دوستی کا مضبوط بندھن

پیر 25 مئی 2015

Prof.Riffat Mazhar

پروفیسر رفعت مظہر

ہم سمجھتے ہیں کہ پاک چائنااکنامک کوریڈور محض دوملکوں کے باہمی مفادات کاایک منصوبہ ہی نہیں بلکہ دونوں ملکوں کی اخوت ،محبت اوردوستی کا اٹوٹ بندھن بھی ہے۔ امریکہ توعشروں سے گوادرپر نظریں جمائے بیٹھاتھا لیکن اب اُسے بھی یقین ہوچلاہے کہ آبنائے ہرمزسے گزرنے والے دنیاکے 33 فیصد تیل کاچودھری بننے کااُس کادیرینہ خواب کبھی پورانہیں ہوگا۔

اِسی لیے امریکہ میں ہر سطح پر ہاہاکار مچی ہوئی ہے۔اُدھر بھارتی وزیرِاعظم نریندرمودی کوجب سے اِس منصوبے کاعلم ہواہے وہ بھی ”مرضِ اسہال“میں مبتلاء ہوچکے ہیں، ڈاکٹرحیران وپریشان کہ”اُلٹی ہوگئیں سب تدبیریں ،کچھ نہ دوانے کام کیا“۔ سناہے کہ اب بھارت کے حکیموں اور ویدوں سے مشورے جاری ہیں تاکہ مودی صاحب کواِس ”مرضِ نامعقول“سے چھٹکارادلایا جاسکے ۔

(جاری ہے)


دشمن توخیردشمن ہی ہوتاہے اوروار کرنااُس کاحق لیکن ہمارے ہاں بھی کچھ لوگوں کے پیٹ میں ”ایویں خوامخوا“ مروڑاُٹھ رہے ہیں۔وزیرِاعظم صاحب نے اکنامک کوریڈورپر اے پی سی بلوائی جہاں احسن اقبال صاحب نے پوری جزئیات کے ساتھ اِس منصوبے کے ہرپہلو پرروشنی ڈالی ۔تب تووہاں تنقیدوتعریض کی کوئی تواناآواز نہیں اُٹھی لیکن اے پی سی کے خاتمے کے ساتھ ہی ”اپنی اپنی ڈفلی ،اپنا اپناراگ“۔

ہوسکتا ہے کہ یہ وزیرِاعظم صاحب کے پُرتکلف ظہرانے کااثر ہوکہ شرکائے اے پی سی نے خاموشی اختیارکی ۔ وزیرِاعظم صاحب کی اے پی سی کے چارروز بعداے این پی نے کوئٹہ میں ایک اوراے پی سی بلالی جس میں لسانی عصبیت پھیلانے کی بھرپورکوشش کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ اِس اقتصادی راہداری منصوبے کونوازلیگ متنازع بنانے کی کوشش کررہی ہے اوروہ اِس منصوبے کے فوائدسے خیبرپختونخوا اور بلوچستان کومحروم رکھنے کی تگ ودَومیں ہے۔

ایک محترم لکھاری جویہ سمجھتے ہیں کہ افلاطون ،ارسطو اوربزرجمہرسمیت تمام دانشوروں کی روحیں اُن میں حلول کرچکی ہیں اوراُن کافرمایا ہوااتنا مستندکہ اگرکوئی اختلاف کی جرأت کرے توقابلِ گردن زنی،وہ بھی اپنے کالموں میں اقتصادی راہداری کے روٹ پراکثر ”رَولا“ڈالتے رہتے ہیں۔ہمیں اِس روٹ کاتو ”کَکھ“ پتہ نہیں تھا البتہ یہ ضرورجانتے تھے کہ اِس منصوبے کی تکمیل سے پاکستان کی نہ صرف قسمت جاگ اُٹھے گی بلکہ غربت وافلاس بھی قصّہٴ پارینہ بن جائے گی۔

اِس لیے ہمیں رہ رہ کرنواز لیگ پر غصّہ آرہا تھاکہ وہ اِس منصوبے کوخوامخواہ متنازع بنانے کی کوشش کیوں کر رہی ہے ۔اسی غصّے نے ہماری تحقیق کومہمیز دی اور تھوڑی سی تحقیق کے بعدہی ہمیں علم ہوگیا کہ قوم کوگمراہ کرنے کے لیے ”سفیدجھوٹ “بولا جارہا ہے۔ رہی سہی کسروزیرِمنصوبہ بندی ،ترقی ومواصلات احسن اقبال صاحب کے کالم نے نکال دی۔ اُن کاکالم پڑھ کرہم یہ سوچنے پرمجبور ہوگئے کہ نریندرمودی نے تو”ایویں ای“ 39 کروڑڈالر دے کر”را“ کواِس اقتصادی منصوبے کی ناکامی کامشن سونپاہے ،اُنہیں یقین ہوناچاہیے تھاکہ پاکستان کے اندربھی ایسے ”ماہرین“ موجودہیں جواِس منصوبے کو”کالاباغ ڈیم“ بناکرہی دَم لیں گے۔


اقتصادی راہداری کاصرف ایک روٹ نہیں بلکہ تین روٹ ہیں جن میں سے کوئی ایک روٹ بھی ایسانہیں جوبلوچستان اورخیبرپختونخوا سے نہ گزرتاہو۔ مغربی ،وسطی اورمشرقی روٹس میں سے مغربی روٹ گوادر ،بسیمہ ،سریاب، قلات، کوئٹہ، قلعہ سیف اللہ ،ژوب ،ڈیرہ اسماعیل خاں ،اسلام آباد اورپشاور سے خنجراب جبکہ وسطی روٹ گوادر ،بسیمہ ،خضدار ،رتوڈیرو اور انڈس ہائی وے پشاورسے خنجراب تک ہے۔

مشرقی روٹ گوادر ،بسیمہ ،خضدار ،سکھر ،کراچی ،ملتان ،لاہور ،اسلام آباد ،پشاورسے خنجراب تک ہے۔ اِن تینوں روٹس کوسامنے رکھتے ہوئے کسی عام فہم آدمی کوبھی یہ اندازہ لگانے میں دشواری نہیں ہو گی کہ اقتصادی راہداری کا سب سے زیادہ فائدہ بلوچستان اورخیبرپختونخوا کوہی پہنچنے والاہے۔ مغربی روٹ پرتیزی سے کام جاری ہے اوریہ روٹ2016 ء میں فعال ہوجائے گا ۔

اِس روٹ سے پنجاب کاکوئی ایک شہربھی منسلک نہیں۔اسی روٹ سے صاف ظاہرہوتاہے کہ اِس کاسب سے زیادہ فائدہ بلوچستان کوپہنچے گا۔ بلاخوفِ تردیدکہا جاسکتا ہے کہ مستقبل قریب میں بلوچستان اقتصادی راہداری کاگیٹ وے بننے جارہا ہے ۔گوادرسے کوئٹہ اورگوادر سے سکھر اقتصادی راہداری سے اندرون بلوچستان کے تمام پسماندہ علاقے ملک کے دیگرحصّوں سے منسلک ہوجائیں گے جس سے نہ صرف روزگارکے لاتعدادمواقع میسرہوں گے بلکہ ایسی سیاسی بیداری پیداہوگی جوبلوچی سرداروں کو ہرگز قبول نہیں کیونکہ اگراندرون بلوچستان پسماندگی اورجہالت دورہو گئی تویہ سرداراپنے سیاسی مقاصدحاصل نہیں کر سکیں گے ۔


اب آئیے ”ارسطوئے دَوراں“کے جھوٹ کی اُس پٹاری کی طرف جسے محترم اپنے کالموں میں کھول کے قوم کوگمراہ کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔اپنے حالیہ کالم (23 مئی) میں اُنہوں نے ”دَرجوابِ آں غزل“احسن اقبال صاحب کے کالم کاجواب دینے کی کوشش ضرورکی لیکن اِدھراُدھر کی باتوں اور” طعنوں مہنوں“کے سوااُس میں”کَکھ“ نہیں تھا۔

محترم لکھاری کی خدمت میں دست بستہ عرض ہے کہ
نکالا چاہتا ہے کام تُو طعنوں سے کیا غالب
تیرے بے مہر کہنے سے وہ تجھ پہ مہرباں کیوں ہو
لکھاری موصوف نے کہاکہ حکومت نے روٹ تبدیل کرکے اچھا نہیں کیا جبکہ جناب احسن اقبال کہتے ہیں کہ کالم نگار 2013ء سے پہلے کے جس نقشے کاذکر کررہے ہیں اُس کا کہیں وجود تک نہیں تھا۔ اُنہوں نے کہا”2013ء میں معاہدے کے بعدہی انفراسٹرکچر ،توانائی اورگوادربندرگاہ کے ورکنگ گروپس تشکیل دیئے گئے جس کے بعددونوں ممالک کے ماہرین نے روٹس کی نشاندہی کے لیے کام کا آغازکیااِس لیے کوئی نقشہ 2013ء سے پہلے کیسے بن گیا“۔

محترم لکھاری کے جھوٹ کی پٹاری کاسب سے بڑاجھوٹ یہ ہے کہ بلوچ اورپختون علاقوں کو صنعتی زونزسے محروم رکھاجا رہاہے اورسارے صنعتی زون پنجاب میں ہی بنادیئے گئے ہیں۔اپنے حالیہ کالم میں بھی اُنہوں نے پھروہی دہرایا ”مشرقی کی بجائے مغربی روٹ کوتجارتی روٹ بنانااور اکنامک زونز وہاں تعمیر کرناضروری ہے “۔لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیاکہ احسن اقبال صاحب نے اکنامک زونزکے بارے میں کسی بھی طرح کی وضاحت کرنے کی بجائے ساراوقت اُن کی نیت پرشَک کرنے اوراُنہیں جھوٹا ثابت کرنے پرصرف کیاہے۔

شایدمحترم لکھاری نے احسن اقبال کاکالم غورسے پڑھنے کی زحمت ہی نہیں کی کیونکہ اُنہوں نے توپوری صراحت سے لکھاہے کہ فی الحال گوادر میں صرف ایک صنعتی زون بن رہاہے (گوادرپنجاب میں نہیں )، باقی زونزکا فیصلہ دونوں ممالک کامشترکہ ورکنگ گروپ کرے گاجس کاقیام دو ماہ بعدعمل میں لایا جائے گااورحکومت صنعتی زون کے قیام سے پہلے تمام صوبوں سے مشاورت کرے گی ۔ اِس لیے یہ بھی محترم لکھاری کی ذہنی اختراع ہی ہے کہ سارے صنعتی زون پنجاب میں بنائے جارہے ہیں۔دراصل اے این پی اورلکھاری موصوف کو اعتراض ہے توصرف اُس مشرقی روٹ پرجو پنجاب سے گزرتا ہے۔پہلے بھی اے این پی کوکالا باغ ڈیم پرصرف یہی اعتراض تھاکہ اگریہ ڈیم بن گیاتو پنجاب کی لاکھوں ایکڑ بارانی زمین سیراب ہوجائے گی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :