Selfieسے Selfishتک

منگل 21 اپریل 2015

Hussain Jan

حُسین جان

روایات کس طرح ختم ہوتی ہیں یہ کوئی پاکستانیوں سیسیکھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ چیزیں ،عادتیں روایات ،اور رسم و رواج بھی بدل جاتے ہیں لیکن زندہ قومیں اپنی پرانی روایات سے بھی کسی نہ کسی طرح رشتا جوڑئے رکھتی ہیں۔ معاشرتی اقدار کا زندہ رہنا قوموں کے زندہ ہونے کا ثبوت ہوتا ہے، ہمارا شمار اُن اقوام میں ہوتا ہے جو بہت جلد دوسروں کی عادات و اطوار اپنا لیتے ہیں ۔

ہم نے ہمیشہ اپنے کلچر کا مذاق اُڑایا ہے اور ظنزیہ دیسی کا نام دے رکھا ہے۔ابھی کچھ دن پہلے اپنے ہی ملک کے ایک کالج جانے کا اتفاق ہوا تو دیکھا سب کو اپنی اپنی Selfieکی پڑی ہوئی ہے کوئی کسی سے حال احوال نہیں پوچھ رہا بس ایک سوال کیا جارہا ہے کہ میری selfieکیسی ہے۔ اس selfieکے شوق نے ہمیں selfishبنا دیا ہے جس کا ابھی ہمیں ادراک نہیں لیکن آنے والے وقت میں یہ ہمارے لیے کسی مصیبت سے کم نہیں ہوگا۔

(جاری ہے)


دُنیا کی دوڑ میں انسان کے پاس اتنا وقت نہیں بچ پاتا کہ وہ اپنے کسی رشتہ دار ،دوست احباب یا عزیزوں سے ملنے کے لیے خاص طور پر جاسکے۔ فون ،ای میل اور دوسری رابطے کی چیزیں کبھی بھی فیس ٹوفیس ملنے کی کمی کو دور نہیں کر پاتیں۔ جن لوگوں کے رشتہ دار باہر ممالک میں ہیں اُن کو اس چیز کا اندازہ بخوبی ہو گا کہ روز فیس بک یا فون پر رابطہ ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود ہر وقت طبیعت ملنے کو بے چین رہتی ہے۔

لہذا موجودہ دور میں آپس میں ملنے کے لیے کسی کی شادی ہونا ،یا کسی کا گزر جانا بہت ضروری ہے، کیونکہ ایسے مواقع میں تمام دوست ،رشتہ دار اکٹھے ہوجاتے ہیں او ر خوشی و گم کے ساتھ ساتھ ایک دوسرئے کا حال چال بھی پوچھ لیتے ہیں ۔ موجودہ دور کے بہت سے بچوں کو اپنے دور پار کے رشتہ داروں کا بھی پتا نہیں ہوتا لہذا والدین اپنے اپنے بچوں کو اپنے رشتہ داروں سے ملواتے ہیں کہ یہ آپ میرے کزن ہیں اور آپ کے چچا لگتے ہیں یہ فلاں لگتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔


لیکن آجکل ایسا نہیں ہوتا بچے جیسے ہی کسی فنکشن میں پہنچتے ہیں اپنے اپنے موبائل نکال کر سیلفی (Selfie)لینا شروع کردیتے ہیں اور اس میں ان کی کوشش ہوتی ہیں کوئی اینگل مس نا ہو جائے تاکہ وہ اس مواد کو فیس بک کے ساتھ ساتھ اپنے کلاس میٹس کو بھی دیکھا سکیں کہ کل وہ فلاں جگہ گئے تھے وہاں بہت مزہ آیا ہم نے بہت سی تصاویر بنائی ۔ جبکہ بیچارئے والدین آوازیں ہی لگاتے راہ جاتے ہیں کہ بیٹا ادھر آؤ تمہیں اپنے رشتہ داروں سے ملواؤں اور بچیں ہیں کہ سننے کو ہی نہیں دیتے۔


ہم سیلفی کو اپنی زندگی سمجھتے ہیں اور تمام ڈیٹا کو اپنے سوشل میڈیا کے زریعے اپنے کمپیوٹر میں تو محفوظ کر لیتے ہیں مگر اپنے دلوں میں محفوظ نہیں کرپاتے۔ آج ہمیں امریکہ اور یورپ میں بیٹھے مائیکل اور جیک کا تو پتا ہے مگر کسی لطیف بھائی یا کاشف بھائی کا نہیں پتا کہ وہ کون ہیں۔ موبائل کیمروں نے جہاں زندگی آسان بنا دی ہے وہاں دلوں سے انسانوں کی محبت کو ختم کردیا ہے۔

پہلے کوئی حادثہ ہوجاتا تھا تو لوگ ایک دوسرئے کی مد د کو بھاگتے تھے مگر آج جتنا بھی بڑھا حادثہ ہو جائے لوگ ایک دوسرئے کو بچانے نہیں آتے بلکہ تصاویر بنانے آتے ہیں ، اپنے اپنے موبائل نکال کر فلم اور تصویر بنا کر دوستوں کو بڑئے فخر سے بتاتے ہیں کہ جب لوگ مر رہے تھے میں اُن کی مدد کرنے کی بجائے اپنے موبائل سے شغل کر رہا تھا۔ اس کی ہمارے سامنے بہت سی مثالیں موجود ہیں ، یوحنا آباد کا واقع ہو یا سیالکوٹ میں مارئے جانے والے دو بھائیوں کا ، سب نے اپنی اپنی اوقات کے مطابق تصاویر اور فلمیں بنائی ،جتنے لوگ فلمیں بنا رہے تھے اگر اُن میں سے آدھے بھی لوگوں کی مدد کرتے تو ہوسکتا ہے کسی کی جان بچ جاتی ۔


دوسری طرف ہمارا میڈیا بھی دُنیا کا سب سے انوکھا میڈیا ہے اُس کیمرہ مین یا رپورٹر کو انعام و کرام سے نوازا جاتا ہے جو جائے حادثات میں زیادہ سے زیادہ فلم بنا سکے ، لیکن جو کیمرہ مین یہ سوچے کہ یار فلم تو بعد میں بھی بن جائے گی پہلے لوگوں کی جان بچائی جائے تو ایسے لوگوں کو کمپنی فورا باہر نکال دے گی کہ چاہے پوری دُنیا ختم ہوجائے ہمیں تو ہر حال میں exlusiveچاہیے۔

اس کے ساتھ ساتھ میڈیا میں بہت سا غیر انسانی مواد بھی دیکھایا جا رہا ہے جس سے آنے والی نسل کی تربیت پر بہت برئے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
تصاویر بنانا آجکل فیشن بن چکا ہے ،آج جتنے اشتہارات کیمروں کے ہوتے ہیں اتنے کسی چیز کے بھی نہیں ہوتے لوگوں کے پاس کھانے کو بھلا پیسے نہ ہوں مگر موبائل کیمرئے والا ہی لینا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ سیلفی لے سکیں ۔

ہم یہ نہیں کہتے آپ تصاویر نا بنائے لیکن انسانی اقدار کا بھی خیال رکھیں ۔ اپنے دوستوں عزیزوں اور رشتہ داروں کے لیے بھی وقت نکالیں ۔ کیونکہ آپس میں ملنا محبت کو بڑھاتا ہے، اس سے ایک دوسرئے کے دکھ سکھ کا پتا چلتا ہے۔ اگر ہم زیادہ سے زیادہ لوگوں سے ملیں گے تو ہمیں اُن کے بارئے میں آگاہی ہو گی ۔ ہو سکتا ہے کسی کو ہماری ضرورت ہے۔ لہذا سیلفی کا مطلب سیلفش ہونا نہیں آپ اپنی زندگی کو اپنے طریقے سے ہی گزارئے لیکن اپنے ساتھ جوڑئے لوگوں کے لیے بھی وقت بچا کر رکھے۔

کیونکہ یہ زندگی بہت مختصر ہے انسان چلا جاتا ہے مگر اُس کے ساتھ بتائے ہوئے لمحے ہمیشہ یاد رہتے ہیں ۔ معاشرتی زندگی کو کسی صورت بھی ختم نہیں ہونے دینا چاہیے،نئے نئے دوست بنائیں لیکن صرف سوشل میڈیا ہی حد تک نہیں بلکہ حقیقی زندگی میں بھی۔ یہ نہ ہو ہمارے فیس بک فرینڈز تو لاکھوں میں ہوں مگر ہمارے جنازے کو کندھا دینے والا کوئی نہ ہو۔ بہن بھائی کی تصویر بنانے سے بہتر ہے کہ اُسے گلے سے لگائیں، دوستوں کے ساتھ وقت بتائیں، رشتہ داروں کے سکھ دکھ میں شریک ہوں ۔

محلے والوں کو ملتے رہیں اُن سے مختلف معاملات ڈسکس کریں۔ اسی کا نام زندگی ہے، ایک ڈبے کے سامنے بیٹھے رہنے کا نام زندگی نہیں بلکہ بہت سے لوگوں کو اپنے دل کے ڈبے میں بند کرنے کا نام زندگی ہے، Selfieضرور لیں مگر Selfishہرگز نہ بنے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :