کیمرے کی آنکھ

بدھ 27 مئی 2015

Nadeem Tabani

ندیم تابانی

ڈسکہ میں وکلاء اور پولیس نے ایک دوسرے کو ڈس لیا، دونوں کا کام قانون پر عمل در آمد، انصاف کی فراہمی ہے ،دونوں ہی نے دل کھول کر قانون شکنی بھی اور ظلم کی تاریخ بھی لکھی،ایس ایچ او کا دعوی ہے کہ انہیں وکلاء نے گالیاں دیں تو اشتعال میں آگئے ، واہ جی وا! گالی کے جواب میں گولی ہی چلا دی، حالاں کہ گالی سے بھی کام چل سکتا تھا ، پنجاب والوں کے پاس تو گالیوں کا اتنا ذخیرہ ہوتا ہے خود ختم ہو جائیں گالیاں ختم نہیں ہوں گی، کسی وکیل نے ایک گالی دی تو ایس ایچ دو گالیاں دے دیتے ، ایک گالی کو دس سے ضرب بھی دیا جا سکتا تھا۔

ایس ایچ او نے فائرنگ کر کے وکلاء کو” پھڑکا دیا“ ، پھڑکنے والوں نے باقیوں کو بھڑکا اور تڑپادیا۔انہوں نے گولی کا جواب آگ لگا کے دیا اللہ اللہ خیر صلا۔

(جاری ہے)


چھوٹے میاں صاحب نے عدالتی تحقیق کا اعلان کر دیا، تفتیش و تحقیق شاید یہی بتلائے کہ تالی دونوں ہاتھ سے بجی ہے ،شریک جرم دونوں طرف کے نامی گرامی لوگوں کو سزا دی جائے، پولیس افسران کو محکمے سے فارغ کر کے ڈسکہ کی سڑکیں صاف کرنے پر لگا دیا جائے اور وکلا کے لائسنس منسوخ کر کے ان کو عدالت کے باہر چنا چاٹ اور لیموں پانی بیچنے پر لگا دیا جائے ، آدھے پیسے سرکار کے آدھے بیو پار کے۔


####
نیٹو والے بڑے استاد اور شرارتی ہیں ، کہتے تو یہی ہیں ہمارا اسلحہ کبھی چوری نہیں ہوا ، لیکن متحدہ کے مرکز نائن زیرو سے نیٹو اسلحہ ملنے کے بعد اب آئی جی سندھ کے مطابق ذوالفقار مرزا کے ساتھیوں کے پاس بھی نیٹو اسلحہ ملا ہے ، لگتا یہی ہے نیٹو نے متحدہ اور پی پی میں برابر سرابر تقسیم کیا تھا، کیوں کہ ایک کے پاس شہری طاقت ایک کے پاس دیہی طاقت ہے ، دونوں طاقتوں کے پاس نیٹو کی طاقت بھی ہونی چاہیے۔

یہ طاقت پہلے سے موجود طاقت میں کئی گنا اضافہ کر دیتی ہے ۔ نیٹو کا کام شرارت کرنا اور دنگا فساد کرنا ہے ، جیسے بھی ہو ، جس میں بھی ہو ۔
####
قانون کی تشریح اور قانون کی حفاظت کرنے والے اپنے کام کا حق خدمت بھی قانون سے لیتے ہیں، قانون کا مذاق بھی اڑاتے ہیں ، دھجیاں بکھیرتے ہیں، گویا ، قانون نہ ہواان کا گھریلو ملازم ہوا ، پانی لانا ، چائے پلانا ، صفائی کرنا ، پوچھا لگانا، قانون بے چارا توکچھ نہیں کہہ سکتا ، البتہ کچھ لوگ قانون کی حمایت میں ضرور اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، اس کو اپنی حمایت کا یقین دلاتے ہیں ،لیکن جب باری آتی ہے ان کی اپنی تو پھر ان کی بھی وہی حالت ہوتی ہے ، وہ بھی حق خدمت وصول کرتے ہیں قانون سے ۔


ویسے ہمارے ملک میں کوئی بھی شخص قانون کا مخالف نہیں ، سب قانون کے نہ صرف حامی ہیں بلکہ قانون کے حق میں جلسے جلوس ، نعرے اور مظاہرے بھی کرتے ہیں ، جن لوگوں کے بارے عوامی رائے یہ بنتی ہے کہ وہ قانون شکن ہیں ،قانون کے سب سے بڑے حامی بھی وہی ہوتے ہیں ۔قانون کو ایسے لوگوں کا شکر گزار رہنا چاہیے ، غریب غرباء کی حمایت سے قانون کو کیا ملے گا، وہ بے چارے ویسے بھیگی بلی بن جاتے ہیں، تھانہ کچہری کے نام سے ہی تھر تھر کانپتے ہیں، قانون کو جی داروں کا ساتھ دینا چاہیے ۔


####
” کیمرے کی آنکھ آپ کو دیکھ رہی ہے “ ۔ دیکھتی رہے ، کب تک دیکھے گی ، جب چاہیں گے ، نہیں دیکھ سکے گی ، ہمیں آنکھ بند کرنا آتا ہے ، کپرا ڈال دیں گے ، ٹیپ چپکادیں گے ، سسٹم جام کر دیں گے ، کچھ نہ کر سکے تو آنکھ ہی پھوڑ دیں گے ، اب بھلا پھوٹی آنکھ کے ساتھ کیمرہ کیا دیکھے گا، اسے کیمرہ کہیں گے ہی تب جب اس کی آنکھیں سلامت ہوں گی ، کام ٹھیک ٹھیک کریں ۔


کراچی کے علاقے گلشن اقبال کے ایک نجی بنک میں مبینہ طور پر نجی گارڈ نے کیمرے کی آنکھ پر ٹیپ چپکایا ، لاکرزتوڑے اور سامان لے کر چلتا بنا۔ آنکھ دھری کی دھری رہ گئی ، کیا کر لیا کیمرے کی آنکھ نے۔ ویسے الزام تو نجی گارڈ پر لگا ہے لیکن کیا پتا کسی آفیسر نے اس کی سرپرستی کی ہو ، یا گارڈ کسی کام سے باہر آیا ہو تواس کے ساتھ کچھ لوگ اسلحہ دکھا اور دھمکا کر ساتھ لے گئے ہوں ، اور سامان لے جاتے ہوئے گارڈ کو بھی ساتھ لے گئے ہوں ۔
کچھ بھی ہو سکتا ہے ، لیکن یہ بات ضرور یاد رہنی چاہیے کہ سارا کام کیمرے کی آنکھ کے سپرد کر کے لمبی تان کے سوجانا عقل مندی نہیں، ایسی عقل منددوں اور ہشیاروں کو جب ڈیڑھ ہشیار ٹکراتے ہیں تو ساری ہشیاری دھری رہ جاتی ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :