پارلیمانی زبان

جمعہ 10 اپریل 2015

Abdul Raheem Anjaan

عبدالرحیم انجان

دنیا بھر میں شرفا کی محفلوں میں”پارلیمانی زبان“ کو حد ِادب کا پیمانہ سمجھا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ دوستووں کی محفل میں بھی اگر کوئی منچلا اخلا ق سے گرا ہوا کوئی جملہ بک دے تو محفل میں سے کوئی ساتھی فوراً ہی کہہ اٹھتا ہے۔ Mind Your Language Pleaseغیر پارلیمانی زبان کی اجازت نہیں ہے کہ آپ شریف لوگوں میں بیٹھے ہیں ۔ لیکن اب ہمارے ہاں پارلیمان کے انداز گفتگو پر حیرت بھرے سوالیہ نشان لگتے جا رہے ہیں۔


الیکشن ۲۰۱۳ ء کو صرف تحریک پاکستان ہی نے نہیں، سبھی پارٹیوں نے دھاندلی زدہ الیکشن قرار دیا ہے، پاکستان پیپلز پارٹی کے اعتزاز احسن نے تو اسے دھاندلی کے بجائے ”دھاندلا “ کہا تھا اورالیکشن میں ”دھاندلی“ کے مکمل ثبوتوں کے ساتھ ایک وائٹ پیپر بھی شائع کیا ہے۔

(جاری ہے)

فرق اتنا ہے کہ وہ اپنی پارٹی کی پالیسی لائین کی زد میں آ کر، وائٹ پیپر شائع کر نے کے بعد خاموش ہو کر بیٹھ گئے ہیں۔

لیکن تحریک انصاف نے اپنے ملک میں جمہوریت کو مضبوط تر بنانے کے لئے انتخابات میں دھاندلی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی ٹھان لی ہے۔عمران خان کہتے ہیں۔ ”صر ف وہی حکومت عوام الناس کے لئے کچھ کر سکتی ہے، جو عوام کے ووٹوں سے آتی ہے۔جس نے دھا ند لی کا جادو جگا کر آنا ہے، اُسے عوام کی پروا کیوں کر ہو سکتی ہے ؟ الغرض عمران خان نے انتخابات میں دھاندلی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے کیا کیا جتن کئے ہیں ؟،اُس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں کہ اُن سے سبھی واقف ہیں۔

یہاں تک کہ تحریک پاکستا ن کم و بیش سات آٹھ ما ہ سے موجودہ پارلیمنٹ کو غیر آئینی پارلیمنٹ قرار دے کر پارلیمنٹ سے مستعفی ہو چکی ہوئی تھی۔اب جب کہ حکومت اور تحریک انصاف میں الیکشن میں دھاندلی کی چھان بین کرنے کے لئے جوڈیشنل کمیشن بنانے کا مُعاہدہ طے پا گیا ہے تو وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار نے عمران خان سے پارلیمنٹ میں واپس آنے کے لئے اپنے مطالبے کو بھی دھرایا۔

عمران خان نے پہلے تو یہ کہا کہ جب تک جوڈیشنل کمیشن بن نہیں جاتا۔میں پارلیمنٹ میں واپس نہیں آوٴں گا۔لیکن یہ سوچ کر کہ پار لیمنٹ میں افواج پاکستان کو سعودی عرب بھیجنے کے حوالے سے ایک قومی مسئلے پر بات چیت ہو رہی ہے تو وہ اسحاق ڈار کے اس وعدے پر کہ جو ڈیشنل کمیشن کا جو مُعا ہدہ ہوا ہے،اُس کے مطابق ہم جو ڈیشنل کمیشن ضرور بنائیں گے،آپ پارلیمنٹ میں واپس آجا ئیں ، وہ پارلیمنٹ میں واپس چلے گئے۔

اُس کے بعد مسلم لیگ (ن) کے اراکین با لخصوص وزیر دفاع خواجہ آ صف نے جس غیر پارلیمانی زبان سے اُن کا ستقبال کیا ہے۔وہ مسلم لیگ (ن) کے دامن پر بے شمار شرمناک دھبوں میں ایک شرمناک دھبے کا اضافہ ہے ۔کچھ لوگوں نے تحریک انصاف کی پارلیمنٹ سے اتنی طویل غیر حاضری کو آئین کے حوالے سے نا قابل قبول قرار دیا اور اتنی طویل مدت تحریک انصاف کے استعیفے منظور نہ کرنے پر بھی اعتراض اٹھایا۔

جس کے جواب میں اسپیکر قومی اسمبلی نے یہ کہہ کر ساری ذمہ داری خود پر لے لی کہ ان کے استعیفے میں نے منظور نہیں کئے تھے۔آئین پاکستان کے مطابق اراکین مسلم لیگ (ن) کے اعتراضات بالکل درست تھے۔لیکن پاکستان میں آئین پاکستان کو پوچھتا ہی کون ہے ؟اگر آئین پاکستان کی کہیں کوئی عزت یا شنوائی ہوتی تو الیکشن سے پہلے آئین کی شِک نمبر ۶۲۔۶۳ پر عمل کیا جاتا اور آج پارلیمنٹ جیسے قوم کے محافظ ادارے میں بہت کم لوگ نظر آتے۔

یہاں تک کہ اسمبلی کے علی بابا بھی نظر نہ آتے۔
بہر کیف،جو شرم ناک تماشا وزیر دفاع خواجہ آصف نے کر دکھایا ہے۔ اس پر ان کے علی بابا تو خوش ہو گئے ہوں گے۔لیکن غیر جانب دار سنجیدہ لوگ خوش نہیں ہوئے۔ جمہوریت پسند لوگ اور صحافی حیران ہیں کہ خواجہ آصف نے یہ تماشا کس کے اشارے پر کیا ہے۔ کیا اُن میں اتنا دم خم ہے کہ وہ وزیر اعظم کی موجودگی میں، اُن کی رضا کے بغیر، مقبولیت کے حوالے سے تحریک انصاف جیسی بڑی پارٹی کے ساتھ ، پارلیمنٹ کے سارے اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، ایسا ذلت امیز سلوک کر تے ؟کیا مسلم لیگ (ن) نے تحریک انصاف پر پارلیمنٹ میں آنے کے لئے یہی تماشا کرنے کے لئے دباوٴ ڈالا تھا؟ کچھ لوگ کہتے ہیں،یہ ذلت امیز تماشا اُس آڈیو ٹیپ کے بدلے میں کیا گیا ہے، جس میں عمران خان نے میاں نواز شریف کے لئے دو الفاظ پر مشتمل ایک ایسا جملہ کہا ہے،جس کا دوسرا لفظ ” زادہ “ہے۔

عمران خان نے ”شہزادہ“ یا” ۔۔زادہ“ جو بھی لفظ استعمال کیا ہے، انہوں نے فون پر اپنے ایک ساتھی سے بات کرتے ہوئے کیاہے۔ دوستوں کی محفل میں بیٹھ کر تو ہم سپر پاور کے صدر کو بھی گالیاں دے کر اپنے دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں۔عمران خان نے جو کچھ بھی کہا ہے، اُسے عام کرنے والے تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے وہ آڈیو ٹیپ تیار کیا ہے۔ اسلام میں کسی کی باتیں چھپ کر سننے سے اسی لئے منع کیا گیا ہے۔

الغرض تحریک انصاف جب افہام و تفہیم کی دعوت پر پارلیمنٹ میں آ ہی گئی تھی تو میاں صاحب پر واجب تھا کہ وہ حکومت میں ہونے کے ناطے سے اپنے مدبرا نہ سلوک سے عمران خان پر ثابت کرتے کہ میں” شہزادہ“ ہوں اور نہ ہی” ۔۔زادہ“ ہوں،میں” شریف ذادہ ہوں“ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان نے ٹریلر پر کھڑے ہو کر حکومت کے لئے بہت کچھ کہا ہے۔

جب کہ ان کا کہنا ہے میں جو کچھ بھی کہتا رہا ہوں سچ کہتا رہا ہوں۔میں نے کسی پر کوئی جھوٹا الزام بالکل نہیں لگایا۔بہر کیف، ہمارے ہاں اپنے جلسوں میں ہمارے سبھی لیڈر جھوٹ بھی بولتے ہیں اور جھوٹ بولنے کی دوڑ میں اخلاق سے گری ہوئی بکواس بھی کر لیتے ہیں۔کیا میاں صاحب نے اپنے انتخابی جلسوں میں کبھی کوئی جھوٹ نہیں بولا؟ان کے چھو ٹے بھائی سابق صدر پاکستان ، جب کہ اُس وقت تک وہ ابھی سابق بھی نہیں ہوئے تھے ) کے لئے کیا کچھ نہیں کہتے رہے؟ لیکن جلسہ گاہ اور پارلیمنٹ میں فرق ہونا چاہیے۔

خواجہ آصف نے جاوید چوہدری کے ٹالک شو ” کل تلک“ بتاریخ ۷۔۶ اپریل میں یہ کہہ کر مزید حیران کیا ہے کہ میں نے کوئی بھی غیر اخلاقی بات نہیں کی۔میری ساری گفتگو اخلاق کے دائرے میں تھی تو میرا اُن سے ایک سوال ہے کہ کیا وہ یہی زبان اپنے کسی بزرگ کے لئے استعمال کر سکتے ہیں ؟ جبکہ جنگ اخبار کے چند منشیوں کے سوا ، جن میں سے ایک دور دور کی کوڑیاں لانے اور عمران خان سے اللہ واسطے کا بیر رکھنے والے صحافی نے ، جوڈیشنل کمیشن کے قیام پر عمران خان کی شاندار فتح کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ، تحریک انصاف کی پار لیمنٹ میں واپسی کو ، عمران خان کے غرور و تکبر کی ذلت و پسپائی سے تعبیر کیا ہے، سبحان اللہ ! جب تلک وہ پارلیمنٹ سے باہر تھے تو سب کا مطالبہ تھا کہ عمران خان کو پارلیمنٹ میں آ کر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور اب جبکہ وہ اپنا جوڈیشنل کمیشن کا مطالبہ پورا ہو جانے کے بعد واپس پارلیمنٹ میں آ گئے تو وہی لوگ طرح طرح کے اعتراض اٹھا رہے ہیں اور عمران خان کے حریفوں کا یہ رویہ اس بات کا شاہد ہے کہ وہ عمران خان کی عوامی مقبولیت سے خوفزدہ ہیں۔


بہر کیف عمران خان سے اللہ واسطے کا بیر رکھنے والے چند صحافیوں کے سوا ملک کے سبھی سنیئر صحافیوں نے مسلم لیگ (ن)کے اراکین کی شرمناک ہوٹنگ ، بالخصوص وزیر دفاع خواجہ آصف کی شرمناک تقریر کو میاں نواز شر یف کی نچلی سطح کی بازاری قسم کی سیاست اور چالا کی قرار دیا ہے۔جس سے ان کی بستر مرگ پر آ خری ہچکیاں لیتی ہوئی شریفانہ شہرت کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ پہنچے گا۔


جاویدچوہدری کے مذکورہ ٹالک شو”کل تلک“ میں خواجہ آ صف سے یہ بھی کہا گیا کہ عمران خان پارلیمنٹ میں تو اسحاق ڈار کے کہنے پر آئے تھے۔جس کے جواب میں خواجہ آسف نے ہنستے ہوئے کہا۔ پنجابی کی ایک کہاوت ہے۔ ایک لڑکی اپنے سسرال والوں سے لڑ کر میکے چلی گئی۔مہینہ ڈیڑھ مہینہ جب اسے واپس لینے کے لئے سسرال والوں کی طرف سے کوئی نہیں آیا تو ایک دن وہ اپنے سسرا ل والوں کی ایک بھینس کی دم پکڑ کر واپس سسرال آ گئی۔

ذرا غور فرمائیں ! شیخ رشید جب اسحاق ڈار کو منشی کہتے ہیں تو سبھی کو بہت برا لگتا ہے۔ لیکن اب جب کہ اُن ہی کی پارٹی کے ایک سنیئر رکن نے ، اسحاق ڈار کی عقل و فہم پر طنز کرتے ہوئے ، انہیں بھینس کہہ دیا ہے تو کسی کے کانو ں پر جوں تک نہیں رینگی۔ جاوید چوہد ر ی نے ان سے یہ بھی پوچھا کہ اعتزاز احسن نے آپ کو پورس کا ہاتھی کہا ہے۔اس کے جواب میں آپ کیا کہیں گے ؟ اس سوال کی تفصیل یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے وقار کے مُنہ پر طمانچے کی حیثیت رکھنے اورا سپیکر کے بار بار یہ کہنے کے باوجود کہ پلیز بیٹھ جائیں ، پلیز بیٹھ جائیں، جب خواجہ آصف پانچ چھ منت کے قریب اپنے ہلکان کا مظاہرہ کرتے ہوئے تحریک انصاف کو گالیاں دیتے رہے تو تحریک انصاف کے کسی رکن نے تو کچھ نہیں کہا۔

سب گم سم بیٹھے رہے کہ ہمارے ساتھ یہ کیا تماشا ہو گیا ہے ؟ البتہ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ اور اعتزاز احسن نے ( یاد رہے کہ عمران خان کو آصف علی زرداری بھی پارلیمنٹ میں واپس آنے کے لئے کہہ چکے ہوئے ہیں) اراکین ِمسلم لیگ (ن) کے شرمناک روّیے کے جواب میں بڑی مثبت گفتگو کی تھی اور اعتزاز احسن نے خواجہ آصف کے لئے کہا تھا۔” مجھے تو یہ پورس کے ہاتھی لگے ہیں“ خواجہ صفدر نے جاوید چوہدری کے سوال کے جواب میں کہا۔

۔ پورس کا ہاتھی میں ہوں یا اعتزا احسن ہیں ،جو بھٹو (شہید) پر برا وقت آنے کے بعد پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر تحریک استقلال میں چلے گئے تھے۔میں تو گزشتہ تیس سال سے ایک ہی جگہ بیٹھا ہوں۔ اسے کہتے ہیں سوال کچھ اور جواب کچھ۔پورس کے ہاتھی کا قصہ یہ ہے کہ وہ پورس کی فوج کو چھوڑ کر دشمن کی فوج میں شامل نہیں ہو گیا تھا۔ اُس نے آگے بڑھ کر اپنے دشمن کی فوج پر حملہ آور ہونے کے بجائے ،زخمی ہو کر پیچھے بھاگتے ہوئے اپنے ہی پیادہ فوجیوں کو کچل دیا تھا۔

چونکہ خواجہ آصف نے اس سے پہلے افواج پاکستان کے خلاف الزام تراشی کر کے مسلم لیگ (ن) کو نقصان پہنچانے کی بھر پورکوشش کی تھی اور اب اپنی حکومت کے سب سے بڑے حریف کو افہام و تفہیم کی طرف آتے ہوئے دیکھ کر اپنی پارٹی کے لئے اک نیا پھڈا کھڑا کر لیا تھا۔اعتزاز احسن نے انہیں پورس کا ہاتھی اس لئے کہا تھا کہ وہ اپنے احمقانہ جوش ِ سے، زیادہ نقصان اپنی پارٹی کو پہنچا رہے ہیں۔


آج ہر سنجیدہ پاکستانی اس بات پر حیران و پریشاں ہے کہ کیا کسی پارلیمنٹ میں ایسی زبان بھی بولی جا سکتی ہے ؟ ایم کیو ایم کے وسیم سجاد نے خواجہ آصف کا ہاتھ بٹاتے ہوئے کہا۔عمران خان نے تھوک کر چاٹا ہے جب کہ تھوک کر چاٹنے کی اُن کی اپنی کہانی ایک ایسی داستان ہے۔جس پر ایک نہیں ، کئی کتابیں لکھی جا
سکتی ہیں۔جن کا مفصل ذکر آئندہ کالم میں کروں گا۔فی لحال ان کی خدمت میں ایک شعر ہی پیش کر سکتا ہوں۔
کعبہ کس مُنہ سے جاوٴ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :