پڑھے لکھے جاہل

بدھ 27 مئی 2015

Azhar Thiraj

اظہر تھراج

شمالی پنجاب کے قصبہ ڈسکہ میں دو وکلاء کے بہیمانہ قتل کے بعد کالے کوٹ اور کالی وردی کی لڑائی کے دوران پورا پنجاب جلتارہا،ایسے لگ رہا تھا کہ قانون کے رکھوالوں کا کالا پن جیسے پورے جوبن سے باہر نکل آیا ہو۔ انتظامی مشینری غائب تھی،کہیں کہیں کوئی پولیس والا نظر آرہا تھا،جو موجود تھے وہ کالے کوٹ سے اپنی مرمت کروا رہے تھے،حیرت کا مقام یہ ہے کہ یہاں پڑھے لکھے لوگ گتھم گتھا تھے،جن کو جاہل تو نہیں پڑھا لکھا جاہل کہنا بجا ہوگا،ایک ان پڑھ لا علمی میں غلطی کرتا ہے اور ایک پڑھا لکھا آدمی پوری منصوبہ بندی سے گل کھلاتاہے۔

ملک کے اثاثہ جات کو ایسے جلایا جا رہا تھا جیسے ان کے باپ داد ا کی جائیداد ہو۔ عوام ٹریفک میں پھنسے ہوئے تھے تو وارڈن حضرات ایک کونے میں دبکے رہے،احتجاج کرنیوالوں نے احتجاج کرنا ہے،ریاست کیوں غائب ہے،یہاں کوئی قانون ہے یا نہیں؟؟؟
مشاہدے کی بات ہے کہ یہ دونوں ”کالے“ اپنے آپ کو ملک کا مالک اور عوام کو رعایا سمجھتے ہیں،کھل کے کہا جائے تو فرعونیت ان کے رویوں سے جھلکتی ہے،ایک آدمی کو مقدمہ درج کروانے سے فیصلہ آنے تک دونوں ہاتھوں سے لوٹا جاتا ہے،ہمارا عدالتی نظام بھی ما شااللہ ہے کہ ایک عام مقدمے کا فیصلہ آنے تک صاحب حیثیت بندہ بھی گھر سے فٹ پاتھ پر آجاتا ہے،تھانوں میں جائیں انسان کپڑے بھی اتروا کر نکلتا ہے، پولیس والے سگریٹ کی ڈبیا کی خاطر اپنا ایمان فروخت کردیتے ہیں۔

(جاری ہے)

عام آدمی کیلئے انصاف دینے میں کئی سال لگا دیے جاتے ہیں اپنے پیٹی بھائیوں کیلئے پندرہ دن میں انصاف کی ضد کی جاتی ہے۔
لاہور کے سا نحہ ماڈل ٹاؤن اور یوحنا آباد کے چرچ کے باہر زندہ جلائے جانیوالے دوعدد انسانوں کے زخم ابھی ہرے تھے کہ اب نئے زخم لگا دیے گئے ہیں، گلی محلے کے بچوں کو اکٹھا کرکے،سڑکیں بند کرکے بسوں کو توڑ کر،سرکاری دفاتر،قومی املاک کو راکھ بنا کر کون سی ملک کی خدمت کی جارہی ہے، کوئی قانون ہے کیا؟ انسا ن اتنا بے حس ہوجائیگا کہ درندے بھی اس سے منہ چھپانے لگیں ، اتنا بھی گر جائے گا کبھی سوچا نہ تھا۔


ہمارے رویے دن بدن ایسے ہوتے جارہے ہیں کہ اپنے آپ کو انسان کہنے سے بھی گھن آتی ہے۔انقلاب،تبدیلی،اسلامی پاکستان،جمہوری پاکستان کے نعرے ہم روز سنتے ہیں۔روٹی،کپڑا،مکان،روزگار اچھی تعلیم کے دلکش پیکج بھی ملتے ہیں۔مسجدوں کے واعظ ہر جمعہ کے خطبہ میں حکایات،واقعات بیان کرکے ہمارے رویوں کو بدلنے کا درس دیتے ہیں۔ارکان اسلام پر پابند رہنے کے ساتھ ساتھ اپنے اردگرد رہنے والوں کے ساتھ اچھے برتاؤ کی بھی تلقین کرتے ہیں،سماجی تنظیمیں مردہ معاشرے کو زندگی دینے کی تگ و دو کرتی ہیں،ہم سنتے ہیں،پر عمل نہیں کرتے کیوں؟ایک بنیادی سوال،ذہن میں ہروقت چبھنے والی ایک تکلیف دہ چبھن۔

ہم اپنے ارد گرد آس پاس برا بھلا سب دیکھتے ہیں لیکن کبوتر کی طرح آنکھیں موند لیتے ہیں ،ہمسائے میں غریب کا بچہ بھوکا سو جاتا ہے اس کی خبر تک نہیں لیتے،دوا نہ ہونے سے کئی مریض بے بسی کی موت مر جاتے ہیں لیکن ہمارا ضمیر مدد کو تیار نہیں ہوتا۔ہم شیعہ سنی،بریلوی دیوبندی میں تقسیم ہوگئے، تقسیم ہی تقسیم وحدت کہیں بھی نہیں، نبی رحمتٴﷺ تو فرما گئے مسلمان تو ایک جسم کی مانند ہیں،اگر جسم کے ایک حصے کو تکلیف پہنچے تو سارا جسم بیقرار ہوجائے،ایک مسلمان کو تکلیف پہنچے تو دنیا کے سارے مسلمان اس تکلیف کو محسوس کریں،لیکن افسوس! تم جدا میں جدا،ساری امت جدا جدا،میرے خیال میں پاکستانی معاشرہ مردہ پرست ہو چکا ، زندگی میں کوئی نہیں پوچھتا مگر دم نکلتے وقت ہونٹوں پر دیسی گھی لگا دیا جاتا ہے تا کہ لوگ سمجھیں بڑے میاں دیسی گھی کھاتے کھاتے مرے ہیں۔

"ظالمو! دیگیں چڑھا رہے ہو، اسے چند لقمے دے دیتے تو یہ یوں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر نا مرتا"
احتجاج ضرور کیجئے اپنی بات منوانے کی بھرپور کوشش کیجئے لیکن اتنا ضرور یاد رکھیے کہ معاشرے کا وجود جب انصاف کی چھاؤں سے محروم ہوجاتا ہے تو وہ تیزی سے گلنے سڑنے لگتا ہے،اور اس کی نمو کے تمام امکانات دم توڑ دیتے ہیں،انصاف کی عمارت کو سیاست سے خود بنانے والے ہی کھرچنا شروع کر دیں تو وہ ریزہ ریزہ بن کر بکھر جاتی ہے،اور اس کے ساتھ ہی معاشرہ بھی سسک سسک کر دم توڑ دیتا ہے،دراصل یہ روشنی اور اندھیرے کی جنگ ہے،اندھیرا اپنے پنجے پھیلا کر روشنی کا گلا گھونٹنے کی کوشش کرتا ہے،اگر روشنی پوری طاقت کے ساتھ مقابلہ نہیں کرے گی تو آخر کار اس کا وجود اندھیرے کی اتھاہ گہری قبر میں ڈوب جائے گا۔

خدا را! ملک میں کچھ روشنی باقی ہے تو اندھیروں کی سیاہ چادر نہ پہنائی جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :