ہے تو اپنا آپ مجرم سا محسوس ہو تا ہے ۔

ملک بھر کے طلبہ کو خوبصورت اور پر وقار علمی ماحول فراہم کرنا اس شہر کا خاصہ ہے ۔گرمیوں کی شامیں ہوں یا سر دیوں کی ، سماعتوں میں سریلی سر گوشیوں کو جنم دینے والی ،چناروں سے ٹکراکر ایک مسحور کن مست آواز پیدا کر تی خوشبودار ہوائیں آپ کے دل میں ہمیشہ ایک رومانوی احساس جگائے رکھتی ہیں ۔

(جاری ہے)

یہ احساس ایک ماحول کی تشکیل کرتا ہے اور آپ کو اس شہر کے اکثر باسی اسی ماحول کے اسیر ملیں گے ۔

یہ شاید اسی اثر کا نتیجہ ہے کہ آپ کو کبھی اس شہر کے حوالے سے فرقہ وارانہ ،سماجی ،سیاسی یا لسانی فساد کی کوئی بڑی یا نمایاں خبر نہیں ملی ہوگی ۔کارپوریٹ سیکٹر نے ایک نئے مزاج کی تشکیل کی ہے اور وہ یہ ہے کہ اپنی ہر روایت کو فرسودہ اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھ کر اس سے کنارہ کشی اختیار کر لو لیکن اس شہر کے مکینوں نے ابھی بھی اپنی روایات پر کسی قسم کی سودے بازی نہیں کی ۔


ادارہ تعلیم و تحقیق کی دو روزہ ورکشاپ میں مسیحی برادری کے علاوہ مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کے علماء شریک تھے ۔اس ورکشاپ میں جہاں موضوعات کا تنوع تھا وہیں افراد اور افکار کا تنوع بھی موجود تھا جو کسی بھی معاشرے کا حسن ہوتا ہے ۔اس مجلس کی سب سے بڑی خوبصورتی یہ تھی علماء اس بات پر زیادہ اصرار کر رہے تھے کہ معاشرتی امن کاقیام اور معاشرتی روایات کا استحکام فرض کا درجہ رکھتا ہے ۔

ان علماء کے کئی موضوعات پر علمی اختلافات بھی تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے اکھٹے بیٹھ کر کھانا کھایا ، چائے پی اور ایک ہی مسجد میں نماز بھی ادا کی ۔یوں علماء نے اپنے عمل سے اس بات کا پیغام دیا کہ معاشرے میں امن و امان کے قیام کے حوالے علماء متحد ہیں ۔محترم خورشید احمد ندیم صاحب مجھے میرے ہی شہر میں بحثیت مہمان بلایا اور اہل علم کی مجلس میں اس طالب علم کو اپنی گذارشات پیش کرنے کا کہہ کر امتحان میں ڈال دیا ۔

میرا موضوع تھا کہ مذہب کا اصل وظیفہ کیا ہے ؟
میری طالب علمانہ رائے میں تمام مذاہب عبادات کے طریقے مختلف ہیں لیکن معاملات میں ننانوے فیصد اتفاقات پائے جاتے ہیں ۔عبادت خدا اور بندے کے درمیان تعلق کا نام ہے جبکہ معاملہ بندوں کے درمیان تعلق کا نام ہے ۔ مذہب بندے کے خدا اور بندوں کے ساتھ تعلق کی صورت گری کرتا ہے اور انہیں وہ راہ دکھاتا ہے جس میں ان کی کامیابی ہے ۔

بعض معاملات میں مذہب انسان کو بنیادی اصول فراہم کرنے کے بعد اسے آزاد چھوڑدیتا ہے کہ وہ زمانے کی ضرورتوں کے مطابق اپنے فیصلے کرے ۔ انسانی خواہشات لامحدود ہیں اور لامتناہی خواہشات کبھی پوری نہیں ہو سکتیں جس کی وجہ سے انسان میں بے چینی اور اضطراب پیدا ہو جاتا ہے ۔یہ بے چینی اور اضطراب معاشرے میں فساد ،برائی ،انتشار اور افتراق کا سبب بن جاتا ہے ۔

ملنے کی خوشی انسان کو مغرور بنا دیتی ہے اور نہ ملنے کا غم انسان کو مایوس بنا دیتا ہے ۔دونوں صورتیں معاشرتی انتشار کا راستہ ہموار کر تی ہیں ۔ مذہب ایسے موقع پر انسانی فکر کی تشکیل کرتا ہے کہ کیسے وہ سماج میں اعلیٰ اخلاقی قدروں پر کھڑا ہو اپنا فیصلہ کرے ۔ وحی اور اعلیٰ روحانی تعلیمات کے سانچے میں ڈھلا ہوا انسان ہی خدا کا مطلوب اور مذہب کا ترجمان انسان ہوتا ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے کسی بھی صورت کسی کو تکلیف نہیں پہنچ سکتی ۔

مسجد ،مدرسہ ،خانقاہ ،حجرہ ،چرچ ،مندر ،گرجا ،گورداوارہ ،سینیگال سمیت تمام مذہبی مقامات انسان کی ضرورت ہیں ۔یہاں وہ تنہائی میں کچھ دیر گذار کر سکون کی دولت سے سرفراز ہوتا ہے ۔ یہ وہ مقامات ہیں جہاں سے انسان کو باہمی ادب و احترام ،بین المذاہب ہم آہنگی اور اعلیٰ اخلاقی اقدار پر مبنی زندگی گذارنے کا درس دیا جاتا ہے ۔ بد قسمتی سے معاشرے میں کچھ طبقوں نے اپنے مفاد اور خواہشات کا اسیر بن کر ان مقدس مقامات سے ایسی نامانوس آوازیں بلند کیں جو معاشرتی انتشار کا سبب بنی ۔

ان آوازوں نے مذہب کے تقدس سے زیادہ اہل مذہب کے تقدس کو پامال کیا ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اہل مذہب خود اپنے ہاں تطہیر کا عمل شروع کر تے ہوئے اس سوچ سے بیزاری کا اظہار کریں جو انسان بیزاری کا سبب بنتی ہو ۔علماء نے امن کے قیام کو معاشرے کی سب سے اولین ترجیح قرار دیا ۔ورکشاپ میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کے چئیرمین عامر رانا نے تصادم امکانات اور اس کے حل پر مدلل اور پر مغز گفت گو کی ۔

علماء نے ایبٹ آباد میں مسیحی علماء کے ساتھ سانحہ لاہور پر اظہار یکجہتی کیا جبکہ مسیحی علماء نے کہا کہ لاہور میں دو مسلمانوں کو زندہ جلانے کے واقعے نے ہمارے سر شرم سے ڈبو دیے ہیں ۔اس نشست کے اختتام پر علماء نے کہا کہ ان کے اختلافات ضرور ہیں لیکن یہ اختلافات علمی نوعیت کے ہیں ۔ یہ ایسے اختلافات نہیں جنہیں عوامی اجتماعات میں بیان کیا جائے ۔

یہ سوچ کتنی امید افزا اور خوش آئند تھی کہ ہمارے علماء اس بات کی دعوت دے رہے تھے کہ مذہبی اختلافات کبھی بھی سماجی تعلقات کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے چاہییں ۔حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی معاشرے نے کبھی بھی فرقہ وارانہ اور نفرت پر مبنی مزاج کو قبول نہیں کیا ۔ اس وقت شام سے عراق اور عراق سے یمن تک ،تقریبا تمام اسلامی ممالک میں فرقہ وارانہ کشیدگی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو چکا ہے ۔

اس نازک صورتحال میں تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے پاکستانی علماء نے متحد ہو کر عوام تک یہ پیغام پہنچایا ہے کہ پاکستان کے اندر مذہبی اختلافات کو فسادات میں بدلنے والے عناصر سے ہو شیار رہنا ہو گا ۔سوال یہ ہے کہ جس طرح تمام تر اختلافات کے باوجودمختلف مکاتب فکر کے علماء ایک جگہ بیٹھتے ہیں ،اس عمل کو عوامی سطح تک رواج دینے میں ہم کیا کردار ادا کر سکتے ہیں ؟؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :