یمن کا مسئلہ ،سعودیہ اور پاک فوج

ہفتہ 4 اپریل 2015

Ashfaq Rehmani

اشفاق رحمانی

میڈیا رپورٹس کیمطابق سعودی حکومت کی سالمیت کو لاحق خطرات سے نمٹنے کیلئے پاک فوج کو سعودی عرب بھیجنے کیلئے رضامندی ظاہر کی تاہم فوج بھیجنے یا نہ بھیجنے کا حتمی فیصلہ پاکستانی قیادت کریگی۔ جبکہ عالمی شہرت یافتہ خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابقذمہ دار ذرائع کے مطابق سعودی عرب میں قبل ازیں 1 ہزار فوجی پہلے ہی موجود ہیں جن میں ڈاکٹرز اور وہ لوگ شامل ہیں جو سعودی نیشنل گارڈز کو ٹریننگ دے رہے ہیں جبکہ اس وقت پاک فوج سعودی عرب میں جاری سالانہ مشقوں میں بھی حصہ لے رہی ہے جو سعودی عرب کے شہر طائف سے شروع ہوکر ”القصیم“ میں جاری ہیں۔

عالمی سیاسی و عسکری امور کے ماہر سینئر سیاسی رہنما نے ”خبر رساں ایجنسی “ کو بتایا کہ حکومت پاکستان نے سعودی عرب کی حفاظت کیلئے 20 ہزار فوجی روانہ کردیئے ہیں جنہیں سعودی عرب سے ملحقہ یمن کے سرحدی علاقے پر تعینات کیا جائیگا ۔

(جاری ہے)

ذرائع نے مزید بتایا کہ پاکستان نے سعودی حکومت سے کہا ہے کہ پاکستانی فوج یمن میں داخل نہیں ہوگی ۔اپوزیشن سے وابستہ ایک سینئر سیاست دان نے آن لائن کو بتایا کہ متعدد سیاسی پارٹیوں کی جانب سے سخت رد عمل آنے پر حکومت نے خفیہ طور پر یہ اقدام اٹھایا تاہم چند روز میں حکومت اس کا باقاعدہ اعلان کردیگی ۔

وزیر دفاع کی سربراہی میں وفد نے واپس پاکستان پہنچنے پر وزیراعظم نواز شریف اور دیگر سول و فوجی حکام کو مشرق وسطی، یمن کی صورتحال اور سعودی عرب کی جانب سے پاک فوج کی مدد کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ یمن کی طرف سے سعودی عرب پر حملے کی صورت میں پاکستان بھرپور دفاع کریگا۔ انہوں نے کہا کہ پاک فوج کو سعودی عرب بھیجا جائیگا جس کو سعودی حکومت کی اہم تنصیبات پر نگرانی کیلئے تعینات کیا جائیگا تاہم پاک فوج یمنی جنگ کا حصہ نہیں بنے گی۔

ایک روز قبل وزیراعظم کا سعودی سلامتی کو درپیش خطرے سے بھرپور جواب دینے کا بیان دْہرانے والے وزیر دفاع خواجہ آصف نے اسمبلی میں کہا کہ فوج بھیجنا پڑی تو پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیں گے، ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا کہ سعودی عرب کے دفاع کا وعدہ ہے۔ سعودی عرب کے دفاع کا وعدہ کب کیا تھا، وزیر دفاع بتا دیتے تو بہتر تھا، ایسے وعدے زبانی کلامی نہیں معاہدوں کے تحت ہوتے ہیں۔

اگر ایسا کوئی معاہدہ ہے تو اس سے قوم کو آگاہ کرنا چاہئے۔خواجہ آصف کے قومی اسمبلی میں اس بیان پر کہ ”فوج بھیجنا پڑی تو پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیں گے“ تبصرے جاری تھے اور اسے حالات کی مناسبت سے مناسب قرار دیا جا رہا تھا کہ وزیراعظم نواز شریف نے سعودی فرمانروا شاہ سلمان کو فون پر فوجی تعاون کی یقین دہانی کرا دی۔وزیر دفاع خواجہ آصف کی طرف سے ایک بار پھر کہا گیا ہے کہ یمن کی طرف سے سعودی عرب پر حملے کی صورت میں سعودی عرب کا دفاع کرینگے۔

سعودی عرب اور یمن آج حالت ِجنگ میں ہیں۔ یمن کی طرف سے کسی جوابی حملے کا امکان تو نہیں ہے مگر اسے یکسر رد بھی نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یمن کو روس، ایران اور شام کی طر ف سے سپورٹ کیا جا سکتا ہے۔ سعودی عرب نے ایران پر حوثی باغیوں کی مدد کا الزام بھی لگایا ہے۔ ا گر یمن کے حملے کی صورت میں بھی پاکستان نے سعودی عرب کا دفاع کرنا ہے تو اس کا فیصلہ سلطانی جمہور میں فردِ واحد نہیں کر سکتا۔

اس کیلئے پارلیمنٹ کا فورم موجود ہے اس سے رجوع کریں یا پھر وسیع تر اتفاقِ رائے کیلئے آل پارٹیز کانفرنس بْلا لیں جس میں پارلیمنٹ میں نمائندگی نہ رکھنے والی پارٹیوں کو بھی شریک کیا جائے۔خارجہ سیکرٹری اعزاز چودھری نے بھی ایک بیان میں کہا کہ پاکستان نے سعودی عرب کی مدد کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے کیونکہ سعودی عرب میں ہمارے مقدس ترین مقامات موجود ہیں اور وہاں لاکھوں پاکستانی محنت کش کام کر رہے ہیں۔

دوسری طرف دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم کہتی ہیں کہ سعودی عرب کی جانب سے پاکستانی فوج بھجوانے کی درخواست افواہیں ہیں، اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ جب پارلیمنٹ کو نظرانداز کرکے فیصلے کرنے کی کوشش کی جائیگی تو اسی طرح کا ابہام پیدا ہو گا جیسا سیاسی قیادت اور بیوروکریسی کے بیانات سے پیدا ہو رہا ہے۔خواجہ آصف کی اس منطق میں اس صورتحال میں کوئی وزن نہیں کہ پاک فوج کو سعودی عرب کی اہم تنصیبات کی نگرانی کیلئے بھیجا جائیگا۔

یہ کام تو شاید سعودی عرب میں موجود پاکستانی دستے پہلے ہی کر رہے ہیں۔ سعودی حکام نے خواجہ آصف کی سربراہی میں سعودی عرب جانیوالے وفد سے یمن کی صورتحال سے نمٹنے کیلئے پاک فوج کی مدد کی خواہش کی اور کہا کہ یمن میں باغیوں کیخلاف زمینی کارروائی اور سعودی عرب کی سرحدوں کی حفاظت کیلئے پاک فوج کی خدمات فراہم کی جائیں۔ اس حوالے سے سعودی وزیر دفاع پرنس محمدبن سلمان کا دعوی بادی النظر میں درست نظر آتا ہے کہ پاکستان نے فوج سعودی عرب بھیجنے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے جس کا پہلا دستہ جلد سعودی پہنچے گا ظاہر ہے جن مقاصد کیلئے سعودی عرب فوج طلب کر رہا ہے انہی کیلئے استعمال بھی ہو گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :