سعودی عرب ،یمن تنازعہ

جمعرات 2 اپریل 2015

Zabeeh Ullah Balghan

ذبیح اللہ بلگن

یہ کہانی 36سال قبل شروع ہوتی ہے ،جب علی عبداللہ صالح یمن کے حکمران بنتے ہیں ۔ بلا شبہ وہ 33سال تک یمن کے بلا شرکت غیرے حکمران رہے۔2011ء میں علی عبداللہ صالح کے خلاف عوامی تحریک کا آغاز ہوا ۔اس تحریک کو بعض ممالک کی جانب سے وہی مالی اور عسکری حمائت حاصل تھی جو آج بعض ممالک کی جانب سے حوثی قبائل کو حاصل ہے ۔صالح کے خلاف تحریک کامیابی سے ہمکنار ہوئی اور یمنی عوام کو ”آمریت“سے نجات مل گئی ۔

ایک قومی حکومت تشکیل پائی جس کا کام ملک میں شفاف انتخابات کاانعقاد کروانا تھا ۔ علی عبداللہ صالح جو 1978سے یمن کے صدر چلے آرہے تھے ،جب اقتدار سے الگ ہوئے تو انہوں نے یمن اور سعودی عرب کی سرحد پر واقع حوثی قبائل سے اتحاد کر لیااور قوت کے بل بوتے پر دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کرنے لگے ۔

(جاری ہے)

یہاں یہ بات یاد رہنی چاہئے کہ یہ حوثی قبائل شیعہ مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں انہیں زیدی فرقہ بھی کہا جاتا ہے ،ان حوثی قبائل کے خلاف علی عبداللہ صالح اپنے دور اقتدار میں اکثر فوجی آپریشن کیاکرتے تھے ۔

مختصراََ یہ کہ صالح کے حامیوں اور حوثی قبائل نے دیکھتے ہی دیکھتے دارلحکومت صناء سمیت تقریباََ پورے ملک پر قبضہ کر لیا۔قرار دیا جاتا ہے کہ حوثی قبائل کو ایران اور حزب اللہ سمیت چند دیگر ممالک کی معاونت حاصل ہے ۔قومی حکومت کے خاتمے اور حوثی قبائل کے قبضہ کے خلاف سعودی عرب نے ایک عرب اتحاد تشکیل دیا ۔ مقام افسوس یہ ہے کہ عرب لیگ کے اس اتحاد کے پہلے اجلاس میں کسی بھی عرب حکمران نے دانائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسئلے کو تحمل یا مذاکرات سے حل کرنے کی اہمیت پر زور نہیں دیا بلکہ پہلے ہی اجلاس میں یہ طے کر لیا گیا کہ حوثی قبائل کے خلاف عسکری کاروائی ہی مسئلے کا حتمی حل ہے ۔

سعودی عرب کا موقف ہے کہ حوثی قبائل کے قبضے سے یمن کا ہمسایہ ملک ہونے کی وجہ سے سعودی عرب کی سلامتی کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں لہذا سعودی عرب یمن میں قومی حکومت کی بحالی کیلئے کوششیں جاری رکھے گا ۔ یہاں رک کر تقابلی جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ واضح رہے کہ سعودی عرب یمن کے عوام کے اس موقف اور مطالبے کی حمائت کرتا ہے کہ یمن میں 33سالہ آمریت کوختم ہونا چاہئے اور حقیقی جمہوریت بحال ہونی چاہئے ۔

جیمز وگبی جیسے بین الاقوامی دانشور یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر یمن کے عوام کو حقیقی جمہوریت ملنی چاہئے تو سعودی عرب کے عوام کو اس جمہوریت سے کیوں محروم رکھا جا رہا ہے۔ جہاں1926 سے ایک ہی خاندان مسند اقتدار پر براجمان ہے۔اسی طرح غیر جانبدار اور تعصب سے مبرا صحافی حضرات یہ استفسار اٹھاتے ہیں کہ سعودی عرب یمن کے عوام کی حقیقی جمہوریت کیلئے کی جانے والی جدوجہد کو تحسین کی نگاہ سے دیکھتا ہے تو آخر کیا وجہ ہے کہ جب یہی طرز عمل مصری عوام نے اختیار کیا تو اس وقت سعودی عرب مصر کے ڈکٹیٹر حسنی مبارک کو تحفظ فراہم کرنے کی کوششوں میں جتا ہوا تھا ۔

وہ صاف اور شفاف انتخابات جو سعودی عرب یمن میں کروانا چاہتا ہے جب مصر میں وقوع پذیر ہو گئے تھے تو وہ اخوان اور اس کی اتحادی سلفی جماعتوں کو اقتدار میں آنے سے کیوں روکنے لگا تھا۔حالانکہ وہ عقیدے اور مسلک کے اعتبار سے سعودی عرب سے ہم آہنگ تھے ۔ یہاں مسلک اور عقیدے کاسوال اس لیے اٹھایا گیا ہے کہ قارئین کو یہ سمجھنے میں آسانی رہے کہ اس خطے میں مسلک اور فرقے کی جنگ نہیں ہو رہی بلکہ اپنے اپنے اقتدار کو دوام اور وسعت دینے کی جنگ ہو رہی ہے ۔

محمد مرسی جب بھاری اکثریت سے ووٹ لے کر یکم جولائی 2012میں مصر کے صدر منتخب ہو گئے تو وہ چند ممالک جو مرسی کو اقتدار سے ہٹانا چاہتے تھے سعودی عرب میں ان میں سر فہرست تھا۔ یہی وجہ ہے کہ محمد مرسی کے خلاف جب جنرل السیسی نے فوجی بغاوت کی تو سعودی عرب کی تمام حمائت اور سپورٹ جنرل السیسی کو حاصل تھی ۔ جن دنوں جنرل السیسی محمد مرسی کے حامیوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ رہا تھا ان دنوں امریکہ جیسے اسلام دشمن سے بھی نہ رہا گیا اور اس نے مصر پر فوجی پابندیاں عائد کر دیں جبکہ سعودی عرب نے امریکی اعلان کے تین روز کے اندر جنرل السیسی کو تین جہاز جنگی ساز و سامان اور اربوں امریکی ڈالرز روانہ کئے تاکہ اخوان المسلمون پر بہیمانہ ظلم و تشدد جاری رہے ۔

اسی طرح جب تیونس کے عوام وہاں کے ڈکٹیٹر زین العابدین کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تو وہاں بھی سعودی عرب زین العابدین کے ساتھ کھڑا ہو گیا بلکہ جب جلاوطنی کی نوبت آئی تو زین العابدین کو سعودی عرب میں عالی شان محل دینے کے ساتھ تیونس کے صدر کا پروٹوکول دیا گیا ۔
جہاں تک ایران کامسئلہ ہے یہ حقیقت کسی سے مخفی نہیں کہ ایران بھی خطے میں اپنی بالادستی دیکھنے کا خواہاں ہے اوراس کیلئے وہ عملی اقدامات بھی کر رہا ہے ۔

ایران کی دلی خواہش ہے کہ عرب ممالک پر اس کے حمائت یافتہ حکمران مقرر ہوں اور وہ خطے کے ”بڑے“کا کردار ادا کرے ۔ سعودی عرب اور ایران کے مابین خطے پر غلبے کی جنگ کا اندازا اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ جو سعودی عرب کا دوست ہو تا ہے وہ ایران کا دشمن ہوتا ہے اور جو ایران کادشمن ہوتا ہے وہ سعودی عرب کا دوست ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایران اور سعودی عرب کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ پاکستان میں ان کی حمائت یافتہ حکومت قائم ہو ۔

ہمیں یاد رہنا چاہئے کہ ذولفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی کا جھکاؤ ہمیشہ سے ایران کی جانب رہا جبکہ سابق فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق اور اس کے بعد آنیو الی مسلم لیگوں کا جھکاؤ سعودی عرب کی جانب رہا ۔ بعض ناقد حلقے یہاں تک کہتے ہیں کہ 2013کے عام انتخابات میں سعودی عرب نے مسلم لیگ(ن) کو کامیابی دلانے کیلئے ہر ممکن کوشش کی تھی ۔خطہ خلیج میں بپا یہ تیسری جنگ خطے میں کیا تبدیلیاں لانے کا سبب بنتی ہے اس بابت کچھ کہنا قبل از وقت ہے تاہم یہ ایک یونیورسل حقیقت ہے کہ جب عوام کی بجائے اپنے اقتدار کو وسعت اور استحکام فراہم کرنا اولین ترجیح بن جاتاہے تو پھر اس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑتاہے کبھی بے گناہ قتل وغارت گری کی صورت میں اور کبھی معاشی ابتری کا سامنا کرنے کی شکل میں ۔

ہمیں یاد رہنا چاہے کہ جنگوں کا خاتمہ ہمیشہ مذاکرات پرہوتا ہے۔ پاکستان سمیت دیگر ممالک کو چاہئے کہ وہ اپنا مثبت کردار کرتے ہوئے خلیج کو ایک اور جنگ سے بچالیں ۔ مسلم ممالک کو یہ بات ملحوظ رکھنی چاہئے کہ اس خطے میں انتشار اور شورش بین الاقوامی طاقتوں کی دیرینہ خواہش ہے لہذا مملکت سعودی عرب ،ایران اور دیگر ممالک کو چاہئے کہ وہ انفرادی مفاد کی بجائے اجتماعی مفاد کو مد نظر رکھیں اور خطے کے عوام کی فلاح و بہبود کو ملحوظ رکھیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :