داعش جیسی تنظیمیں کیوں بنتی ہیں؟

بدھ 20 مئی 2015

Zabeeh Ullah Balghan

ذبیح اللہ بلگن

ایوی زیڈرک کی عمر انیس سال ہے اور وہ امریکی ریاست نویڈا کی رہنے والی ہے ۔ایوی زیڈرک یونیورسٹی آف نویڈا میں زیر تعلیم ہے ۔ایوی بچپن سے سے ہی بہت اچھی مقرر ہے اور طلباء تنظیموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے ۔سکول کی سطح پر وہ تقریری مقابلوں اور مباحثوں میں متعدد انعامات حاصل کر چکی ہے ۔ وہ یونیورسٹی آف نویڈا میں سیاست کی ڈگری حاصل کر رہی ہے۔

اس کے ساتھ وہ اپنی یونیورسٹی میں ڈیمو کریٹک پارٹی کی طلبہ جماعت ینگ ڈیموکریٹس سے منسلک ہے۔گزشتہ ہفتے سے قبل تک شائد اسے اس کے شہر رینو میں بھی کوئی نہیں جانتا تھا مگر پھر ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے ایوی زیڈرک کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا اور اس کی کہی ہوئی باتوں پر اخبارات اور ٹی وی چینلز پر مباحثے شروع ہوگئے ۔

(جاری ہے)

واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایوی زیڈرک کو معلوم ہوا کہ ریبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوا رجیب بش اس کے شہر رینو میں اپنے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کیلئے آرہے ہیں۔

جیب بش کا یہ پروگرام رینو کے ”ناں ہال“میں منعقد ہو رہا تھا ۔ایوی زیڈرک نے اس پروگرام میں شرکت کا فیصلہ کیا اور ”ناں ہال “ جا پہنچی ۔وہاں سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے چھوٹے بھائی جیب بش نے اپنی تقریر میں کہا کہ ”باراک اوباما کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے مشرق وسطی میں داعش کو وجود میسر آیا“ ۔پروگرام کے اختتام پر جب جیب بش صحافیوں میں گھرے ہوے تھے ایوی زیڈرک آگے بڑھی اور اس نے جیب بش کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ”جناب جیب بش! دولت اسلامیہ عراق میں امریکی مداخلت کا شاخسانہ ہے اور صدر اوباما کو اس کا ذمہ دار ٹھہرانا ایسا ہی ہے جیسے کوئی اپنی گاڑی کا ایکسیڈنٹ کر دے اور خود ذمہ داری لینے کی بجائے مسافروں کو برا بھلا کہنا شروع کر دے۔

مجھے کہہ لینے دیجئے کہ دولتِ اسلامیہ آپ کے بھائی صاحب نے بنائی تھی“۔ ایوی زیڈرک نے جیب بش سے مزید پوچھا کہ وہ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ مشرقِ وسطی میں داعش اس لیے بنی کہ صدر اوباما نے وہاں سے امریکی فوجوں کو واپس بلانا شروع کر دیا؟۔آپ کہتے ہیں کہ دولتِ اسلامیہ اس لیے بنی کہ ہم وہاں سے فوجیں واپس بلا رہے ہیں۔آپ اس کی ذمہ داری صدر جارج بش پر ڈالنے کی بجائے صدر اوباما پر ڈال رہے ہیں۔

وہاں امریکی فوج بھیجنے والے صدر بش تھے نہ کہ صدر اوباما۔ دولتِ اسلامیہ پیدا کرنے کی ذمہ داری عراق کی اتحادی انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے جس نے عراق کی پوری حکومت کو تلپٹ کر کے اسے برطرف کر دیا۔دولتِ اسلامیہ اس وقت بنی جب عراقی فوج کے 30 ہزار ملازمین کو نکال باہر کر دیا گیا۔ان کے پاس کوئی ملازمت نہیں تھی، لیکن اس کے باوجود انہیں فوج کے اسلحے اور ہتھیاروں تک رسائی حاصل رہی“۔


ایوی زیڈرک نے میرے جیسے عام صحافی کارکنوں کو اس سوال کا جواب فراہم کر دیا ہے کہ داعش اور القاعدہ جیسی تنظیمیں کیوں وجود میں آتی ہیں ۔ جارحیت امن کی ابتدا کبھی نہیں ہوسکتی اقوام عالم میں لڑی جانے والی جنگیں اس موقف کو تقویت فراہم کرتی ہیں کہ جارحیت شورش اور انتشار کو جنم دیتی ہے ۔ نا انصافی اور دھونس احساس محرومی اور معاشروں میں عدم توازن پیدا کرتی ہے ۔

اعراق کے معاملے میں کون نہیں جانتا کہ اعراقی حکومت پر عائد کیے جانے والے امریکی الزامات محض الزامات ہی ثابت ہوئے ۔ سی آئی اے کے سابق سربراہ جارج ٹینٹ کے بقول اعراق میں صدر صدام حسین کے اقتدار کا خاتمہ مقصود تھا یہی وجہ ہے کہ اعراق پر کیمیائی ہتھیاروں کا الزام لگایا گیا ۔ ایک دنیا نے وہ منظر دیکھا کہ اعراق کو فتح کر لینے اور اپنی مرضی کی حکومت قائم کرلینے کے باوجود بھی وہ کیمیائی ہتھیار برآمد نہ ہو سکے جن کے جواز پر اعراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی تھی ۔

امریکی طالبہ ایوی زیڈرک نے درست کہا ہے کہ اعراقی حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی 30ہزار ملازمین کو ملازمت سے فارغ کر دیا تھا۔ ہمیں یاد رہنا چاہئے کہ ان ملازمین کا قصور یہ تھا کہ یہ لوگ سنی مسلمان تھے ۔ سنی مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا گیا اور ان کیلئے پارلیمنٹ کے دروازے بند کر دیے گئے ۔ نورالمالکی کی حکومت میں کوئی ایک بھی سنی وزیر نہیں تھا ۔

اس بے اعتدالی اور نا انصافی کے خلاف اعراق کے سنی مسلمان اگر دولت اسلامیہ سے وابسطہ نہ ہوتے تو اور کیا کرتے ۔ دراصل یہ مقتدر قوتیں ہیں جو دنیا بھر میں نا انصافی کی بنیاد پر حکومتوں میں اکھاڑ پچھاڑ کا موجب بنتی ہیں اور پھر اس نا انصافی کے رد عمل میں لوگ ان قوتوں کے خلاف صف آرا ء ہو جاتے ہیں ۔ پہلی خلیج جنگ نے القاعدہ کو جنم دیا تو افغانستان کی جنگ نے طالبان پید اکئے ۔

شام میں بشارلاسد کے معاملے میں بین الاقوامی طاقتیں بلیک میل ہوئیں تو وہاں داعش نے قدم جما لیے اور مجھے معاف کر دیجئے گا اب یہی بین الاقوامی طاقتیں یہ سب مصر میں کر نے جا رہی ہیں ۔مصر کے منتخب صدر محمد مرسی کو اقتدار سے الگ کرنا اور سزائے موت کی سزا کا فیصلہ امکان پید اکرتا ہے کہ مصر کے وہ لوگ جن کی پر امن جدوجہد پر شب خون مارا گیا وہ رد عمل میں بندوق اٹھا لیں ۔

اب اگر کوئی معترض ہو کہ مصر میں عسکری تنظیمیں کیوں وجود میں آگئی ہیں تو کیا اس اعتراض کو معصومیت نہیں کہا جائے گا؟ ۔ اخوان لمسلمون مصر کی ایک قدیم سیاسی اور مذہبی جماعت ہے اس جماعت نے ہمیشہ جمہوری انداز میں جدوجہد کی اور ایک بھر پور سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں 51.73فیصد ووٹ حاصل کیے اور 30جون2012کو محمد مرسی کو صدر بنانے میں کامیاب ہو گئی ۔

مرسی کے اقتدار کے محض ایک سال بعد یعنی 3 جولائی 2013کو جنرل السیسی کے ذریعے محمد مرسی سے اقتدار چھین لیا گیا اور انہیں قید میں ڈال دیا گیا ۔ یہیں بس نہیں ہوئی اخوان المسلمون کی قیادت اور کارکنوں کو گرفتار کر کے معمولی الزامات کی بنیاد پر سنگین سزائیں سنائی گئیں ۔ اور بالآخر محمد مرسی اور علامہ یوسف قرضاوی کو بھی سزائے موت سنا دی گئی ۔

اگر مستقبل میں اخوان المسلمون کے بعض جذباتی کارکن بندوق اٹھا کر مصری فوج اور سکیورٹی اداروں پر حملہ آور ہوتے ہیں تو انہیں کس دلیل کی بنیاد پر اس عمل سے روکا جاسکے گا؟۔ ہمارے سامنے فلسطین کی مثال موجود ہے جہاں بین الاقوامی طاقتوں نے اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی انسانی حقوق کی پامالی پر چپ سادھ رکھی ہے جبکہ فلسطین کی جانب سے فائر ہونے والے ایک راکٹ لانچر پر بھی آسمان سر پر اٹھا لیا جاتا ہے ۔

اب زرا بتائیے فلسطینی عوام بین الاقوامی قوانین اور اور ضابطوں کا احترام کیونکر کریں گے ۔
بین الاقوامی طاقتیں جب ظلم اور بربریت کے ذریعے دیگر ممالک میں مداخلت کریں گی اور عوام کی مرضی کے برعکس اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنا چاہیں گی تو یقینی طور پر لوگوں کا جمہوریت اور پر امن جدوجہد سے اعتماد اٹھ جائے گا اور وہ اپنے حقوق کی بازیابی کیلئے دیگر راستے اختیار کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ایوی زیڈرک نے بجا کہا ہے کہ داعش جارج ڈبلیو بش نے بنائی تھی ۔ میں اس میں اضافہ کرتے ہوئے عرض کرو ں گا دنیا بھر میں موجود عسکریں تنظیموں کا جائزہ لے کر دیکھ لیجئے ان کے قیام کے پس پردہ عوامل میں عوامی استحصال ، نا انصافی اورجارحیت ضرورنمایاں ہوگی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :