دو خوبصور ت تقریبات کا احوال !!

بدھ 13 مئی 2015

Younas Majaz

یونس مجاز

صاحبو!یو ں تو ہر ہفتے کسی نہ کسی تقریب شرکت کی غرض سے اسلام آباد جانا ہوتا ہے یہ دوستوں کی محبت ہے جو اس خلوص سے بلاتے ہیں کہ انکار ممکن نہیں ہو تا لیکن گزشتہ دنوں دو ایسی تقریبات میں شرکت کا اعزاز حاصل ہوا ہے جو یقیناْ میرے لئے تو یاد گار رہیں گی مگر قائرین کی تسکین اور معلومات کا سامان بھی ان میں موجود ہے پہلی تقریب کا تعلق عزیز دوست اختر رضا سلیمی کے ناول ”جاگے ہیں خواب میں “ کی تقریب رونمائی سے ہے انحراف اور اردو ادب وثقافت کے زیر اہتمام اس تقریب کی صدارت ڈاکٹر اقبال آفاقی نے کی مہمان خصوصی معروف مصور و اداکار جمال شاہ تھے جبکہ مہمانا نِ ا عزاز میں چہرمین اکادمی ادبیات پروفیسر ڈاکٹر محمد قاسم بگھیو اور ملک مہر بان علی مشیر برائے سیاسی امور وزیراعظم آزاد کشمیر تھے اس تقریب کی انفرادیت معروف مصور سید وصی حیدر کی مصوری کا شاہکار وہ 1001سرِ ورق ہیں جو انھوں نے ناول کی ہر جلد کے لئے علیحدہ علیحدہ بنائے ہیں اس موقع پر ان فن پاروں کی نمائش کا افتتاح کرتے ہوئے معروف مصور وادکار جمال شاہ نے بجا کہا ہے کہ وصی حیدر نے یہ اچھوتا اور دلچسب کام کیا ہے تمام تصاویر میں ایک خاص قسم کا ماحول ہے جو دبیز اور خواب کی کیفیت کا عامل ہے اور ناول کے موضوع سے ہم آہنگ بھی ایسا منفرد اور پر کشش کام پہلی بار دیکھا ہے وصی حیدر نے امیجز کے حوالے سے تاریخی کام کیا ہے جس پر وہ مبارک باد اور تحسین کے مستحق ہیں راقم کی دانست کے مطابق وصی حید ر کایہ منفرد کام ورلڈ ریکارڈ بنانے جا رہا ہے کہ شائد ہی ایسا کارنامہ کسی نے انجام دیا ہو میں نے اس موقع کو غنیمت جانا اور اپنے قائرین کے لئے اس عظیم فنکار سے اس کی مزید اچیومنٹ جاننے کی کوشش کی وصی حیدر کراچی میں پیدا ہوئے وہیں پلے بڑے تعلیم حاصل کی زمانہ طالب علمی سے ہی آرٹ کی طرف رجحان تھا 1971 کی پاک بھارت جنگ میں فوج کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے شوقیہ پینٹنگ بنائیں ، 1976میں ڈرافسمین کا کورس کیا جس سے لائنیں لگا نا آگیا بعد میں صرف مصور ی ہی کو اپنا لیا ہزاروں میں پینٹنگ بنائی ہیں جن کے اب تک 1716شو (نمائشیں )ہو چکے ہیں اسی طرح گروپ شو کے طور پر واشنگٹن ،نیویارک ،لندن ممبئی ،دہلی ،جے پور ،نیپال ،دوبئی میں 2500سے زائد گروپس نمائشیں ہوئیں دنیا کے دو بڑے آکشن ہاوس ہیں ایک کرسٹیز نیویارک دوسرا بون ہم ہے کرسٹیز کی دوبئی شاخ میں ایک نمائش کے لئے ان کی ایک پیٹنگ دو،تین فٹ کینوس کی بھی مانگی گئی تھی جو میں نے بھیجی جس کی قیمت پانچ سے چھ ہزار ڈالر رکھی گئی اور وہ چھ لاکھ روپے میں بکی تھی ان کا کہنا ہے کہ میں نے اپنے آپ کو محدود نہیں رکھا ہر قسم کی پیٹنگ کی ہے اور مصوری کو فل ٹائم جاب کے طورپر لیا ہے یک سوال کے جواب میں وصی حیدر نے کہا اپنی مرضی سے کسی خطہ میں پیدا ہونا بس کی بات نہیں کسی بھی فنکار کی پہچان پہلے اپنوں میں ہونی چائیے پھر بین الاقوامی سطح پر جائے تو مزا ہے آدمی جس مٹی میں پیدا ہوتا ہے اس کے فن میں اس کا عنصر موجود ہو تا ہے میرے فن پارے بھی اپنی مٹی کی خوشبو اور ثقافت سے جڑے ہوئے ہیں اگر یہی میں امریکہ میں ہوتا تو اس کام کی نوعیت مختلف ہوتی کیونکہ اس ماحول کے اپنے تقاضے ہیں ہم ترقی پزیر ہیں وہاں تو زبردستی آرٹ کی تعلیم دی جاتی ہے لیکن ہمارے ہاں سرکاری طور پر توجہ نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ اس طرف آنے سے اس لئے بھی محروم رہ جاتے ہیں کہ کھائیں گے کہاں سے باوجود اس کے لوگ اپنے رسک پر آرٹ کو اپناتے ہیں لیکن وسائل کی کمی کی وجہ سے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر پہچان سے محروم رہتے ہیں مجھے دیکھ لیں سیلف میڈ ہوں یہاں تک آنے میں کئی دریا عبور کرنے پڑے کیلی گرافی میں اسمائے ربانی پر کام میں دو سال لگے اس کے علاوہ 25بڑے مصوروں کو ٹربیوٹ پیش کرنے کے لئے ان کے فن پاروں کو ان کے پوٹریٹ سمیت بنایا اختر رضا سلیمی کے ناول کے سرِ ورق کے لئے 1001فن پاروں کی تخلیق پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ان فن پاروں کو اگر زمین پر بچھا دیا جائے تو یہ رقبہ118sq yardبنتا ہے یعنی 120گز پلاٹ کے سائز کی زمین کو پینٹ کیا ہے جو چھ کمروں پر مشتمل ہو سکتا ہے اور یہ دنیا میں اپنی نوعیت کاایک الگ کام ہے اختر رضا سلیمی کے ناول پر گفتگو کرتے ہوئے صدرِ تقریب ڈاکٹر اقبال آفاقی نے کہا یہ ناول اردو فکشن کی روایت میں اپنے موضوع اور مواد کے لحاظ سے ایک اہم سنگِ میل قرار دیا جا سکتا ہے اس ناول کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں حقیقت اور التباس کے درمیان تاریخیت کا کھیل بھی اپنے پورے جوبن پر نظر آتا ہے اس میں انسانی لاشعور کے آثار وباقیات تجربی روایات سے ہٹ کر اپنی شناخت کراتے ہیں پروفیسر ڈاکٹر بگھیو نے کہا ناول لکھنا آسان کام نہیں بڑی محنت اور ریاضت درکار ہوتی ہے اختر رضا سلیمی اس دریا کو عبور کرنے میں کامیاب رہے ایک ناول پورے سماج کا آئینہ دار ہو تا ہے یہ ناول بھی ادبی حلقوں کی توقعات پر پورا اترے گا مشیر سیاسی امور وزیر اعظم آزاد کشمیر ملک مہر بان علی نے کہا شاعر اور ادیب و مصور معاشرے کے حساس ترین افراد ہوتے ہیں یہ معاشرے کو جس طرح دیکھتے ہیں اپنے فن پاروں میں ویسا ہی پیش کرتے ہیں سلیمی نے بھی معاشرے اور فرد کو جس تاریخی تناظر میں دیکھا ہے قابل داد ہے ڈاکٹر وحید احمد نے کہا اختر رضا سلیمی کا ناول روایت سے ہٹ کر لکھا گیا ہے سلیمی نے ایسے سوالات اٹھائے ہیں جو عرصہ دراز سے سوچنے والے ذہنوں میں تھے اور ان کا مناسب جواب نہیں تھا یہ سوالات طبیعات اور ما بعد الطبیعات سے متعلق ہیں انھوں نے سائنس کی ادبی تشریح کی ہے ڈاکٹر صلاحالدین کا کہنا تھا کہ اس ناول کا پلاٹ جاندار اور گندا ہوا ہے کہانی اپنے پھیلاوٴ میں جن مرکزی دھاروں کو سمیٹتی ہے وہ کہانی کی یکتائی کو برقرار رکھنے میں معاون ثابت ہوتی ہے ضیا ء المصطفیٰ ترک کے مطابق یہ ناول اپنے موضوع ،پلاٹ ،ٹریٹمنٹ اور منظر نامے کے لحاظ سے خاصے کی چیز ہیں اس ناول پر بنائے ہوئے وصی حیدر کے سرِورق جہاں اختر سے محبت کے آئینہ دار ہیں وہیں شعرو ادب کے ساتھ ان کی گہری دلچسبی کا بھی پتہ دیتے ہیں سعید احمد نے کہا اختر رضا کا کمال ہے کہ اس نے زمان کے کردار کی صورت میں زندگی کی پراسراریت اور داخلی اخفا کو حقیقی زندگی کے ذریعے پر اثر انداز میں پیش کیا ہے تقریب میں اسٹیج سیکرٹری کے فرائض رحمنٰ حفیظ نے سر انجام دئیے ۔

(جاری ہے)


صاحبو !دوسری تقریب خوبصورت تقریب کا احوال کچھ اس طرح ہے کہ اسلام آباد میں ہر سال میرے بھانجھے ملک مہربان علی ( خصوصی مشیربرائے سیاسی امور وزیر اعظم آزاد کشمیر )اور حاجی ملک رمضان سی ڈی اے کے تعاون سے نیزہ بازی کے مقابلے منعقد کرواتے ہیں اس سال بھی یہ مقابلہ اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ منعقد ہوا اختتام پر تقریب تقسیم انعامات کا دور چل رہا تھا تھکاوٹ کی وجہ سے میں ایک خالی کرسی پر کونے میں ایک ادھیڑ عمر شخص کے پاس جا بیٹھا پہلی نظر میں یہ بزرگ مجھے سادہ لوح دیہاتی لگے لیکن جب تعارف اور پھر گفتگو شروع ہوئی تو ان کا ہر جملہ ایک انکشا ف اور مجھے حیرت زدہ کرتے چلا جارہا تھا میرا قد چھوٹا اور ان کا قد عظمت کا مینار بنتا چلا جارہا تھا جی! میرا نام نور حسین ہے انگلینڈ میں ہوتا ہوں وہاں ایک بیٹا عثمان بیرسٹر ہے جبکہ دوبیٹے احتشام اور ثاقب ڈاکٹر ہیں میں خود بھی پہلے میڈیسن کا وہاں کاروبار کرتا تھا اب وقت اور ہمت نہیں رہی سو کاروبار بیچ دیا آج کل وقت گزاری کے لئے چھوٹی موٹی جائیداد کی خرید وفروخت کر لیتا ہوں وطن کی یاد ستاتی ہے تو ہر چھ ماہ بعد پاکستان آجاتا ہوں لیکن اب کی بار اپنے سکول کی تقریب تقسیم انعامات کے سلسلہ میں آیا ہوں مجھے بھی اس میں شرکت کی دعوت دیتے ہوئے انھوں نے کہا یہ سکول میں نے بارہ کہو کے مضافات میں نور فاوٴنڈیشن کے نام سے غریب اور یتیم بچوں کے لئے گزشتہ سال کھولا ہے جس کا افتتاح آپ کے بھانجھے ملک مہربان علی نے کیا تھا جہاں 200 سے زائد مستحق بچوں کو مفت تعلیم کے ساتھ کتابیں اور یونیفارم بھی فراہم کی جاتی ہے سو میں نے تحسین بھرے جذبات کے ساتھ ان کی اس دعوت کو قبول کیا اور مقررہ دن راقم( یو نس مجاز ) امجد قریشی ،سید غفران شاہ اور ضیا شاہ ،ملک مہربان علی مشیر وزیراعظم آزاد کشمیر جو اس تقریب کے مہمان خصوصی بھی تھے کے ہمراہ شرکت کے لئے بارہ کہو کے دور افتادہ علاقے جنڈالہ جا پہنچے جہاں سکول کے بچوں اساتذہ اور اہلیان علاقہ کی کثیر تعداد نے ہمارا استقبال کیا تقریب میں میرپور سے معروف بزرگ صحافی اللہ دتہ خاکسار اور بیرسٹر نذیر انگلینڈ بھی موجود تھے سکول کے بچوں اور بچیوں نے ملی نغموں ،ٹیبلو اور مزحیہ خاکوں سے حاضرین کو محظوض کیا جو یقیناْ ان کی فی میل اساتذہ کی محنت کا ثمر تھا بچوں کی ذہانت اور کارکردگی اس بات کی غماض تھی کہ واقعی ذہانت کسی کی میراث نہیں ،اس موقع پر نور حسین نے سکول کا درجہ ہائی کلاسیز تک لے جانے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ اس سال سے چھٹی کی کلاس بھی شروع کی جائے گی انھوں نے اہلیان علاقہ کے تعاون کا شکریہ ادا کیا مہمان خصوصی ملک مہربان علی نے نور حسین کی اس کاوش کو سراہتے ہوئے کہا کہ انھوں نے اس دور افتادہ علاقہ میں کئی اایکڑ اراضی خرید کر دیگر لوگوں کی طرح فارم ہاوس بنانے کے بجائے تعلیم کے فروغ خصوصاْ غریب بچوں کی تعلیم کے لئے اپنی جائیداد اور وسائل وقف کر کے جو عظیم کارنامہ سرانجام دیا ہے بہت کم لوگوں کے حصہ میں یہ اعزاز آتا ہے اس طرح کے اور بھی صاحب ِ ثروت لوگ خصوصاْ تعلیم کے شعبہ میں آگے آئیں تو ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے تقریب کے آخر میں مہمان خصوصی ملک مہربان علی نے اعلیٰ کارکردگی اور نتائج کا مظاہرہ کرنے والے بچوں اور اساتذہ میں انعامات اور شیلڈ تقسیم کیں خوبصورت اور یادگار تقریب میں شرکت کے بعد واپسی پر میں یہ سوچ رہا تھا کہ نور حسین عمر کے اس حصہ میں جب وہ ستر کی دھائی کو کراس کر رہے ہیں مالی آسودگی کو انجوائے کرنے کے بجائے خدمت خلق کے لئے سرگرداں ہیں اور تعلیم جیسے مشکل شعبے کی سرپرستی کے لئے کمر بستہ ہو گئے ہیں یقیناْ اللہ تعالیٰ کی خصوصی لطف و کرم کے حامل ہیں جس نے انھیں دنیا کی دولت سے تو مالا مال کیا ہی ہے آخرت توشہ بھی ان کے نصیب میں لکھ د یا ہے جس کی جستجو ہر مسلمان کو ہوتی ہے اللہ تعالیٰ ہم سب پر اپنی عنایت اور فضل و کرم کے دروازے واہ کرے۔

آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :