اس حمام میں سب ننگے ہیں

ہفتہ 23 مئی 2015

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

2012ء میں ایک نجی ٹی وی چینل کی آف لائن ریکارڈنگ حریف چینلز کی طرف سے نشر کر دی گئی تو " میڈیا گیٹ سکینڈل" کا آغاز ہوا۔ 15جون 2015۔ یہ ویڈیو ریکارڈنگ لیک ہونے کے بعد ایک طوفان ِ بد تمیزی برپا ہو گیا۔ ایک دوسرے پر الزامات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس وقت یہ نجی چینل تیزی سے ترقی کرتے ہوئے ایک ایسی سمت میں جا رہا تھا جہاں وہ تمام مقابل چینلز کو پیچھے چھوڑ دیتا۔

لیکن ایسا نہیں ہونے دیا گیا۔ اخلاقی طور پہ ہر کوئی اس بات پر متفق تھا کہ آف لائن گفتگو کو نشر کر دینا کسی بھی صورت شائستگی اور اخلاقیات کے دائرے میں نہیں آتا لیکن اس کے باوجود نجی ٹی وی چینل کے اینکر پرسنز محترم مبشر لقمان اور محترمہ مہر بخاری کو چینل چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ جس کے فوری بعد دونوں اینکرز دوسرے چینلز سے وابستہ ہو گئے۔

(جاری ہے)


اس کے بعد الزامات کا ایک نہ رکنے والے سلسلہ شروع ہو گیا۔ جو آج تک جاری ہے۔ جب یہ ویڈیوں لیک ہوئی تو کسی نے اس طرف توجہ نہیں دی کہ یہ حرکت کرنے والے کون تھے اور ان کے مقاصد کیا تھے۔ صرف اینکرز پر تابڑ توڑ حملے شروع کر دیے گئے۔ اس سکینڈل کا سکرپٹ کہاں لکھا گیا؟ اس پر عمل کرنے کے لیے کردار کیسے چنے گئے؟ اور ان کرداروں کو کیا ضمانت دی گئی؟ ان سوالوں کا جواب کسی نے ڈھونڈنے کی زحمت ہی نہیں کی ۔

اگر ان سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کی کوشش کی جاتی تو کچھ بعید نہیں تھا کہ اس حمام کا کچا چھٹا سب کے سامنے آ جاتا جو یقینا نہ تو "اشرافیہ" کے حق میں تھا نہ ہی میڈیا کے " مہان" لوگوں کے حق میں تھا۔ لہذا صرف ایک چینل پر لعن طعن اور اس کی ریٹنگ گرانے کی بونڈھی سی کوشش کر کے ہی خاموشی اختیار کر لی گئی ۔ اسی کھینچا تانی کے دوران جون 2012 میں ہی 19 نامور صحافیوں اور اینکرز کی ایک لسٹ میڈیا کی زینت بنی ۔

اس لسٹ میں ایک معروف کاروباری شخصیت کی طرف سے ممکنہ طور پر صحافیوں کو رقوم دی گئی تھیں۔ اس تنازعے کو ان صحافیوں اور اینکرز کی جانب سے تردید کے بعد ختم تصور کر لیا گیا ۔ حیران کن بات یہ تھی کہ اس فہرست میں رقم، اس کی ادائیگی کا طریقہ کار، دیگر سہولیات، بینک کا نام اور اکاؤنٹ نمبر تک درج تھے۔ لیکن اس معاملے پر دھول پڑ گئی یا مٹی ڈال دی گئی۔


ستمبر2013 ء میں ایک ہندوستانی اخبار ہندوستان ٹائمز میں ایک سٹوری شائع ہوئی جس میں مستقبل قریب میں شروع ہونے والے ایک میڈیا گروپ کا نام لے کر اس کا تعلق ایک انڈر ورلڈ ڈان اور پاک فوج کے ساتھ جوڑا گیا۔ اس سٹوری میں کراچی کے ایک معروف کاروباری شخصیت کو بھی نشانہ بنایا گیا اور ان کا تعلق بھی جرائم کی دنیا کے ساتھ جوڑا گیا۔ اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی کہ یہ نیا میڈیا گروپ جرائم کی دنیا سے سامنے آ رہا ہے۔

پاکستان کی طرف سے شدید احتجاج اور اس سٹوری کا ذریعہ سامنے لانے کے پریشر کے بعد ہندوستان ٹائمز نے ایک اندرونی تحقیق کی جس میں یہ حیران کن انکشاف ہوا کہ اس تمام سٹوری کے پیچھے پاکستان کا ایک میڈیا گروپ ہے جس میں ان کا ساتھ انڈیا سے بھی دیا گیا اور ہندوستان ٹائمز سے C.N نے ان کا ساتھ دیا(تحقیقاتی رپورٹ میں ہندوستان ٹائمز کے سینئر عہدیدار کے نام کے بجائے صرف پہلے حروفC.N.ظاہر کیے گئے )اور اس سٹوری کا مقصد صرف نئے ابھرنے والے میڈیا گروپ اور کراچی کی ایک کاروباری شخصیت کو نیچا دکھانا تھا۔

اور یہ سٹوری پہلے ہی کم و بیش تین مہینے پہلے پاکستان میں شائع ہو چکی ہے۔یہ متنازعہ سٹوری ہندوستان ٹائمز کے سینئر عہدیدار C.N کے تعاون سے نہ صرف ہندوستان ٹائمز کے اتوار کے ایڈیشن اور ویب سائٹ پہ شائع ہوئی بلکہ حیران کن طور پر اس کو فرنٹ پیچ سٹوری کے طور پہ شائع کیا گیا۔ اندرونی تحقیقات پر عہدیدار نے خود پر موجود دباؤ کے متعلق بھی بتایا۔

اندرونی تحقیقات اور حقائق کے سامنے آنے پر ہندوستان ٹائمز نے اس معاملے پر نہ صرف صفائی پیش کی بلکہ یہ سٹوری بھی ہٹا دی ۔ اور معافی بھی مانگی گئی۔
اپریل 2014 میں سینئر صحافی حامد میر پر ہونے والے حملے کے بعد کم و بیش دو گھنٹے قومی سلامتی کے حامل ادارے اور اس کے سربراہ کے نام و تصویر کے ساتھ خبریں چلاتے ہوئے انہیں ملزم ٹھہرایا جاتا رہا یہ سوچے بناء کہ اس کے نتائج عالمی سطح پر پاکستان کے خلاف کس حد تک نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔

حکومتی کاروائی کے بعد معافی تلافی ہو گئی اور اس معاملے کو بھی چوہدری شجاعت صاحب کے " مٹی پاؤ فارمولے" کے تحت بھلا دیا گیا۔
ابھی " بول " نے " بولنے" کے لیے لب کھولے ہی نہیں کہ لبوں کو سینے کی کوشش شروع کر دی گئی۔ اس بات میں ہرگز دو رائے نہیں کہ اگر "ایگزیکٹ" پاکستان کے وقار کے منافی کسی بھی کام میں ملوث ہے تو اسے ایسی سخت سزا دی جائے کہ آئندہ کسی کو ایسی حرکت کرنے کی جرات نہ ہو سکے۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ نیو یارک ٹائمز اور اس کے نمائندے کے کردار کو جانچنا بھی ضروری ہے۔ ڈکلن والش(DECLAN WALSH)جسے مئی 2013 میں ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر پاکستان سے نکال دیا گیا تھا اس کی پاکستان کے بارے میں رپورٹ سے اگر ہمارے ادارے اتنی برق رفتار کاروائی کرسکتے ہیں تو پھر یقینا کوئی شک نہیں کہ ان میں ہندوستان ٹائمز اور نیویارک ٹائمز کی ہی دوسری کئی رپورٹس پر بھی کاروائی کرنے کی صلاحیت یقینا ضرور ہو گی۔

اب یہ صلاحیت استعمال کیوں نہیں کی جاتی اس کا جواب تو ادارے خود دے سکتے ہیں۔ اور اس بات کا جواب بھی یقینا دینا ضروری ہو گیا ہے کہ مذکورہ بالا میڈیا کے تمام سکینڈلز پہ کیا کاروائی کی گئی ؟ یا اگر نہیں بھی کی گئی تو کب کی جائے گی ؟ اگر تو ایگزیکٹ کے معاملے میں صرف جعلی ڈگریاں ہی اصل جرم ہیں تو جب تک جرم ثابت نہ ہوجائے کسی میڈیا گروپ کو اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ ذاتیات کے بخیے ادھیڑے جائیں۔

اور جرم ثابت ہو جائے تو قرار واقعی سزا دی جائے۔ لیکن اس کے ساتھ اس امر کی طرف بھی توجہ دینا ضروری ہے کہ کہیں میڈیا گروپس اس معاملے کو مستبقل قریب میں آنے والے چینل بول کے خلاف تو استعمال نہیں کر رہے۔
میڈیا گیٹ اسکینڈل، مبینہ سہولیات لینے والوں کی لسٹ، ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ، صحافی پر حملہ ، اور ایگزیکٹ و بول میڈیا نیٹ ورک سمیت ہر معاملے کی غیر جانبدرانہ تحقیقات ہونی چاہیے اور ذمہ داران کا تعین کر کے انہیں قابل مثال سزائیں دی جائیں۔

ایسا ہرگز نہیں ہے کہ کسی کو کلین چٹ اور کسی کو چارج شیٹ دے دی جائے۔ کیوں کہ یہ ایک ایسا "حمام " ہے جس میں سب " ننگے " ہیں۔ اور کسی بھی قسم کی جانبدارانہ سوچ معاملات کو ایک بند گلی میں لے جائے گی ۔ ایگزیکٹ کو سزا ضرور دیجیے۔ سخت سزا۔ لیکن جرائم ثابت ہونے کے بعد۔ حقائق سامنے لائیے ۔ باقی منصفی کا حق صرف منصفوں کے دیجیے۔ اور ایک مصمم ارادہ کر لیجیے کہ پاکستان کے لیے ناپسندیدہ شخصیت کے لفظوں پہ دکھائی جانے والی برق رفتاری مذکورہ معاملات میں بھی دکھائی جائے گی ۔ ایسا کر کے ہی ہم یہ کہہ پائیں گے کہ انصاف کا" بول بالا" ہوا۔ ایسا نہ ہو کہ صرف یہی کہا جائے کہ صرف" بول والا" کو ہی کھڈے لائن لگانے کے لیے سب کیا گیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :