میٹھی نیند

جمعہ 15 مئی 2015

Khalid Irshad Soofi

خالد ارشاد صوفی

آج کے اخبارات میں چھپی دو خبریں میرے سامنے ہیں اور تیسری جو چند روز قبل شائع ہوئی حافظے میں موجود ہے۔ان تینوں خبروں کو سامنے رکھتے ہوئے وہ مانوس نوکیلا سوال ذہن میں ابھر رہاہے جس کا جواب عام پاکستان کی حسرت بن چکاہے۔ کہ پاکستان میں شفاف اور پائیدار جموریت کا آغاز کب ہوگا اور ہمارے سیاست داں اصول پسندی،انصاف اور باوقار طرز عمل کو اپنا طرہ امتیاز کب بنانے پرآمادہ ہوں گے۔

مذکورہ تینوں خبروں میں سے پہلی کا تعلق پاکستانی سیاست سے ہے اور دوسری و تیسری کا پردیس کے کاروبار سیاست سے۔دوسری خبر برطانوی انتخابات سے متعلق ہے جس کے مطابق برطانیہ میں حالیہ انتخابات میں ایک بار پھر وزیراعظم ڈیوڈ کمیرون کی کنزروٹیو پارٹی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگئی ہے ان انتخابات میں ہارنے والی تینوں جماعتوں لیبر پارٹی،لبرل ڈیمو کریٹس پارٹی اور یوکپ پارٹی کے سربراہان ایڈملی پنڈ،نک کلیگ اور نائجل فراج نے صدارت سے استعفیٰ دے دیا ہے۔

(جاری ہے)


تیسری خبر یوکرائن کے ایک سیاستدان اینڈری فائروشنک سے متعلق ہے اینڈری مائروشک یوکرائن کی پارلیمنٹ کارکن ہے۔ایک فوٹو گرافر نے پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران موصوف کی اس وقت تصویر بنائی جب وہ اپنے موبائل فون سے پیغامات ارسال کرنے میں مصروف تھے۔ میڈیا میں اس تصویر سے ایک ہنگامہ کھڑاہوگیا اور اگلے روز اینڈری مائروشنک نے پارٹی کو اپنا استعفیٰ یہ کہہ کر پیش کر دیا کہ اگر میرے ووٹروں کو میرا طرز عمل ناشائستہ محسوس ہوا ہو تو میں اس پر معذرت خواہ ہوں۔

مجھے ایوان میں بیٹھ کر ملکی ترقی کے لیے غور و خوض کرنا چاہیے تھا لیکن میں وہاں ایک دوست کو پیغامات ارسال کررہا تھا ۔جس پر میں بے حد شرمندہ ہوں اور خود کو عوام کی نمائندگی کا حقدار نہیں سمجھتا۔
ان دونوں خبروں کے بعد اب پہلی خبر پر توجہ دیجیے آج کے اخبارات کی شہ سرخی حلقہ این اے122کے دھاندلی کیس کے دوران نادرا کی طرف سے جمع کروائی گئی تفصیلی رپورٹ کے مطابق 93852ووٹوں کی تصدیق نہیں ہوسکتی جب کہ دیگر بے ضابطگیاں بھی سامنے آئی ہیں اس پر پی ٹی آئی کا موقف ہے ایاز صادق جعلی ووٹوں سے جیتے جبکہ ن لیگ کا موقف یہ ہے کہ اس رپورٹ میں منظم دھاندلی ثابت نہیں ہوئی۔

اسی طرح حلقہ125میں دونوں جماعتیں اسی طرح اپنے اپنے موقف پر کھڑی ہوتی ہیں۔بلکہ اب تو الیکشن ٹربیونل کے فیصلہ بھی منسوخ ہوچکاہے۔
تینوں خبروں کے بعد اپنے اس نوکیلے سوال کی طرف آتے ہیں۔ چلیے مان لیا کہ برطانیہ کو جمہوریت کی ماں کا درجہ حاصل ہے لہٰذا وہاں کے انتخابات اور سیاستدانوں کو قابل تعریف اور تقلید ہونا چاہیے لیکن یوکرائن جیسے شورش زدہ اور سیاسی انحطاط کے شکار ملک میں اینڈری مائروشنک نے جس باوقار طرز عمل کا مظاہرہ کیا ہے اس سے یہ سبق ضرور حاصل کیا جاسکتاہے کہ گھپ اندھیرے سے روشن سویرے تک کا سفر طے کرنے کے لیے کسی نہ کسی کو تو پہلا دیا جلانا ہی ہوتاہے۔


یوکرائن کے سیاسی حالات ہم سے کہیں زیادہ بگاڑ اور بدصورتی کے مظہر ہیں لیکن جب ملک میں میڈیا حق کا پرچار کرنے لگے اور عوام بیدار ہو جائیں تو سیاست دانوں کے ضمیر بھی مفادات کی گہری نیند سے بیدار ہونے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ لیکن افسوس کے ساتھ اس حقیقت کا ادارک کرنا پڑتاہے کہ ارض پاک میں گھپ اندھیرے سے روشن سویرے کی منزل کے لیے کوئی عازم سفر ہونے کے لیے تیار نہیں میڈیا مالکان کا تعلق کارپوریٹ کمیونٹی سے ہے اور ان کے مفادات سیاستدانوں سے وابستہ ہیں لہٰذا حق کاپرچار کون کرے گا۔

اگرکسی سیاسی معاملے میں کاروباری مفادات کو ٹھیس نہیں پہنچی۔تو کبھی کبھار سیاستدانوں کے کرتوتوں پر بھی ایک آدھ خبر چلا دی جاتی ہے او ر اس کے بعد عوام کو لمبی تقریریں سننے کی سزا ملتی ہے۔ جب میڈیا میں ”کھرا سچ“ بولنے والے اور ”مقابل“ آنے والے کے پیچھے ذاتی تعصب،عناد اور مفاد چھپا ہوا ہو اور عوام دال روٹی کے مسائل میں ڈوبے ہوں تو سیاستدان بھی اپنے ضمیر کو ”میٹھی نیند“ سے بیدار کرنے کی کوشش نہیں کرتے اور وزیر سے مشیر بن جاتے ہیں لیکن اپنے”حسین خواب“ کا سلسلہ ٹوٹنے نہیں دیتے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :