بے زبان بیٹیاں !

پیر 25 مئی 2015

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

چھ ماہ پہلے ایک ای میل موصول ہوئی تھی میں نے نظر انداز کر دیا گزشتہ دنوں موصول ہونے والی ای میل پھر مجھے چھ ماہ پیچھے لے گئی ۔محسوس ہوا بیٹیوں کے غم سانجھے ہیں ، حواء کی بیٹی کل بھی مظلوم تھی آج بھی مظلوم ہے ۔ای میل پڑھنے کے بعد سوچ رہا ہوں کہ ہم کس طرح کے معاشرے میں جی رہے ہیں دنیا کی کون سی برائی ہے جو ہم میں نہیں پائی جاتی ۔ یقین کریں اب تو کسی پر اعتبار کرنے کو دل ہی نہیں کرتا ۔

مسجد اور بازار سے لے کر تھانے اور کچہری تک ہر جگہ جھوٹ بکتاہے، جھوٹ کی تجارت عام ہے سچ کا کوئی خریدار نہیں ۔جو سچ کے سوداگر ہیں وہ صبح سے شام تک بیٹھے رہتے ہیں لیکن انہیں کو ئی خریدار نہیں ملتا اور جو جھوٹ بیچنے والے ہیں وہ اشراق سے پہلے اپنا سامان بیچ کر نئے جھوٹ کی تلاش میں نکل جاتے ہیں ۔

(جاری ہے)

کئی دوستوں سے سن چکا ہوں کہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے کام اور کارو بار کے لیئے کسی غیر مسلم سے معاہدہ کریں کم از کم وہ جھوٹ تو نہیں بولے گا ، دھوکا تو نہیں دے گا اور معاہدے کی خلاف ورزی تو نہیں کرے گا۔

کیا سرکار کیا عوام سب ایک جیسے ہیں ،آپ نے فرد نکلوانی ہے سسٹم کام نہیں کر رہا آپ جیب سے ہڈی نکال کے مٹھی میں تھما دیں سسٹم فورا ٹھیک ہو جائے گا ، آپ پانچ سو کا چالان بھرنے گئے ہیں ،جواب ملے گا بینک بندہو چکا ہے آپ پانچ سو کے ساتھ چھ سو نکال کے دے دیں بینک فورا کھل جائے گا۔ آپ کسی ریڑھی والے سے پھل خریدیں قسمیں کھائے گا کہ ہماری یہ عادت نہیں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت آپ گھر آکر پھل دیکھیں گے تو سر تھام لیں گے۔

کوئی ایک ادارہ ، کوئی ایک ڈیپارٹمنٹ ، شعبہ اور کو ئی ایک شہر دکھا دیں جہاں جھوٹ نہ بکتا ہو ، رشوت نہ لی جاتی ہو ، بغیر سفارش کے کام ہو جاتا ہو ، جہاں ہر روز میرٹ کا جنازہ نہ نکلتا ہو ، جہاں غریب کی عزت محفوظ ہو ، گالی گلوچ نہ ہو ، لڑائی جھگڑا نہ ہو ، نفرتیں اور کدورتیں نہ ہوں ، لہجوں میں تلخی نہ ہو ، دلوں میں بغض نہ ہو ، بیٹیوں کے حقوق ادا کیئے جاتے ہوں ، جہاں رشتہ داروں کا آپس میں سلوک ہو ، جہاں ہمسایہ اپنے ہمسائے سے خوش ہو اور جہاں تحمل او ربرداشت کی ایک چھٹانک دیکھنے کو مل جائے۔

عموما دوستوں سے جب ان مسائل پر بحث ہوتی ہے تو میں کوشش کرتا ہوں انہیں مایوس نہ ہونے دوں ، عروج وزوال کے قانون کے حوالے دیتا ہوں اور انہیں تسلی دیتا ہوں کہ آج کے تمام ترقی یافتہ ملک اس دور سے گزرے ہیں لیکن جب تنہائی میں ہوتا ہوں تو خود پر ہنسی آتی ہے کہ کوئی قوم اتنی آگے جا کر سدھر سکتی ہے ؟ جو قوم گزشتہ دو سا ل سے گدھے کھا رہی ہو ، جس کے وزیرا عظم ،وزراء ، مقننہ اور عدلیہ کے کچن تک میں گدھے کا گو شت پکتا ہو وہ قوم پستی اور زوال کی کس حد تک جا چکی ہو گی ذرا سوچیں ؟
بات دور نکل گئی ، ای میل پڑھنے کے بعد سوچتا رہا کہ اس پر کیا لکھوں ،میں اس بہن کے احساسات کی ترجمانی اپنے الفاظ میں کروں تو شاید حق ادا نہ ہو سکے میں وہی الفاظ یہاں نقل کر رہا ہوں ۔

”ہماری فیملی تین بہنوں ، دو بھائیوں اور امی ابو پر مشتمل ہے ، والد سرکاری ملازم ہیں ، والدہ بھی چھوٹی موٹی جاب کر تی ہیں ، والدین کا احسان ہے کہ انہوں نے ہمیں اچھی تعلیم دلائی ، میں نے سرگودھا یونیورسٹی سے ایم ایس سی کیا ہے ، چھوٹی بہن پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے کر رہی ہے ، میں گورنمنٹ جاب کر تی ہوں ، مڈل اسکول میں ایس ای ایس ای ٹیچر ہوں ، چھوٹی بہن پرائیویٹ اسکول میں پڑھاتی ہے ، ایک بڑا بھائی شادہ شدہ ہے ، چھوٹا ابھی پڑھ رہا ہے ۔

میں پچیس سال کی تھی جب گورنمنٹ ملازم بھرتی ہے ، سرکاری جب ہوئی تو رشتے آنے لگے ، ابو اور بڑا بھائی ٹالتے رہے ،میں سمجھی شاید کسی اچھے رشتے کی تلاش میں ہیں مگر جب انتہائی معقول رشتوں کو بھی ٹھکرا دیا گیا تو مجھے حیرت ہو نے لگی ، میں زبان سے کچھ نہیں کہہ سکتی تھی ، میں ایک ایسے ملک میں پلی بڑھی تھی جو مشرقی روایات اور مشرقی تہذیب و تمدن کا گہوارہ سمجھا جا تا ہے ، انتہائی معقول رشتے آنے کے باوجود جب ابو اور بھائی انکار کرتے تو میں ہمیشہ یہی سوچتی کہ وہ بڑے ہیں ،مجھ سے ذیادہ جانتے ہیں اور وہ میرے حق میں بہتر فیصلہ کریں گے ۔

آج محسوس ہوتا ہے شاید میں غلط سوچتی تھی ، جس دن گورنمنٹ سیکٹر میں میری جاب ہو ئی تھی اس دن ابو نے کہا تھا اب میرے سارے خواب پورے ہو جائیں گے اور شاید آج تک ابو وہی خواب پورے کر رہے ہیں ۔ ابو کا خواب کیا تھا ؟ ایک بڑی کوٹھی ، ایک بڑا گھر اور ایک بڑا مکان جس پر وہ فخر کر سکیں ، وہ اپنے رشتہ داروں میں سب سے اونچے نظر آئیں ، وہ لوگوں میں فخرکر سکیں کہ محلے میں سب سے اونچا گھر ان کا ہے ۔

ابو کے خواب تو پورے ہو چکے ہیں لیکن میں اب تیس سال کو پہنچ چکی ہوں ، میں نے اپنے تمام تمناوٴں اور خواہشوں کا خون کر دیا ہے ، میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اب میں شادہ نہیں کروں گی ۔ اب میں نہ صرف نفسیاتی مریض بن چکی ہوں بلکہ کئی جسمانی بیماریاں بھی لاحق وہ چکی ہیں آخر میں نے فطرت سے بغاوت کی ہے اورکوئی فطرت سے بغاوت کر کے چین اورسکون کی زندگی کیسے گزار سکتا ہے ۔

ابو اور بھائی کا خواب تو پورا ہو چکا ہے لیکن انہیں یہ احساس کبھی نہیں ہو گا کہ اپنے ایک خواب کے لیئے انہوں نے کسی کے کتنے خوابوں کا قتل کیا ہے “
چھ ماہ پہلے میں نے ”بیٹیوں کے خاموش آنسو “کے عنوان سے کالم لکھا تھا اس وقت بھی کچھ ایسی ہی ای میلز موصول ہو ئی تھیں ۔ ایک بہن نے لکھا تھا کہ ان کے والد فوت ہو چکے ہیں گھر کا نظام والدہ نے سنبھالا ہے ،میں پرائیویٹ اسکول میں پڑھاتی ہوں جس سے گھر کے اخراجات چلتے ہیں ، ایک بڑا بھائی ہے جو یونیورسٹی میں پڑھتا ہے ، اسے گھر کا احساس ہے نہ ہم بہنوں کا ، گھر سے یونیورسٹی پڑھنے کے لیئے جاتا ہے اور وہاں جا کردوستوں کے ساتھ آوارہ گردی کے لیئے نکل جاتا ہے ۔

چار سال ہوگئے ابھی تک اس کا ایم بی اے کلیئر نہیں ہوا، اس کے سیمسٹرکی فیس بھی میں ارینج کرتی ہوں ۔ مجھ سے چھوٹی تین بہنیں اور دو بھائی ہیں گھر میں رشتے آتے ہیں لیکن میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ میں شادی نہیں کروں گی ، بڑے بھائی کا پتا ہے وہ غلط راستوں پر چل نکلا ہے میں نے بھی اگر شادی کر لی تو امی اور چھوٹے بہن بھائی کہاں جائیں گے۔
خوشی اس بات کی ہے کہ ہماری مشرقی روایات اور شرم و حیا آج بھی زندہ ہے اور دکھ اس بات کا ہم مردوں میں سے بعض کس درجہ گھٹیا اور بے حس ہیں ۔

نبی اکرم کی ایک حدیث ہے جس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ جب بیٹی جوان ہو جائے تو اس کی شادی میں تاخیر نہیں کرنی چاہیئے۔بیٹیاں بے زبان ہوتی ہیں وہ اپنی زبان سے کچھ نہیں کہتیں ایک باپ ،بھائی اور شوہر کو اس با ت کا احساس ہو نا چاہئے۔ شاید آپ یقین نہ کریں جب یہ کالم لکھ رہا تھا محلے کی ایک خاتون آ کے بیٹھ گئیں اور بتانے لگیں کہ کس طرح داماد اس کی بیٹی کو مارتا ہے ۔اور پھر مثال دے کے رونے لگیں کہ بیٹیاں تو دیوار کی طرح خاموش ہوتی ہیں ،آپ دیوار کو جتنی مرضی ٹھوکریں لگائیں ، ڈنڈے برسائیں وہ اف تک نہیں کہے گی ، بیٹیاں بھی دیوا ر کی طرح بے زبان ہوتی ہیں یہ اندر سے ٹوٹ جاتی ہیں ، ظلم وستم کا ہر گھونٹ صبر اورخاموشی سے پی جاتی ہیں لیکن زبان سے کبھی اف تک نہیں کہتیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :