کیا یہ سب سازشیں ہیں؟

منگل 21 اپریل 2015

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

دنیا کے مختلف ممالک کے بارے میں مختلف کہاوتیں مشہور ہیں ۔ایک کہاوت صدیوں کے تجربات کے بعد وجود میں آتی ہے ۔ آج دنیا میں جتنی کہاوتیں ، محاورے اور ضرب الامثال مشہور ہیں ان کے پیچھے کو ئی نہ کوئی کہانی ، واقعہ یا سبق ضرور موجود ہے ۔ کہاوت صدیوں کے تجربات کا نچوڑ ہوتی ہے اور جو محاورہ اور کہاوت کسی قوم کے بارے میں مشہور ہو جائے اس میں اس ملک اور قوم کی اجتماعی نفسیات کاتاثر کسی نہ کسی حد تک ضرور پایا جاتا ہے ۔

مثلا جاپانی کہاوت ہے اچھی دوا اکثر کڑوی ہوتی ہے ۔ روسی کہاوت ہے کپڑے کو کاٹنے سے پہلے سات بار ناپ لو کیونکہ اسے کاٹنے کا صرف ایک ہی موقعہ ملتا ہے ۔ چینی کہاوت ہے منہ کا دھانہ تمام مصیبتوں کا سرچشمہ ہے۔ اسپینی کہاوت ہے بغیر دیکھے کوئی چیز منہ میں نہ ڈالو اور بغیر پڑھے کسی کاغذ پر دستخط نہ کرو ۔

(جاری ہے)

جرمن کہاوت ہے حقیقی معنوں میں گھر کا خادم صرف ایک ہے اور وہ اس گھر کا مالک ہوتا ہے۔

لاطینی کہاوت ہے جو بات عقل چھپاتی ہے نشہ اسے ظاہر کردیتا ہے ۔ ترکش کہاوت ہے سوتے ہوئے کتے کو مت جگا وٴ اگر وہ جاگ گیا تو یقینا آپ پر بھونکے گا ۔ آسٹرین کہاوت ہے اگر تم ترقی نہیں کر سکتے تو دوسروں کی ترقی دیکھ کر آنکھیں بند مت کرو ۔ ازبک کہاوت ہے تلوار اور عورت کی چلتی زبان کو روکنا ہی اصل بہادری ہے ۔ یونانی کہاوت ہے اگر کوئی کتا آپ پر بھونک رہا ہے تو آپ اس پر بھونکنا نہ شروع کر دیں اور پاکستانی کہاوت ہے اگر آپ اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتا چاہتے تو فوراامریکہ اور سیاستدانوں کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا دیں۔


آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہ کہاوت پاکستانی قوم کی اجتماعی نفسیات کی بہترین عکاس ہے ۔ہم اپنی ہر غلطی اور ہر گناہ کو امریکہ اور سیاستدانوں سے منسوب کر کے خود ایسے صاف ہو جاتے ہیں جیسے آج ہی مکہ سے پیدل حج کر کے آئے ہیں ۔ ہم اپنی کوتاہیوں اور غفلتوں کے بحر الکاہل کو امریکہ سے منسوب کر کے سمجھتے ہیں ہم دودھ کے دھلے ہوئے ہیں ۔

ہماری روش بن چکی ہے کہ ہم نے اپنی کوئی غلطی تسلیم نہیں کرنی اور نہ ہم سے کوئی غلطی سرزد ہو سکتی ہے ۔ ہم وہ کبوتر ہیں جو بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر کے سمجھتا ہے سب ٹھیک ہے ۔ میرے خیال میں اگر ہم پانچ وقت کی نماز ادا نہیں کرتے ، روزانہ قرآن کو ہاتھ نہیں لگاتے ، درود شریف اور استغفارکی تسبیح نہیں کرتے تو اس سب کے پیچھے امریکہ کی کوئی سازش ہے اور نہ سیاست دان اس کے ذمہ دار ہیں ۔

ہم اگر والدین کا احترام نہیں کرتے ، بڑوں کی عزت اور چھوٹوں پر شفقت نہیں کرتے ، اساتذہ اور بزرگوں کی بات نہیں مانتے، اپنی حیثیت کے مطابق صدقہ اور خیرات نہیں کرتے ،زکوة ادا نہیں کرتے، خوشی اور غمی کی رسموں پر سادگی کو نہیں اپناتے تو میرے خیال میں اس کے پیچھے بھی کوئی صیہونی سازش کارفر ما نہیں ۔ ہم اگر ٹیکس ادا نہیں کرتے ، قانون کی حکمرانی کو نہیں مانتے ، ٹریفک سگنلز کی پابندی نہیں کرتے ، قطار میں کھڑے نہیں ہوتے ، بل وقت پر اد ا نہیں کرتے تو یہ ہماری اپنی بد تہذیبی اور بد قسمتی ہے ۔

ہم اگر اپنے گھر کو صاف نہیں رکھتے ، اپنے ماتحتوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے ، اپنے فرائض دیانتداری سے سرا نجام نہیں دیتے ، آفس وقت پر نہیں پہنچتے ، اپنے گھر کے باہر باغیچہ نہیں بناتے اور اسے صاف نہیں رکھتے ، فٹ پاتھ پر نہیں چلتے ، اپنی لائن میں ڈرائیو نہیں کرتے ، سڑک اور شاہراہ کو صاف نہیں رکھتے ، ریلوے اسٹیشنز اور ایئرپورٹس پر تھوکنے اورپچکاریاں مارنے سے باز نہیں آتے تو یقینا ہماری اپنی ذات میں نقص ہے ۔

ہم اگر اپنے غصے کو کنٹرول نہیں کر پاتے ، لڑنے جھگڑنے سے باز نہیں آتے ، ایمانداری سے کام نہیں کرتے ، وقت کی پابندی نہیں کرتے ، کھانا وقت پر نہیں کھاتے اور سیر ہونے سے پہلے ہاتھ نہیں کھینچ لیتے ، ہم اگر روزانہ ورزش نہیں کرتے ، اپنی صحت کا خیال نہیں رکھتے ، صبح جلدی نہیں اٹھتے ، روزانہ شاور نہیں لیتے ، اچھی خوشبو استعمال نہیں کرتے ، اچھے دوست نہیں بناتے ، اچھی گیم نہیں کرتے ، روزانہ مسواک نہیں کرتے ، اچھی کتابیں نہیں پڑھتے ، اچھے لوگوں سے نہیں ملتے ، اچھی صحبت میں نہیں بیٹھتے اور اچھی محفلوں میں نہیں جاتے تو یقینا اس سب کے ذمہ دار بھی ہم خود ہیں ۔

ہم اگر اپنے چوبیس گھنٹو ں میں سے سولہ گھنٹے پڑھائی اور مطالعہ پر خرچ نہیں کرتے ، اپنے بچوں کی تربیت کے لیئے وقت نہیں نکالتے ، اپنی فیملی کے ساتھ مل کر نہیں بیٹھتے اور ہم اگر اپنے وقت کو صحیح طرح مینج نہیں کرتے تو میرے خیال میں اس کے پیچھے را کا ہاتھ ہرگز نہیں ۔ میں اگر صبح کھلی فضا میں لمبی لمبی سانسیں نہیں لیتا ، موسم ، بارش، پھولوں اور قدرتی مناظر سے لطف اندوز نہیں ہوتا تو یقینا یہ میرا ذات کا نقص ہے ۔

ہمارا تاجر اگر جھوٹ بولنے سے باز نہیں آتا ، دکاندار گاہک سے مسکرا کر نہیں ملتا ، سرکاری ملازمین عوام سے خوش اخلاقی سے پیش نہیں آتے ، پولیس ، عدلیہ اور دیگر سرکاری محکمے عوام کی داد رسی نہیں کرتے تو میں بالیقین کہتا ہوں اس کے پیچھے اسرائیل کا ہاتھ ہر گز نہیں ۔ اکاوٴنٹ آفس اگر رشوت لینے سے باز نہیں آتا ، سرکاری بابو اور زگوٹا جن ٹائپ کلرک مٹھی گرم کیئے بغیر کام نہیں کرتے ، کمیشن دیئے بغیر میرا پاسپورٹ اور شناختی کا رڈ نہیں ملتا، ایک ماہ کی تنخواہ دیئے بغیر میری چھ ماہ کی سیلری ریلیز نہیں ہوتی ، پٹواریوں کی ڈیمانڈ پوری کیئے بغیر مجھے فرد نہیں ملتی اور میرٹ پر پورا اترنے کے باوجود پانچ دس لاکھ دیئے بغیر اگر مجھے سرکاری نوکری نہیں ملتی تو واللہ اس میں موساد کا ہاتھ ہرگز نہیں ۔

میں اگر بجلی چوری سے باز نہیں آتا، پر امن شہری نہیں بنتا ، ملکی قوانین اور مفادات کا خیال نہیں کرتا ، ڈرائیونگ لائسنس نہیں بنواتا ، اپنے متعلقہ سیاستدان ،ایم این اے اور ایم پی اے کا احتساب نہیں کرتا ،میں اگر اچھے اخلاق نہیں اپناتا ، بلا وجہ ہارن بجانے سے باز نہیں آتا ، سوری اور معذرت کرنے میں پہل نہیں کرتا ، کسی کو دکھ دینے اور تکلیف پہنچانے سے باز نہیں آتا ، سلام کرنے میں پہل نہیں کرتا ، مہمان کی مہمان نوازی نہیں کرتا تو یقین کریں یہ سازش امریکہ میں تیار ہوئی ہے ، نہ یہودیوں نے اس کی پلاننگ کی اور نہ سیاستدانوں نے اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے ۔


ہم عجیب قوم ہیں ہمارے صرف تین چار ایشو ایسے ہیں جن میں امریکہ براہ راست ملوث ہے ،اس کے علاوہ ہمارے جتنے بھی مسائل اور ایشوز ہیں وہ سب ہمارے اپنے پیدا کردہ ہیں اور ان کے ذمہ دار ہم خود ہیں لیکن ہم اپنے تما م مسائل اور تمام جھگڑوں کا دوش امریکہ کو دیتے ہیں اور خود کو پاک صاف ڈکلیئر کر دیتے ہیں ۔ ہم اپنے پچانوے فیصد مسائل خود حل کر سکتے ہیں لیکن ہم یہ نہیں کریں گے ، کیوں ؟ کیونکہ اس کے لیئے ہمیں خود کو بدلنا پڑے گا ، ہمیں اپنی ہٹ دھرمی ، سستی اور غفلت کو چھوڑنا پڑے گا اور ہمیں تن آسانی اور آرام پسندی سے پرہیز کرنا پڑے گا ۔

جس دن ہم نے یہ کرلیا ، ہم نے خود کو بدل لیا اور اپنی قسمت اپنے ہاتھوں سے لکھنے کا عزم کر لیا اس دن ا مریکہ ہمارے سامنے آئے گا اور نہ سیاست دان ہمارے راستے میں ٹھہر سکیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :