”چلتے ہو تو چین چلو“۔ آخری قسط

جمعرات 23 اپریل 2015

Abdul Rauf

عبدالرؤف

چین کے بڑتے ہوئے عالمی معاشی مفادات کے تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ توانائی کے متبادل ذرائع اور متبادل راستوں پر کام کیا جائے۔ چین لمبے عرصے سے کوریا اور ہانگ کانگ کے سمندری راستوں کو تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کرتا آ رہا ہے۔ لیکن وہاں کے علاقائی تنازعات اور بین الاقوامی افواج کی موجودگی آنے والے دونوں میں چین کی تجارتی سرگرمیوں میں رکاوٹ ڈال سکتی ہے۔

چین کو تیل کی درآمدات اور اپنی انڈسٹری کی برآمدات کو بیرونی دنیا خاص طور پر مشرق وسطی کے تیل پیدا کرنے والے ممالک تک پہنچانے کے لیے ایک مہنگا اور لمبا راستہ اختیار کرنا پڑتاہے۔ چین کا تجارتی راستہ مشرقی چین سے شروع ہوتا ہے جہاں بیجنگ واقع ہے۔ یہ راستہ ویت نام،تھائی لینڈ ، ملایشیاء، سنگاپور، برما، سری لنکا اور پاکستان پھر بحیرہ فارس سے ہوتا ہوا آبنائے ہرمز میں داخل ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

یہ تقریباً 15000 کلو میٹر پر محیط ہے ۔پھر مغربی چین تک رسائی کے لیے مزید 5000کلو میٹر کا زمینی فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ مغربی چین کا علاقہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ یہ چین کا سب سے پسماندہ علاقہ ہے۔ یہیں پر مسلم اکثریتی صوبہ سنکیانگ واقع ہے۔ لہذا اب چین نے اپنی مجموعی ترقی کے ساتھ مغربی چین کو بھی ترقی دینا چاہتا ہے۔

اِس ترقی کے لئے مختصر ترین راستہ گوادر تاکاشغر ہے۔ جس کو سڑکوں کے نظام اور ریلوے لائنوں کے ذریعے ملایا جا رہا ہے۔ یہ فاصلہ سمٹ کر 2400کلو میٹر رہ جاتا ہے۔ پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں دنیا کا عجوبہ قراقرم ہائی وے پہلے سے ہی موجود ہے اس کو مزید وسعت دی جائے گی۔قراقرم ہائی وے درہ خنجراب پر چین اور پاکستان کو آپس میں ملاتی ہے۔ یہیں سے ترکمانستان ، ازبکستان اور قازقستان چین کے مغرب میں ہیں۔

اس کے شمال میں منگولیا اور صحرائے گوبی وا قع ہے جنوب مشرق میں تبت ہے چائنہ تبت میں دنیا کی سب سے اونچی اور لمبی ریلوے لائن تعمیر کر رہا ہے۔ مغربی چین کی انڈسٹری سے پاکستان کو برآمدات میں بے حد آسانی دیکھی جا سکے گی۔ یہ راستہ چین کی رقم اور وقت دونوں کو بچائے گا۔ ماہرین کے تخمینے کے مطابق چین کو فاصلہ کم کرنے کی مد میں سالانہ 20ارب ڈالر کی بچت حاصل ہو گی اور پاکستان کو راہ داری کی مد میں سالانہ 5ارب ڈالر کا فائدہ متوقع ہے۔

چین جو کہ اب معاشی ڈریگن کے طور پر ابھر آیا ہے۔ اس سے نئی معاشی منڈیوں تک رسائی میں مدد ملے گی۔ گوادر پر چین کی موجودگی سے نہ صرف بحیرہ عرب کے پانیوں میں شمولیت ہو گی بلکہ تیل کی نہایت اہم عالمی گزرگاہ پر بھی نظر رکھی جا سکے گی۔
افغانستان کا امن قائم ہونے کی صورت میں گوادر منصوبے کے ذریعے براہ راستہ افغانستان تا وسطی ایشیاء کے سمندری حدود سے محروم ممالک کو رسائی حاصل ہو گی۔

وسطی ایشیا کے لیے مجوزہ راہ داری منصوبہ جو کہ اففانستان کے صوبے دالبندین سے قندھار کی مغربی سمت پھر ہرات سے ہوتی ہوئی ترکمانستان اور مغرب کی جانب اشک آباد شمال میں ازبکستان کے علاقے تاشقندجا پہنچے گی۔ وہاں سے ایک اور سڑک تاجکستان کے علاقے دوشنبے اور ایک بڑی سڑک قازقستان کے شہر الماتے تک جائے کی اس طرح یہ سارا علاقہ گوادر کی سمندری حدود سے استفادہ حاصل کرے گا۔


غور طلب بات یہ ہے یہاں سے اس راہ داری کی دوڑ میں ایران اور ہندوستان بھی مل چکے ہیں۔ ایران کی بندرگاہ چہار بہار جو کہ آبنائے ہرمز کے نزدیک واقع ہے۔ اس بندرگاہ کا تعمیراتی ٹھیکا ایرانی صدر حاتمی کے دورہ ہندوستان کے موقع پر دیا گیا۔ ہندوستان نے چہار بہار سے وسطی ایشیا تک رسائی کے لیے افغانستان میں سڑکوں کی تعمیر بھی مکمل کر دی ہے
اور افغانستان کے صوبے بامیان سے چہار بہار تک ریلوے لائن بچھانے کا منصوبہ بھی شامل ہے۔

ہندوستان کی یہ کوششیں گوادر میں چین کی موجودگی کی وجہ سے کیں۔ سویت یونین کے زوال کے بعد وسطی ایشیا سے جنوبی ایشیا کی طرف گیس پائپ لائن منصوبہ زیرِ غور تھا۔ مگر افغانستان پر امریکی حملے کے بعد یہ عارضی طور پر بند ہو گیا۔ اب دوبارہ سے اس پر غور ہو رہا ہے۔ اس منصوبے کو TAPIیعنی ترکمانستان، افغانستان ، پاکستان اور انڈیا گیس پائپ لائن کا نام دیا گیا تھا۔

جو کہ افغانستان سے بلوچستان کے راستے سے گزرتی ہوئی پاکستان آنی ہے۔ دوسری IPIیعنی ایران، پاکستان اور انڈیا (چائنہ کی شمولیت بھی متوقع ہے) گیس پائپ لائن جس پر ایران کی طرف سے کام ہو چکا ہے۔ یہ گیس پائپ لائن صوبہ بلوچستان سے ہی پاکستان داخل ہونی ہے۔ اس لئے بلوچستان میں شورش کے حالات پیدا کرنا کن کن طاقتوں کی مجبوری ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے۔

گوادر بندرگاہ کو پاکستان کی جغرافیائی حدود کا موتی قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ گہرے پانی کی بندر گاہ ہے جہاں پر دنیا کے بڑے بحری جہاز لنگر انداز ہو سکیں گے۔ پھر گوادر کاشغر روٹ جہاں جہاں سے گزرے گا وہاں ترقی کے نئے سے نئے باب رقم ہوں گے۔ گوادر کاشغر روٹ میں تبدیلی کی وجہ خود چین ہے۔چین اس کو مستقبل میں محفوظ رکھنے کے لیے بلوچستان کے شورش زدہ علاقوں سے نہیں گزارنا چاہتے ورنہ آئے دن حملوں کا خطرہ برقرار رہے گا۔

چین کے صدر محترم شی چن پنگ جس طرح کی تاریخ ساز سرمایہ کاری لے کر پاکستان پہنچے بالکل اسی طرح پاکستان نے بھی اپنے معزز مہمان کی مہمان نوازی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ سرخ کارپٹ استقبال پھر پاکستان کے صدر وزیر اعظم مسلح افواج کے سربراہان اور دیگر اہم شخصیات بنفس نفیس استقبال کے لیے نور خان ائیر بیس پر موجود تھیں۔ دنیا بھرکے ذرائع ابلاغ بشمول ہندوستانی میڈیا بہت غور سے اس سارے دورے اور اس سرمایہ کاری کے نتائج پر نظر رکھے ہوئے ہے۔

بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین کے بقول گوادر بندرگاہ اور توانائی منصوبے پاکستان، چائنہ، مشرق وسطی اور وسطی ایشیا کو ایک لڑی میں پرو دیں گے۔ تقریبا 46ارب ڈالر کے تجارتی معاہدے ہوئے۔ جو کہ آنے والے سالوں میں خطے کی مجموعی صورت حال کو تبدیل کر دیں گے۔ (امیریکہ نے پاکستان سے زیادہ ترفائدے سفارتی دباؤ کی بنیاد پر حاصل کیے۔ کیری لوگر بل کے تحت ملنے والی 1.5 ارب ڈالر کی مدد بھی پاکستان کو متعدد دھمکیوں اور کانگرس کی منظوری کے بعد ملتی ہے ) پاکستانی قیادت اب کسی پارٹی کی خارجہ پالیسی کو ملکی خارجہ پالیسی میں بدلنا ہو گا خلوص نیت سے چین کی طرف سے تجارتی مدد کو استعمال کر کے پاکستانی عوام جو پہلے ہی معاشی پریشانیوں اور توانائی بحران سے اپنی کمر دہری کرتی جا رہی ہے۔

اُس کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل بنایا جا سکتا ہے۔ چین کے معاشی فائدے کو اپنے فائدے میں بدل کر ہم کہہ سکیں گے کہ پاک چین دوستی ہمالیہ سے بلند اور شہد سے زیادہ میٹھی بن چکی ہے
پاک چین دوستی زندہ باد پاکستان پائندہ باد

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :