زوال کی داستان
اتوار 19 اپریل 2015
(جاری ہے)
ارتقاء دنیاکاایک ہی بنیادی قانون ہے۔اور وہ ہے(of the fittest Survival )یعنی طاقت ور کا زندہ رہنا اور کمزوروں کا مٹا دیا جانا۔ یہ قانون دنیا کی تمام مخلوقات پر لاگو ہوتا ہے۔جن و انس ، حیوانات ، نباتات سبھی اس قانون کے پابند ہیں۔جانوروں ہی کی مثال لے لیں۔ بیالوجی کے عظیم سائنس دان ڈارون کے فلسفے کے مطابق دنیا کی تخلیق سے لے کر آج تک سینکڑوں ایسے جانور تھے جو حالات اور موسموں کی تبدیلی کے باعث اس دنیا سے بالکل ختم ہو گئے۔اورجو جانور بچ گئے انہیں زندہ رہنے کے لیے اپنی زندگی میں اور عادات میں نمایاں تبدیلیاں لانا پڑیں۔بالکل یہی معاملہ انسانوں کے ساتھ بھی تھا۔ دنیا میں صرف وہی قومیں زندہ رہیں جنہوں نے بدلتے حالات کے تقاضوں کے مطابق اپنے آپ کو مسلسل بدلا۔ہر لحاظ سے اپنے آپ کو جدید تر بنایا۔شاید اسی لیے ایسی قوموں کا نام آج تک زندہ ہے۔اور جو قومیں اپنے آپ کو حالات کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہ کر سکیں۔ ان کا نام ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مٹ گیا۔ یا تو مختلف جنگوں میں طاقت ورقوموں نے ان کا صفایا کر دیا یا پھر چند صدیوں بعد خود ہی ان قوموں کا وجود صفحہ ہستی سے مٹ گیا۔
یہ قانون آج بھی اسی طرح سے لاگو ہوتا ہے جیسا کہ شروع دن سے لاگو ہوتا آرہا ہے۔مسلمانوں کی موجود ہ حالت اور ان کے ساتھ کیے جانے والے ہتک آمیز سلوک کی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ تعلیمی لحاظ سے پستی کی جانب جا رہے ہیں۔ایک وقت تھا کہ دنیا میں مسلمانوں کا ڈنکا بجتا تھا۔جابر بن حیان ، بوعلی سینا، الراضی ، ابن الہیشم اور البیرونی ان عظیم مسلمان سائنسدانوں نے دنیا میں سائنس کی بنیادرکھی جس کے بعد جدید تعلیم کے انداز یکسر تبدیل ہو گئے۔اورا نہیں عظیم سائنسدانوں نے دنیا کو جدید علوم سے روشناس کروایا۔ مسلمانوں نے جدید نظریات کی بدولت ترقی کے مراحل طے کیے اور جدید علوم میں اپنا لوہا منوایا۔لیکن جیسے ہی مسلمانوں نے تعلیم سے دوری اختیار کی تو دوسری اقوام ان پر حاوی ہوگئیں۔اور ان سے انہی کے علوم چھین کر ترقی کر گئے۔اور آج وہ چاند پر بھی پہنچ گئے۔یقیناً علامہ اقبال نے اسی وقت کے لیے کہا تھا۔۔
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو
اس دوران یورپی ممالک نے جوتعلیمی ادارے قائم کیے وہ علم کے مینار بن گئے۔اور پوری دنیا سے طلبہ علم کے حصو ل کے لیے وہاں جانے لگے۔یورپی ممالک کی ترقی کا راز شاید اسی میں مضمر ہے۔اسلامی ممالک میں جن ملکوں نے نمایاں کامیابی حاصل کی ان ممالک کے حکمرانوں نے تعلیم کو تر جیح اول بنایا۔” ڈاکٹر مہاتیر محمد نے ملائشیا میں بر سر اقتدار آکر ملائشیا کا تعلیمی بجٹ 25%تک بڑھا دیا تھا۔ جو ملائشیا کی تیز رفتار ترقی کا باعث بنالیکن ایک ہم ہیں کہ کان پر جوں تک نہیں رینگتی،کھوکھلے نعرے دن رات بلند ہورہے ہیں۔کوئی سوچنے والا نہیں زوال کی داستان آج بھی اسی طرح جاری ہے۔۔۔!
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
فرخ شہباز وڑائچ کے کالمز
-
گلگت بلتستان میں کون حکومت بنائے گا؟
ہفتہ 14 نومبر 2020
-
لال حویلی سے اقوام متحدہ تک
اتوار 6 ستمبر 2020
-
مولانا کے کنٹینر میں کیا ہورہا ہے؟
پیر 4 نومبر 2019
-
جب محبت نے کینسر کو شکست دی
ہفتہ 19 اکتوبر 2019
-
نواز شریف کی غیرت اور عدالت کا دروازہ
ہفتہ 12 اکتوبر 2019
-
رانا ثنااللہ جیل میں کیوں خوش ہیں؟
جمعہ 11 اکتوبر 2019
-
مینڈک کہانی
منگل 1 اکتوبر 2019
-
اک گل پچھاں؟
اتوار 8 ستمبر 2019
فرخ شہباز وڑائچ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.